ہر غیر منطقی وجود کو بالآخر ہٹ جانا ہوتا ہے۔ موت اسرائیل کا مقدر ہے مگر اس وقت نوازشریف اور جنرل سیسی ایسے حکمران عالم اسلام پہ مسلط نہ رہیں گے۔ پانچ سال‘ دس برس یا دو عشرے۔ کون جانتا ہے کہ آنے والا سنہری دن کب طلوع ہوگا۔
پاکستانی نژاد برطانوی وزیر سعیدہ وارثی کا استعفیٰ ایک بڑا واقعہ ہے مگر اپنی نوعیت کا ایک الگ تھلگ ہرگز نہیں۔ اس کھیل کا آخری حصہ شاید شروع ہو چکا‘ جس کا انجام اسرائیل کے خاتمے پر ہوگا۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران جو عہد ساز واقعات رونما ہوئے ہیں‘ عالم اسلام میں کم ہی اس پر غور کیا گیا۔ اس کا بڑا اور بنیادی سبب مسلم عوام اور دانشوروں میں پھیلی ہوئی گہری مایوسی ہے۔ اس امید سے آدمی دستبردار ہو جاتا ہے اور ا مکانات کے سب دروازے بھی اسے بند نظر آتے ہیں۔ اقبال نے بے سبب نہ کہا تھا ؎
یقین پیدا کر اے ناداں یقین سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری
قرآن مجید کے طالب علم جانتے ہیں کہ شرک کے بعد‘ جو سب سے بڑے گناہ ہیں‘ مایوسی ان میں سرفہرست ہے۔ اللہ کی کتاب یہ کہتی ہوئی سنائی دیتی ہے کہ آدمی کتنا ہی خطاکار ہو‘ نجات کا امکان باقی رہتا ہے‘ اگر وہ رحمتِ پروردگار پہ نگاہ رکھے۔ فرمایا: اللہ نے آدمی کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو رحمت کو اپنے آپ پر لازم کر لیا۔ خالق سے زیادہ کسے خبر تھی کہ جنت سے نکالی گئی‘ آدم کی اولاد اپنی خطائوں کے سبب تاریکی میں گھر جائے گی تو سپیدۂ سحر کی امید کھو بیٹھے گی۔ ارشاد کیا: اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتیاں کیں (یعنی گناہ کیے)‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ افسوس کہ خود کو ہم نے ابن الوقت اور موقع پرست سیاستدانوں کے حوالے کردیا اور ان مولوی صاحبان کے جو اللہ کے پیام سے بے بہرہ ہیں۔ دن رات جو عذاب کی نوید دیا کرتے ہیں۔ نیم حکیم خطرہ جان‘ نیم مُلّا خطرہ ایمان۔ آدمی نے ایمان ہی کھو دیا تو اس کے پاس کیا باقی بچے گا۔ رمضان المبارک میں ایک گلوکار کو دیکھا کہ واعظ ہو گیا ہے۔ ایک خاتون نے اسے فون کیا۔ کہا‘ اپنی سوتیلی بیٹی کو میں نے ڈانٹا جب گرم پانی کا برتن اٹھائے‘ وہ جا رہی تھی‘ وہ گھبرائی تو پانی اس کے تن پر گرا اور اس نے جان ہار دی۔ دل شکستہ عورت نے سوال کیا کہ کیا اس کے لیے نجات کی کوئی صورت نہیں۔ 'بالکل نہیں‘ اسے جواب ملا‘ تم ایک قاتلہ ہو اور دروازے تم پر بند کر دیئے گئے۔
اللہ کا دروازہ چوپٹ کھلا رہتا ہے۔ اس کے سامنے جھکنا اور اس کے قوانین کا ادراک کرنا ہوتا ہے۔ ہارے ہوئے لوگوں سے اس کی کتاب یہ کہتی ہے یاایھاالانسان ماغرک بربک الکریم۔ اے آدم زاد تجھے کس چیز نے اپنے مہربان رب کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ وہ سوال کرتی ہے۔
کیا ہم نے اس (آدم زاد) کو دو آنکھیں عطا نہیں کیں؟
اور زبان اور دو ہونٹ نہیں دیئے؟
اور اسے خیر و شر کے دونوں راستے بھی دکھا دیئے
مگر وہ گھاٹی پر سے ہو کر نہ گزرا
اور تم کیا جانو کہ گھاٹی کیا ہے
کسی کی گردن کا چھڑانا
اور بھوک کے دن کھانا کھلانا
پیہم رشتہ دار کو
اور فقیر خاکسار کو
پھر ان لوگوں میں وہ داخل ہوا‘ جو صبر اور شفقت کی وصیت کرنے والے ہیں
یہی لوگ صاحبِ سعادت ہیں
یہ مایوسی ہے‘ جو عمل کی ساری صلاحیت چاٹ کر‘ حریت عمل کے سب امکانات تحلیل کر دیتی ہے۔ ہمارے دانشور‘ علماء اور رہنما آج اسی کارخیر میں مصروف ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ استعمار کے مسلط کردہ حکمرانوں کے طفیل ہماری راہ کھوٹی ہوگئی۔ یہ ادھورا سچ ہے‘ پورا سچ یہ ہے کہ ہم نے خود کو حکمرانوں کے حوالے کردیا ہے۔ جدوجہد اور تگ و تاز جہاں نہ ہو وہاں مقدر حکومت کیا کرتا ہے۔ یہ ملاح ہے جو کشتی کو ساحل سے ہمکنار کرتا ہے۔ اگر اسے پانیوں کے حوالے کردیا جائے تو اس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔
