ملک کو امن درکار ہے یا شورش‘ فساد یا ہم آہنگی۔ سب جانتے ہیں کہ امن‘ قرار اور ٹھہرائو ہی آدمی کی سب سے بڑی آرزو ہے۔ گیت امن کی چاندنی میں لکھے جاتے ہیں اور رزق کافروغ قرار کا موسم چاہتا ہے۔ برف بلندیوں پر پگھلتی اور میدانوں میں پھول کھلاتی ہے۔ من موہنے شریر بچوں کی طرح ندیاں پہاڑوں میں شور مچاتی ہیں‘ پھر وہ وادیوں میں اترتی‘ کھلیانوں اور گلستانوں کو سیراب کرتی ہیں۔ کوہستانوں میں جھاگ اڑاتے پانیوں کا خیرہ کن جمال‘ مسحور ہو کر شاعر پکار اٹھتے ہیں۔
وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی
اٹکتی‘ لچکتی‘ سرکتی ہوئی
رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ
پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ
باغ اور کھیت ثمربار ہوتے ہیں‘ مگر جب ہموار میدانوں میں مٹی سے پانی کا وصال ہوتا ہے۔ ابدلآباد تک باقی رہنے والی شاداب زندگی کا رزق اور حسن۔ آبِ حیات‘ اگر وہ کناروں میں ہوں۔ جام خالی ہو جاتا ہے‘ مگر شاعر کی امید باقی رہتی ہے ؎
گماں مبر کہ بہ پایاں رسید کار مغاں
ہزار بادۂ ناخوردہ در رگِ تاک است
یہ گمان مت کرو کہ سب کا سب میکدے میں ارزاں ہو چکا‘ ہزار اَن پیے جام‘ ابھی تاکستان کی شاخوں میں محوِ خواب ہیں۔
رب العالمین نے اپنا اور رحمت اللعالمینؐ کا انکار کرنے والے قریش کے سفاک سرداروں کو اپنے کرم گنوائے تو یاد دلایا: سرما اور گرما کے تجارتی کارواں‘ اس کی عطا سے رواں رہے۔ اس رب کی انہیں عبادت کرنی چاہیے جس نے بھوک میں انہیں رزق دیا اور خوف میں امن دیا۔
پانچ ہزار برس ہوتے ہیں۔ صاحب درود سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند‘ ذبیح اللہ‘ سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام‘ اللہ کے گھر کی بنیادیں اٹھا چکے تو اللہ کے خلیل نے دعا کے ہاتھ اٹھائے۔ یا رب! انہیں پھلوں سے رزق دینا‘ یا رب‘ میری اولاد میں سے‘ ان کے لیے ایک پیغمبر مبعوث کرنا‘ جو انہیں تیری آیات سنائے‘ انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے۔
ابراہیمؑ اللہ کو عزیز تھے‘ متجسس اور متوکل۔ سوال کرنے اور عقل کے بے پایاں خزانوں سے ہمیشہ فیض پانے پر آمادہ۔ اس قدر وہ خالق کو محبوب ہوئے کہ یہ کہا: میں تجھے تمام انسانوں کا امام بنا دوں گا۔ ان کی ہر نشانی کو باقی رکھا۔ اس مقام کو جہاں پانی کی تلاش میں ان کی رفیقِ حیات ہاجرہؑ کی بے تابی بروئے کار آئی تھی‘ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے 'سعی‘ کا مقام قرار دیا۔ طوافِ کعبہ کا ایک لازمی حصہ۔ رمضان المبارک میں جو جاتے ہیں وہ دیکھتے ہیں کہ حرم پاک تو کیا‘ ماہِ صیام کے ہنگام‘ مکہ کی ایک ایک گلی‘ ایک ایک پتھر‘ ایک ایک اینٹ پہ نور برستا ہے۔
اس قدر یہ شہر پروردگار کو خوش آیا کہ دائمی طور پر اسے امن عطا کیا۔ اس کی قسم کھائی:
قسم ہے تین کی اور زیتون کی
طور سینا کی اور اس شہر امن کی
بے شک انسان کو ہم نے بہترین تقویم پر پیدا کیا
پھر اسے پست سے بھی پست تر بنا دیا
مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل اجلے کیے
پس ان کے لیے باقی رہنے والا اجر ہے
پھر کون ہے جو اس کے بعد دین کو جھٹلاتا ہے
کیا اللہ ہی احکم الحاکمین نہیں؟
فرمایا: کسی گروہ کی دشمنی تمہیں زیادتی پر آمادہ نہ کرے۔ عدل کرو کہ یہی تقویٰ ہے‘ حسنِ عمل کا یہی بہترین اظہار ہے۔
