گاہے صبر اور انتظار ہی بہترین حکمتِ عملی ہوا کرتی ہے۔ یہ وہی دن ہیں۔ شاعر نے یہ کہا تھا ؎
ہر صدا پہ لگے ہیں کان یہاں
دل سنبھالے رہو زباں کی طرح
واقعات معلوم ہیں۔ مختلف کرداروں اور پارٹیوں کا تجزیہ ممکن ہے۔ کارنامے اور کارستانیاں واضح ہیں۔ ایک ایک فریق کے مقاصد آشکار ہو چکے۔ ابھی مگر لکھنے کا وقت نہیں آیا۔ جھوٹ اس لیے نہیں لکھنا چاہیے کہ شرک کے بعد جھوٹی گواہی سب سے بڑا گناہ ہے۔ سچ بھی نہیں۔ سرکار ؐ کا فرمان یہ ہے: جس نے ایسی سچائی کے اظہار سے گریز کیا، جس کی سماعت سے دل پھٹ جائے، قیامت کے دن وہ میرے ساتھ ہو گا (مفہوم )
قرآن میں لکھا ہے: فتنہ قتل سے بڑھ کر ہے؛ چنانچہ خاموشی اگر اختیار نہ کی جائے تو کیا کیا جائے؟ تاریخ اپنے سینے میں کوئی راز تادیر چھپا نہیں رکھتی اور جیسا کہ ارشاد ہے: اس دنیا سے کوئی اٹھے گا نہیں، جب تک کہ بے نقاب نہ ہو جائے۔
بحران ایک دن میں پیدا ہوا اور نہ کوئی ایک فریق ذمہ دار ہے۔ جس کے دل میں کسی کی الفت ہے، وہ اس کے لیے جواز تراش لیتا ہے۔ جو کسی سے نفرت کرتا ہے، وہ اس کے خلاف دلیل گھڑ لیتا ہے۔ ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہوتا رہے گا۔ پھر مفادات کے بندے ہیں، پھر تنگ نظری اور تعصب۔ انسانی جبلّتوں کا تعامل بہت پیچیدہ ہے۔ گاہے کسی عمل کے مرتکب کو خود بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ کیوں اس پہ وحشت سوار ہے۔ خواہشات جب بے لگام ہو جاتی اور تعصبات جب غلبہ پا لیتے ہیں تو جذباتی توازن رخصت ہو جاتا ہے۔ پھر وہ عالم ہوتا ہے ؎
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
اس حال سے اللہ محفوظ رکھے۔ فرمایا: جو صبر کرنا چاہتا ہے، صبر اسے عطا کیا جاتا ہے۔ فرمایا: خدا نے جب نفس (جبلّتوں) کو پیدا کیا تو اپنا سب سے بڑا دشمن پیدا کیا۔ عارف سے پوچھا گیا کہ گمراہ کون کرتا ہے، نفس یا شیطان؟ کہا: شیطان ایک کاشتکار ہے، جو نفس کی زمین میں کاشت کرتا ہے۔ ایک دعا تعلیم فرمائی تھی: اللھم انی اعوذ بک من شرور انفسنا و سیّئات اعمالنا۔ اے اللہ میں اپنے نفس کے شر اور اپنے اعمال کے نتائج (خرابیوں) سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
ایک آدھ شخص اور ایک آدھ ادارہ نہیں، بہت سے لوگ مبتلا ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ سازش کا زور ٹوٹ چکا مگر ابھی چند دن، شاید چند ہفتے مزید درکار ہیں کہ پانی اتر جائے۔ زمین ہموار اور راستے کشادہ ہو جائیں۔
جن کی معلومات اور مقاصد محدود ہیں، وہ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ مجھ سے معمولی لوگ، مجھ سے خطاکار یہ جسارت نہیں کر سکتے۔ یہ ہمارا وطن ہے، ہمارا گھر یہی ہے۔ اس کے سوا ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں اور کوئی ٹھکانہ بنانے کی آرزو بھی نہیں۔ تمنا یہ ہے کہ آنے والی نسلیں بھی اس سرزمین میں آباد رہیں (اور شاد رہیں) جو اللہ کے نام پر حاصل کی گئی۔ جو اقبال ؒاور قائد اعظمؒ کی ریاضت کا ثمر ہے۔ وہ قوم، سرکارؐ نے چودہ سو برس پہلے جسے بشارت دی
تھی۔ وہ ملک جو 27 رمضان المبارک کو وجود میں آیا اور انشاء اللہ کبھی عالمِ اسلام کی قیادت کرے گا۔ تاریکی سے روشنی کے سفر میں، من الظلمات الی النّور۔
