جذباتیت اور ہیجان، مایوسی اور خود ترسی، جہل اور عدم تحفظ کے مارے اس معاشرے کا ایک ہمہ گیر مطالعہ درکار ہے۔ پے در پے بحرانوں سے واضح ہوا کہ اگر یہ نہ ہو گا تو کچھ نہ ہو سکے گا ؎
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
سوال کسی ایک آدمی یا گروہ کا نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ سبھی اعتدال کی راہ سے ہٹ گئے۔ اصولوں پہ وعظ بہت لیکن جب خود پہ آن پڑتی ہے تو بلّی کا سا حال، جو تپش سے تحفظ کے لیے اپنے بچوں پر چڑھ جاتی ہے۔ سب دعوے فراموش کر دیے جاتے اور سب پیمان بھلا دیے جاتے ہیں۔
کل ایک اخبار نویس کا ذکر کیا تھا۔ ہزار خرابیاں اس میں ہوں گی مگر ٹیکس وہ پورا ادا کرتا ہے اور اللہ کا ٹیکس بھی۔ اپنی آمدن کا ایک حصہ افتادگانِ خاک کے لیے۔ کل اس کے بینک نے اطلاع دی: انٹیلی جنس والوں نے آپ کے کھاتے کی تفصیل مانگی ہے۔ میں نے کہا: تمہیں کیا، اخفا ہی نہیں تو پریشانی کیسی؟ کہا: کوئی پروا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ استحکام کا امکان ابھی پیدا ہی ہوا اور نواز شریف حکومت پر پرزے نکالنے لگی۔ آئندہ وہ کیا کریں گے۔ ظاہر ہے کہ جو ہمیشہ کرتے آئے ہیں۔ شورش کاشمیری کا جملہ یاد آیا: حکومت اگر طاقتور ہو تو چھنال ہوتی ہے، کمزور ہو تو نائکہ۔
کل ایک میڈیا گروپ کے سربراہ سے رابطہ ہوا تو میں نے انہیں یاد دلایا کہ کبھی میاں صاحب کی پولیس نے ان کے دفتر کا گھیرائو کر رکھا تھا۔ ہفتوں تک کیے رکھا۔ سول ہو یا فوجی حکومت، جس کا بس چلے تو صحافت کو باندی بنانا چاہتی ہے۔ عباس اطہر مرحوم نے لکھا تھا:
جدوں اساڈی واری آئی
اسی وی گھٹ نئیں کیتی
پیراں تھلّے شہر وسائے
ستم ظریفی یہ ہے کہ میڈیا کو سب سے زیادہ آزادی جنرل پرویز مشرف کے دور میں حاصل ہوئی۔ پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈی نینس منسوخ ہوا تو صدر غلام اسحٰق خان کے حکم سے۔ جمہوریت برحق کہ اس کا کوئی دوسرا متبادل نہیں مگر جمہوریت کا مطلب غیر منتخب کی جگہ منتخب ڈکٹیٹر کیسے ہو گیا؟ مارشل لا ایک لعنت ہے اور کبھی کسی فوج نے کسی قوم کی معاشی، تعلیمی اور سماجی تعمیر کا کارنامہ انجام نہ دیا۔ اچھی عدالت، عمدہ پولیس، بہترین سول سروس اور قابلِ اعتماد ٹیکس جمع کرنے والے۔ یہ سول ادارے ہیں، وہ معاشروں کی زنجیر اور اس کے لنگر ہوتے ہیں۔ وہ سول ادارے کہاں ہیں؟ نعرہ فروشی الگ، عالی مرتبت ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو، میاں محمد نواز شریف اور جناب آصف علی زرداری سمیت کیا کبھی کسی ایک نے بھی پولیس اور عدالتوں کو بہتر بنانے کی کوشش کی؟ مکرر عرض ہے کہ مارشل لا کوئی حل نہیں لیکن اگر واسکٹ والوں کو وہی کرنا ہے، جو وردی والے کیا کرتے ہیں تو مسئلہ حل کیسے ہو گا؟ پرویز رشید کی وزارتِ اطلاعات ایف بی آر کی مدد سے بے شک ہم میں سے ایک ایک اخبار نویس کی جامہ تلاشی لے۔ اگر کچھ سرکاری واجبات ہیں تو وصول کرنا ان کا حق ہے۔ کسی کو قطعاً کوئی اعتراض نہ ہونا چاہیے مگر میاں محمد نواز شریف؟ مگر وزیرِ خزانہ، زاہد و متقی اسحٰق ڈار؟
غریبِ شہر پہ تہمت تراشنے والو
امیرِ شہر کا بھی شجرۂ رقم دیکھو