غزہ کے فلسطینیوں نے جو زخم کھائے ہیں‘ وہ فقط اسرائیل کے لیے امریکی سرپرستی کے طفیل نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کے طاقتور عرب پڑوسی افتاد کے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ مصر‘ سعودی عرب اور دوسرے شاہی خاندان۔ بیداری کے ان سو سال کے بعد‘ جب آقائوں کے خیموں کی طنابیں توڑ دیں‘ اپنے لیے حماس کو اسرائیل سے بڑہ خطرہ سمجھتے ہیں۔
دنیا مگر بدل رہی ہے۔ اگرچہ آج بھی امریکہ اور یورپ کے ذرائع ابلاغ پر صہیونی اثرو رسوخ بہت گہرا ہے‘ پہلی بار لیکن یہ ہوا ہے کہ سوشل میڈیا نے اخبارات اور ٹیلی ویژن کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کردیا۔ اخبارات بے اثر ہوتے جا رہے ہیں اور ٹی وی کی نشریات بھی۔ مغرب میں اسرائیل کی مخالفت بڑھ رہی ہے؛ اگرچہ کوئی باقاعدہ سروے سامنے نہیں۔ محتاط ترین اندازہ مگر یہ ہے کہ 60 فیصد سے زیادہ مغربی شہری صہیونی ریاست کو خوں ریزی اور بدامنی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ مشہور برطانوی اخبار نویس رابرٹ فسک نے لکھا ہے کہ رائے عامہ روایتی ذرائع ابلاغ کی گرفت سے آزاد ہونے لگی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ ایک انقلاب کی نوید ہے۔ عرب ملکوں میں سب سے زیادہ سفاکی کا مظاہرہ مصر نے کیا‘ جہاں ایک منتخب حکومت برطرف کر کے‘ انکل سام اور عرب بادشاہوں کے ایما پر فوجی قیادت مسلط کردی گئی۔
نگاہ خیرہ کردینے والی صداقت یہ ہے کہ فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیل پہ خوف طاری ہے۔ جھک جانے کی بجائے غزہ میں اشتعال نے جنم لیا ہے۔ لگ بھگ دو ہزار شہادتوں کے باوجود‘ جن میں عورتوں اور بچوں کی اکثریت ہے‘ جنگ بندی بالآخر حماس کی شرائط پر ہوئی۔ مطالبہ اس کا یہ تھا کہ تل ابیب جب تک زمینی افواج واپس نہ بلائے گا‘ وہ ہرگز ہتھیار نہ رکھیں گے۔ ہتھیار کیا‘ مقامی طور پر تیار کیے گئے راکٹ۔ بیرون ملک مقیم‘ اسرائیل کے ممتاز شہریوں سے رابطہ رکھنے والے ایک پاکستانی نے اس خوف کی تصویر کھینچنے کی کوشش کی‘ جو صہیونی آبادیوں کے درو بام پر مسلط ہے۔ ایک اسرائیلی نے اس سے یہ کہا: ہماری بھی کیا زندگی ہے۔ گھنٹہ بھر کے لیے گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور پھر دو گھنٹے کے لیے زیرِ زمین مورچوں میں پناہ گزیں رہتے ہیں۔
جیسا کہ جرمنی فلسفی ہیگل نے کہا تھا‘ افراد اور اقوام کے تضادات ہی بالآخر ان کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ یہودیوں کی نفسیات بگڑ گئی ہے۔ طاقت کے بل پر وہ اپنی بات منوانا چاہتے ہیں اور منوا نہیں سکتے کہ فلسطینیوں نے خوف زدہ ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا طرز عمل یہ ہے: جتنے لوگوں کو چاہو مار ڈالو‘ کسی صورت ہم سپرانداز نہ ہوں گے۔ ایسے ہی لوگ زندہ رہتے ہیں‘ ایسے ہی
فردائے قیامت تک جینا حصہ ہے اسی فرزانے کا
جس نے کہ سلیقہ سیکھ لیا‘ جینے کے لیے مر جانے کا
وسائل کے لیے بھوکی اسرائیلی قیادت کو خود پر قابو نہیں اور ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ غزہ میں قدرتی گیس کے ڈیڑھ کھرب مکعب فٹ کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ بے چین ہو کر اگر پھر وہ فلسطینیوں پہ چڑھ دوڑا تو مغرب میں عوامی مخالفت مزید بڑھے گی اور بالآخر نتائج پیدا کرے گی۔ سعیدہ وارثی کے استعفے کا پس منظر یہ ہے کہ پچھلے انتخابات میں ان کی قدامت پسند جماعت کو مسلمانوں کے صرف 12 فیصد ووٹ ملے۔ اسی لیے پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کی بڑی تعداد انہیں حق بجانب قرار دے رہی ہے۔ دنیا بدل رہی ہے اور ہم؟... تقلید کے راستوں پر آنکھیں بند کر کے تلپٹ بھاگنے والوں کو اس کا ادراک ہی نہیں۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے فرمایا تھا کہ بالآخر ہندوستان کے مسلمان اور ترک بلادِ شام میں یہودیوں سے معرکہ آرا ہوں گے۔ گزشتہ صدی کے پانچویں عشرے میں ایک ملک‘ رحمن نے بنایا اور ایک شیطان نے۔ پاکستان اور اسرائیل۔
ہر غیر منطقی وجود کو بالآخر ہٹ جانا ہوتا ہے۔ موت اسرائیل کا مقدر ہے مگر اس وقت نوازشریف اور جنرل سیسی ایسے حکمران عالم اسلام پہ مسلط نہ رہیں گے۔ پانچ سال‘ دس برس یا دو عشرے۔ کون جانتا ہے کہ آنے والا سنہری دن کب طلوع ہوگا۔