پاکستان کے باب میں جو سفاکی کا مرتکب ہوا، وہ نشان عبرت بنا اور آئندہ بھی ایسے لوگ انشاء اللہ خاک چاٹیں گے۔ بات دوسری ہے۔ آدمی کو ایک دن اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ دوسروں کا نہیں، وہ اپنی ذات کا ذمے دار ہے۔ جن کے پروردگار لندن، دہلی یا واشنگٹن میں بستے ہیں۔ جو اپنی عقلوں کے سائے میں آسودہ ہیں، وہ جانیں اور ان کا کام جانے۔ جس کا کوئی مالک ہو، ایک حد سے زیادہ وہ غیرمحتاط نہیں ہو سکتا۔ وہ مہربان ہے، رحمٰن اور رحیم مگر فتنہ گروں کے لیے اس کا قانون سخت ہے۔ خدا کی مخلوق خدا کا خاندان ہے اور وہ ان کی زندگیوں میں زہر گھولنے والوں کو معاف نہیں کیا کرتا۔ خوش بخت وہ ہے، جو اجلا رہے اور دانائی سے کام لے۔ وہ بھی بچ گیا، جو دنیا ہی میں اپنے اعمال کی سزا پا لے وگرنہ وہ بھی ہوتے ہیں، جن کی رسّی دراز کر دی جاتی ہے۔ ایسا ہی ایک آدمی موجودہ فتنے کا مرکزی کردار ہے۔
ضروری نہیں کہ ہنگامہ برپا کرنے اور کانٹے بونے والے سب کے سب سازشی اور بد نیت ہوں۔ بعض احمق ہیں۔ نیک طینت اور سادہ لوح بھی۔ درونِ خانہ کے ہنگاموں سے وہ بے خبر ہیں۔ ذاتی مفادات کے لیے سازشوں کے جال بننے والوں کے عزائم سے بے خبر۔
ایک فائدہ البتہ ہوا۔ چھپا کوئی نہ رہا۔ جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ، فریب دینے میں وہ کامیاب رہیں گے، ان کے منہ کالے ہوں گے۔ ایک اور بات واضح ہے، چند ایک کے سوا اقتدار کی ہوس سے پاک کوئی نہ تھا، جلتے گھروں پر ہاتھ تاپنے والے۔ جس نے جو بویا ہے، وہ اسے کاٹنا ہو گا۔ ازل سے قدرت کا قانون یہی ہے اور اس میں کوئی استثنیٰ نہیں۔ بابرکت ہیں وہ لوگ، جنہوں نے خود کو تھامے رکھا۔ خود کو اقدار اور اصولوں کی یاد دہانی کرائی۔ جو عصبیت اور نفرت سے مغلوب نہ ہوئے۔ یہ انہی کے طفیل ہے کہ سیاہ بادل چھٹنے لگے ہیں اور سپیدہء سحر نمودار ہونے کا امکان ہے۔ اللہ انہیں اجر دے اور اپنی پناہ میں رکھے۔ سرکاری افسروں میں بھی سیاہ کار موجود ہیں۔ حکمران جماعت کے اندر بھی نقب لگائی گئی۔ مظاہرین میں وہ بھی ہیں، جو بنیادی طور پر غلط کار نہیں مگر ایسے بھی ؎
بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی
بیچ ہی دیویں جو یوسف سا برادر ہووے
کل اپنا سامان گھر کے ایک کمرے سے دوسرے میں منتقل کیا۔ اب تک دشواری ہے۔ فلاں چیز فلاں الماری میں رہ گئی۔ ان کے قربان جائوں، جو اس طرح حکومت بدلنا چاہتے ہیں، جس طرح قمیض بدلی جاتی ہے۔ اس طرح نہیں ہوتا، حضور اس طرح نہیں ہوتا۔ بیس کروڑ انسانوں کے مستقبل پر جوا نہیں کھیلا جاتا۔ حکمران بُرے ہیں تو ان کی جگہ بہتر لوگ آنے چاہئیں، طوائف الملوکی نہیں۔
سپین میں ستّر برس تک قبائلی سردار ایک دوسرے سے لڑتے رہے؛ حتیٰ کہ دنیا کا متمدّن ترین ملک نصف درجن ریاستوں میں بٹ گیا۔ لاکھوں قتل ہوئے۔ پھر اللہ کو ان پر رحم آ گیا۔ پھر امام غزالیؒ کی تعلیمات سے متاثر یوسف بن تاشفین نمودار ہوا اور چند برسوں کے لیے خلق کو قرار کے دن عطا ہوئے۔ سانحوں سے مگر سبق نہ سیکھا گیا۔ آخر آٹھ سو سال کی حکمرانی مکمل تباہی پر منتج ہوئی۔ ہم بھار ت کے پڑوسی ہیں اور سچ پوچھیے تو امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے بھی۔ ان کا بس نہیں چلتا وگرنہ پاکستان کو وہ سپین بنا دیں۔ ہسپانیہ طاقتور تھا، جب اس کی عدالتیں آزاد تھیں۔ جب سلطان کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا۔ جب اس کے سارے باشندے تعلیم یافتہ تھے۔ پھر تعصبات غالب آئے اور جہالت چھا گئی۔ پھر بعض نے عیسائیوں سے معاہدے کیے۔ خود کو شیطان کے ہاتھ بیچ ڈالا۔
غیر ذمہ داری کا مطلب فقط غیر ذمہ داری نہیں بلکہ مجرمانہ تغافل ہے۔ مکمل تباہی اور برباد کن ذلّت کا پیش خیمہ۔ جن پر اللہ کا کرم ہوا، اعتدال پر وہ ڈٹے رہے۔ امید ہے کہ ان کے طفیل جلد انشاء اللہ خوشخبری ملے گی۔
گاہے صبر اور انتظار ہی بہترین حکمتِ عملی ہوا کرتی ہے۔ یہ وہی دن ہیں۔ شاعر نے یہ کہا تھا ؎
ہر صدا پہ لگے ہیں کان یہاں
دل سنبھالے رہو زباں کی طرح