مشکوک میڈیا گروپ اپنے مشن پر ڈٹا ہوا ہے‘ عمران خان اور تحریک انصاف سمیت‘ ہر اس شخص کی کردار کشی‘ حیلے بہانے سے نون لیگ کی حمایت۔ اب براہِ راست نہ سہی‘ بالواسطہ طور پر افواجِ پاکستان کی مخالفت۔ بھائی! یہ سامنے کی بات ہے کہ واضح پسند اور ناپسند رکھنے والے ایک ٹی وی مبصر کو 10 کروڑ آبادی پر نگران حاکم نہیں بنایا جا سکتا‘ جب مستقبل کی حکومت کا انتخاب ہونا ہو۔ اسے بنایا گیا اور اس کے دور میں دھاندلی ہوئی۔ ہر اس حلقۂ انتخاب کے صندوقچیوں نے گواہی دی‘ جو کھولے گئے۔ اکثریت کو یقین ہے کہ ایک سبکدوش جج اور ایک سبکدوش چیف جسٹس‘ عدلیہ کے انتخابی افسروں کو دھاندلی پر آمادہ کرنے میں شریک تھے۔ وہ انتخابی افسر جن پر اب کبھی اعتبار نہ کیا جائے گا اور جنہوں نے اپنے ادارے کی توقیر مٹی میں ملا دی۔ کاروباری طبقات‘ بعض عرب ممالک اور امریکہ بہادر تو پہلے ہی نون لیگ کو اقتدار میں لانے کا عزم کر چکے تھے۔ رہی سہی کسر پولیس والوں اور ان انتخابی افسروں نے پوری کردی۔ نگران وزیراعلیٰ کیا شریک ذمہ نہ تھے؟ پھر ایک ایسے اہم عہدے پہ انہیں برقرار رکھنے کے لیے‘ وزیراعظم اس قدر کھکھیڑ کیوں کرتے ہیں۔ ان کی اہلیہ‘ محترمہ مریم نواز کی اتالیق کیوں بنی بیٹھی ہیں‘ وزیراعظم جن میں شاہی خاندان کے تسلسل کا خواب دیکھتے ہیں۔
پرویز رشید کے اس جملے کا مطلب کیا ہے کہ راولپنڈی میں تحریک انصاف کی ٹیوب پھاڑ دی جاتی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پرویز رشید صاحب کی ٹیوب پھاڑ دی گئی تھی بجا طور پہ۔ اس پر آزاد اخبار نویس نے دکھ کا اظہار کیا تھا۔ افسوس کہ کل جو لوگ ظلم سہتے ہیں‘ آج وہ خود ظالم بن بیٹھتے ہیں۔ کل جو ٹھوکروں میں ہوتے ہیں‘ دوسروں کو آج ٹھوکروں میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات یہ کہتے ہیں کہ نون لیگ کے سب دھاندلی کرنے والوں کی طرف سے پھانسی کا پھندہ قبول کرنے پر آمادہ ہیں۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ شریف خاندان سے اظہارِ وفاداری؟ آدمی تنکے سے ہلکا ہو جاتا ہے‘ جب اللہ کی بجائے‘ بندے سے کامل وفاداری کا پیمان کرتا ہے۔ بجا طور پر اس وزیر کے ایک رفیق کار ان کے لیے اقبال کا یہ شعر پڑھا کرتے ہیں۔
شریک حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے
خریدتے ہیں، فقط ان کا جوہر ادراک
اپنی شکایت میں عمران خان سچے ہیں اور پوری طرح سچے۔ ان کی حکمت عملی مگر اتنی ہی ناقص ہے۔ بہاولپور کے معرکۃ الآرا جلسۂ عام سے ان کے خطاب میں وزیرستان کا ذکر اس طرح نہ تھا، جیسا کہ ہو نا چاہیے۔ اس خطہ ارض کو اس قدر وہ عزیز رکھتے ہیں کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے گوارا تھے مگر فوجی قدموں کی چاپ نہیں۔ اس روز مگر وزیرستان کپتان کو یاد رہا اور نہ ان کے زبوں حال مکین۔ خوب وہ جانتے ہیں کہ ایسا کھلاڑی ہار جائے گا جو زچ ہو کر حملہ کرنے پر اتر آئے۔ بھڑک اٹھنے یا بجھ جانے کا نہیں، زندگی سلگتے رہنے کا نام ہے۔ چولہے میں پڑے ایندھن کی مانند نہیں‘ خود ترحمی نہیں، بلکہ خوف اور حزن سے آزاد ہو کر تحمل، وقار اور غور و فکر کے ساتھ منصوبہ بندی۔ رانا ثناء اللہ اور پرویز رشید ایسے لوگوں کو نظر انداز کر کے دیہاتی عورتوں کی طرح جو طعنے دیا کرتے ہیں، زمینی حقائق کو ملحوظ رکھ کر حکمت عملی انہیں تشکیل دینی چاہیے۔ تحریک انصاف کی کور کمیٹی میں کیا ایک شخص بھی ایسا نہیں، جو یہ بات سمجھ سکے‘ دوسروں کو سمجھا سکے کہ احتجاجی لانگ مارچ کو وزیرستان کی جنگ ختم ہونے تک ملتوی کر دینا چاہیے۔ سردار سورن جیت سنگھ تمہارا تعلق تو جنگ آزما دیار سے ہے، تمہی نے مشورہ دیا ہوتا‘ دبائو باقی رکھا جائے اور ممکنہ طور پر اسے مارچ 2015ء تک دراز کر دیا جائے۔
شریف حکومت میں ہوش مندی کی ایک کرن بھی اگر موجود ہے تو عمران خان سے انہیں بات کرنی چاہیے۔ براہ راست نہیں تو بالواسطہ۔ مجیب الرحمن شامی یا ایسے کچھ اور لوگوں کے توسط سے۔ کوئی فارمولا اب بھی تشکیل پا سکتا ہے۔ ایک سمجھوتہ اب بھی ممکن ہے۔ ملک کو امن درکار ہے یا شورش‘ فساد یا ہم آہنگی۔ سب جانتے ہیں کہ امن‘ قرار اور ٹھہرائو ہی آدمی کی سب سے بڑی آرزو ہیں۔ گیت امن کی چاندنی میں لکھے جاتے ہیں اور رزق کافروغ قرار کا موسم چاہتا ہے۔