ملک بھی کسی کی ترجیح ہوتا، قوم بھی ۔ کس طرح ممکن ہے کہ اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر نہ سوچا جائے اور مستقبل سنور جائے۔ ہمارے عہد کے عارف کا کہنا ہے کہ اللہ اگر اوّلین ترجیح نہ ہو تو اس کا حقیقی عرفان حاصل نہیں ہو سکتا۔ راہ میں گری پڑی چیز نہیں کہ خواہشات کی پیروی کے علی الرغم اس کا قرب ممکن ہو ۔اقبالؔ نے کہا تھا ؎
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق
شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کا نم
اقبال ؔ نے آنکھ کھولی تو مسلم برصغیر غلامی کی زنجیروں میں جکڑا تھا ،زوال کی بدترین حالت سے دوچار ۔ اس عہد کے نبّاض اکبر الٰہ آبادی نے، جس کے اسلوب میں مشرق کے عظیم فلسفی نے مزاحیہ شاعری کا تجربہ کیا، یہ کہا تھا ؎
میں کیا کہوں احباب کیا کارِ نمایاں کر گئے
بی اے کیا، نوکر ہوئے، پنشن ملی اور مر گئے
مسلم ہندوستان کو اقبالؔ نے احساسِ کمتری سے نجات دلائی ۔ اپنا شاندار ماضی اسے یاد دلایا۔ مسلسل اور متواتر وہ سبق دیا کہ ازبر ہو چکا تو نئی زندگی کی بنیاد بنا ؎
بے خبر تو جوہرِ آئینۂ ایّام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
اللہ کو کسی لشکر کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ ایک آدمی چاہیے ہوتا ہے، خالص اور یکسو۔ قائد اعظم کی سیرت!حیرت ہے کہ ایک کے بعد دوسرا سانحہ ہوتا رہا۔ ذاتی ، سیاسی اور قومی بھی ۔ ریاکاری اور کذب تو دور کی بات ہے ، ایک ذرا سا سمجھوتہ بھی اس شخص کو گوارا
نہ تھا ، مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ سے جس نے کہاتھا: دنیا کی سب نعمتیں میں دیکھ چکا۔ اس کے سوا اب کوئی آرزو نہیں کہ مسلمانوں کی خدمت کا حق ادا کر دوں۔ نواب بہادر یار جنگ اور سردار عبد الرب نشتر ایسے ہی نہیں ، قدرت نے کروڑوں ہمدرد اور حامی اسے عطا کیے، جنہوں نے مستقبل کا منظر کیا، اساس ہی بدل ڈالی۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ ہوم رول لیگ کے اجلاس میں مدعو کیے گئے، کرم چند موہن داس گاندھی نے قائد اعظم کو اس تنظیم سے الگ ہونے پر مجبور کر دیا تھا، جس کے کبھی وہ صدر تھے۔کانگرس کے ایک اجلاس میں قائداعظم کو اس حال میں سٹیج سے اتر کر خدا حافظ کہنا پڑا کہ ہندو لیڈر کو ''مسٹر گاندھی‘‘ کہنے پر 2500وفود کی اکثریت نے اصرار کیا کہ وہ انہیں ''مہاتما‘‘ کہہ کر پکاریں ۔ جب ایساکرنے پر وہ آمادہ نہ ہوئے تو ان پر ''شیم، شیم‘‘ کے آوازے کسے گئے۔ پھر وہ عہد طلوع ہوا کہ خط و کتابت میں محمد علی انہیں مسٹر گاندھی لکھتے اور مہاتما انہیں قائداعظم سے خطاب کرتے ۔ ان کے گھر پہ ملاقات کے لیے جاتے کہ ہندوستا ن کے مستقبل کا انحصار اس ایک آدمی پر تھا، جو تاریخ کے سامنے سینہ تان کر کھڑا تھا۔ اس سے پوچھے بغیر وہ نیا موڑ نہ مڑ سکتی تھی ۔ ایسی ہی ایک ملاقات کے ہنگام نمائش پسند گاندھی نے، بھارت کا طاقتور ہندو پریس، سرمایہ دار اور لیگ سے بظاہر دس گنا مضبوط کانگریس جس کی پشت پہ کھڑی تھی ، یہ کہاکہ وہ فرش پر بیٹھنا چاہیں گے ۔ کہا : یہ آپ کی مرضی ہے اور کرسی پہ تشریف فرما ہوئے۔
مشاورت پر قائد اعظم ایمان رکھتے تھے۔ اپنی ذات کو وہ ناگزیر نہ گردانتے اور بہرحال مشورہ کیا کرتے ۔ گاندھی کی تحریکِ ترکِ موالات اور علی برادران کی تحریکِ خلافت کے ہنگام قائداعظم یکہ و تنہا رہ گئے ۔ ایک پورا سال خاموشی سے ممبئی میں انہوں نے گزار دیا۔ مولانا محمد علی جوہر کے بھائی مولانا شوکت علی ہر کہیں قائد اعظم کے خلاف گفتگو کیا کرتے۔ کائیاں ابو الکلام آزاد آئینی ذرائع کوبہترین قرار دینے والے آدمی کو انگریز سرکار کا آدمی کہا کرتے ۔ قائداعظم نے ایک موقع پر انہیں "Show boy of Congress"کہا تو ایک وجہ شاید یہ بھی تھی ۔