قاف لیگ اور پھر نون لیگ کے ادوار میں اس ناچیز کے خاندان پر جو کچھ بیتی، اس کے ذکر سے ہمیشہ گریز کیا ہے۔ نون لیگ کے تین کاروباری لیڈر بالترتیب 3، 7 اور 30 لاکھ روپے ڈکار گئے۔ عدالت اگر ہے بھی تو بیس برس ایڑیاں کون رگڑے؟ اسلام آباد میں ایک ہائوسنگ سوسائٹی نے دس دس مرلے کے چار پلاٹ دبا لیے، جو قسطوں پر خریدے تھے۔ سمندر پار سے میرے بھائیوں کا بھیجا ہوا پیسہ۔ قبضہ لینے کا وقت آیا تو کہا کہ ساڑھے سات مرلے قبول ہیں تو ٹھیک ورنہ عدالت کا منہ دیکھو۔ مرتا کیا نہ کرتا؟ نون لیگ کے ایک لیڈر سے فلیٹ خریدا۔ چار قسطیں ادا کر دیں۔ دس سال گزر چکے۔ اب وہ پٹھّے پر ہاتھ دھرنے نہیں دیتا۔ سرکار ان کی، نیب ان کی ہے۔ پروپیگنڈا کرنے کے لیے کارندے ان کے پاس۔ گائوں کے لیے سڑک کی درخواست منظور کی تو ایک دن ایک کالم پر وہ بگڑ گئے۔ کرائے کے ایک بہادر کالم نگار سے لکھوایا کہ وہاں ایک ہائوسنگ سوسائٹی بن رہی ہے۔ اس الزام کی اشاعت کو تین سال گزر چکے۔ آج بھی وہاں کھیت لہلہاتے ہیں۔ سڑک کی التجا اس لیے کی تھی کہ جو راستہ موجود تھا، وہ ڈیڑھ کلومیٹر زیادہ طویل تھا۔ ثانیاً زیادہ حصہ نہر کنارے، اینٹوں پر تارکول۔ اینٹوں کو نمی چاٹتی۔ تارکول ادھڑ جاتا۔ گائوں جانے کی فرصت ہی نہیں۔ دو تین سال میں ایک بار لیکن الزام تراشی پہ کون سا زور لگتا ہے۔
آج عمران خان پہ یہی اعتراض ہے نا کہ ثبوت کے بغیر وہ رگید کے رکھ دیتا ہے؟ آپ لوگ کیا کرتے ہیں؟ آزاد اخبار نویسوں کو ہر طرف سے کردار کشی کا سامنا ہے۔ عمران خان کو اعتدال کا مشورہ دیں تو خود فروش۔ شریف خاندا ن سے شرافت کی التجا کریں تو غنڈے۔
حکومت یا اپوزیشن ہی نہیں، معاشرے کا ایک ایک طاقتور بے لگام ہے۔ گائوں کے نمبردار اور تھانے کے کانسٹیبل سے لے کر اقتدار کے اعلیٰ ترین ایوانوں تک مافیا کا راج۔ وزیر اعظم کیوں تفتیش نہیں کراتے کہ کیا احسن اقبال نے نارووال میں جرائم پیشہ پال رکھے ہیں یا نہیں؟
یہ ایک علیل معاشرہ ہے۔ بیمار کو صحت نصیب ہو سکتی ہے لیکن کس طرح؟ عدالت سے، ڈھنگ کی پولیس سے۔ کسی سول یا فوجی حکومت نے اس باب میں کب کوئی قدم اٹھایا؟ تحریکِ انصاف کہہ سکتی ہے کہ پختون خوا کے اندر پولیس میں سیاسی مداخلت انہوں نے روک دی اور پٹواری کے ہاتھ باندھنے کی کوشش کی۔ بالکل ٹھیک مگر ایک تو مدح شہباز شریف کی زیادہ ہو گی کہ کام سے زیادہ نمائش کا سلیقہ وہ رکھتے ہیں۔ ثانیاً تحریکِ انصاف کی ٹیم زیادہ سے زیادہ انڈر 19 ہے۔ ایک خرابی دور کرتے تو دوسری اگا دیتے ہیں... فوراً! ڈیرہ اسمٰعیل خان جیل سے 250 قیدیوں کے فرار پر خود صوبائی حکومت کی جو رپورٹ چھپی ہے، اس کے بعد پرویز خٹک کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔ انٹلی جنس کی طرف سے بروقت اطلاع کے باوجود پولیس نے مزاحمت سے گریز ہی نہ کیا بلکہ خود اس میں سے بعض ملوّث بھی تھے۔ ع
تن ہمہ داغ داغ شد، پنبہ کجا کجا نہم
سب کے سب بے لگام ہیں۔ پولیس، انٹلی جنس ایجنسیاں، ایف بی آر، سول سروس۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سیاسی پارٹیوں میں سے ایک بھی نہیں، جس کے پاس پولیس، پٹوار، عدلیہ اور سول سروس کی اصلاح کا کوئی قابلِ عمل اور مفصل منصوبہ موجود ہو۔ ادھر اخبار اور چینل ہیں کہ تجزیے نہیں، مقبولیت کی فکر میں مرے جاتے ہیں ؎
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ ، گھبرائیں کیا؟
اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے کہ جیسی رعایا ویسے حاکم: صرف حکومت نہیں، پورے معاشرے کی اصلاح درکار ہے۔ کل شب سراج الحق بار بار پوچھتے رہے کہ ایک سیاسی پارٹی کو موجودہ حالات میں کیا کرنا چاہیے۔ عرض کیا اور وہ متفق تھے کہ جاری ہنگامہ تمام ہو جائے تو بحث کی جائے۔
جذباتیت اور ہیجان، مایوسی اور خود ترسی، جہل اور عدم تحفظ کے مارے اس معاشرے کا ایک ہمہ گیر مطالعہ درکار ہے۔ پے در پے بحرانوں سے واضح ہوا کہ اگر یہ نہ ہو گا تو کچھ نہ ہو سکے گا ؎
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
پسِ تحریر: تحریکِ انصاف کے دوست میرے موقف پر ناخوش ہیں۔ سوال ان سے یہ ہے: بری حکمرانی زیادہ خطرناک ہے یا انارکی؟ (ختم)