آج اپنی لگام ہم نے قائدا عظم ثانی ایسے لوگوں کے حوالے کر دی۔ کڑے تیوروں والی ایک بزرگ سیاسی کارکن میاں محمد نواز شریف سے ملنے گئیں ۔اچانک یہ ارشاد فرمایا: میں کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا لیڈر ہوں ۔ خاتون کا کہنا ہے کہ وہ ہکّا بکّا رہ گئیں۔ ''اقبالؔ سے بھی زیادہ؟‘‘ اکّل کھرے لہجے میں انہوں نے کہا : میاں صاحب یہ بات آپ کو نہ کہنا چاہیے تھی ۔ بدمزہ ہو کر میاں صاحب اٹھ گئے اور ملاقات ناتمام رہ گئی ۔
ایک قیامت برپا ہے مگر افسوس کہ ذرائع ابلاغ سطح پر تیر رہے ہیں ۔ سچّائی کی تلاش سے زیادہ ، ٹی وی کے ٹاک شو کرنے والوں کو مقبولیت کی فکر رہتی ہے ۔ تفصیل پھر کبھی ، منافع کمانے والے مسلم کمرشل بینک کے سرکاری حصص شریف حکومت نے چپ چاپ بیچ دئیے۔ انتہا یہ ہے کہ کابینہ سے حساس قومی ادارے ، آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے شیئرز فروخت کرنے کی اجازت لے لی گئی۔ میڈیا میں کہیں کوئی ذکر ہی نہیں ۔
دامن پہ کوئی داغ نہ خنجر پہ کوئی چھینٹ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
پڑوسی بھار ت میں ، معاشی فروغ کی ربع صدی کے بعد، بعض کے لیے وہ اب نمونۂ عمل ہے ، بعض کے لیے مرعوبیت کا ذریعہ ، کسی بھی بینک کی 51فیصد ملکیت لازماً سرکار کے پاس ہوتی ہے ۔ تصور بھی نہیں کہ تیل اور گیس کی تلاش ایسا قومی ادارہ اور اس کا نظم و نسق بیچ ڈالا جائے۔ وہ بھی پر اسرار انداز میں ، خاموشی کے ساتھ ۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ خریدار کون ہے ۔ کہیں حکمران ہی تو نہیں ؟
شرجیل میمن نے ہمیں جتلایا:سندھ کے آئی جی کا تقرر صوبے کا حق ہے ۔ جی ہاں ! مگر اپنے عہدِ حکومت میں ہزاروں لاشیں گرنے کے بعد سمجھوتہ آپ ہی نے کیا تھاکہ پولیس افسروں کا چنائو وزیرِاعلیٰ، چیف سیکرٹری اور زندگیاں لٹانے والے رینجرز کے مشورے سے ہوگا۔ رنج اور قلق کے ساتھ کراچی کے عسکری حلقے سوال کرتے ہیں :ایک ناقص آئی جی پہ اصرار کیا اس پانچ ارب روپے کے سبب ہے ، سازو سامان کی خریداری کے لیے جو مختص ہوئے ؟ دوسری عالمگیر جنگ کے زمانے کی گاڑیاں خریدنے کے لیے ؟ فیاض لغاری ہی کیوں ؟ میر زبیر یا ذوالفقار چیمہ کیوں نہیں؟ کہا گیا کہ چیمہ صاحب سندھ میں کبھی نہ رہے ۔ میر زبیر پہ کیا اعتراض ہے؟ اے این پی کے لیڈروں نے پختون خوا کے لیے خریداری میں خیانت کی تو خوں ریزی بڑھی ۔ سب سے زیادہ انہی کے لوگ مارے گئے... عاقبت نا اندیش ، عاقبت نا اندیش۔
شریف خاندان بھی یہی ہے۔خوف زدہ ، اقتدار کو گھر کی لونڈی بنانے پہ مصر ۔ چوہدری نثار علی خاں کی ناراضی کا سبب غالباً یہی ہے ۔ بتایا جاتاہے کہ اب کی بار ان سے وزارتِ اعلیٰ کا پیمان تھا۔ صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر بھی وہ امیدوار تھے۔ شہباز شریف ایسے میں وزیرِ اعظم بنتے اور میاں محمد نواز شریف صدرِ مملکت۔ اب حمزہ شہباز کی تربیت ہے ۔ اسی پر بس نہیں، شاہی خاندان کی نئی نسل سمیت، کشمیری برادری کے سارے سپوت چوہدری کی مذمت کرتے رہتے ہیں ، جو نون لیگ کا واحد ہنر مند اور حقیقت پسند سیاستدان ہے ۔خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق اور رانا ثناء اللہ نے تو کانٹے ہی بوئے۔ شکایات چوہدری کی برحق ہیں اور موقف بجا۔ یہ سوچ کر البتہ قلق ہوتاہے کہ ساری کی ساری بحث ذاتی ہے ۔ ملک بھی کسی کی ترجیح ہوتا، قوم بھی ۔ کس طرح ممکن ہے کہ اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر نہ سوچا جائے او ر مستقبل سنور جائے؟