برسبیل تذکرہ یہ کہ بلندی سے گرنے کا خوف ایک وسوسے کی پیداوار ہوتا ہے۔ اس فکر سے چھٹکارا کچھ مشکل نہیں۔ سرکارؐ کے فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ وسوسہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ اگر تم مبتلا ہو تو جو خیال آئے‘ اس کے برعکس کرو۔ اگر کوئی ماہر نفسیات اس نکتے کو سمجھ لے تو وہ اپنے ہر مریض کا علاج کر سکتا ہے۔
جی اُکتا گیا۔ سیاسی موضوعات سے دل بیزار ہو گیا ع
خرد بیزار دل سے، دل خرد سے
خواجہ کی یاد آئی اور آتی چلی گئی۔ فلسفی لِن یو تانگ نے لکھا تھا۔ سرما کی چاندنی اور غربت کے ایام بیت جائیں تو دلکش لگتے ہیں۔ اجلے آدمی بھی جو کبھی زندگی کا حصہ تھے اور اپنے رب کے پاس چلے گئے۔ ایک روز‘ جن سے ہمیں جا ملنا ہے۔
انتیس برس ہوتے ہیں۔ خواجہ کمال الدین انور سے لیاقت بلوچ کے کمرے میں تعارف ہوا۔ منظور خاں مرحوم سے بھی کہ ان کے کلاس فیلو تھے۔ اس قدر سادہ اطوار آدمی نہیں دیکھا۔
لیاقت صاحب نے ایک دن بڑا ہی دلچسپ واقعہ سنایا۔ چاہیے نہ تھا مگر کالم میں لکھ دیا۔ خواجہ کو شبہ ہوا کہ منظور خاں کا کام ہے۔ ان کی رائے میں وہ ایک غیر ذمہ دار آدمی تھے۔ تردید کرتے کرتے بیچارہ تھک گیا مگر خواجہ نے مان کر نہ دیا۔ بولے: تمہیں معلوم ہے یا لیاقت صاحب کو۔ وہ ایک سنجیدہ آدمی ہیں اور یہ حرکت کر نہیں سکتے۔ منظور خاں جھنجھلایا کہ جس نے لکھا ہے اس سے تو برائے وزن بیت بھی شکایت نہیں کی‘ مجھ غریب پر بگڑتے ہیں۔ خواجہ کا مؤقف یہ تھا کہ وہ تو اخبار نویس ہے‘ اس کا کام ہے‘ خبریں تلاش کرنا اور چھاپنا۔
مسئلہ یہ تھا کہ خواجہ ہوائی جہاز میں سفر نہ کر سکتے تھے۔ یہ کمزوری ایسی شدید تھی کہ مجبوراً کرنا ہی پڑتا تو ایک قیامت کا سامنا ہوتا۔ کئی دن اس کا ذکر کیا کرتے۔ تونسہ شریف سے قومی اسمبلی کے ممبر تھے۔ غالباً کسی کمیٹی کا اجلاس اور کسی مصروفیت کی بنا پر ہوائی جہاز سے آنا پڑا۔
فوکر میں سوار ہوتے ہی پائلٹ کے پاس تشریف لے گئے اور پوچھا‘ آپ کا جہاز ٹھیک ہے نا پائلٹ صاحب! حیرت زدہ اس نے کہا: خواجہ صاحب‘ بالکل ٹھیک ہے۔ ملتان اور لاہور کے درمیان ایک آدھ مقام ایسا ہے کہ فوکر کو غوطہ لگانا پڑتا ہے۔ جو لوگ عادی ہوں‘ وہ پروا ہی نہیں کرتے‘ جو نہیں‘ وہ ایک ذرا سی تشویش میں مبتلا ہوتے ہیں۔ سب جانتے ہیں فوکر ایک بہت ہی محفوظ طیارہ ہے۔
جہاز بلندی سے گولے کی طرح گرتا محسوس ہوا تو خواجہ صاحب نے چیخ کر کہا: تساں تاں آکھدے ہائو‘ تواڈا جہاز ٹھیک اے (آپ لوگوں کا دعویٰ یہ تھا کہ آپ کا جہاز بالکل ٹھیک ہے)۔ عملے نے کہا‘ جی ہاں! ٹھیک ہے۔ ابھی استوار ہو جائے گا۔ پھر ان میں سے ایک نے دلیل دی۔ خواجہ‘ خواتین بھی بیٹھی ہیں‘ اگر وہ پریشان نہیں تو اس کا مطلب واضح ہے۔ خوف زدہ اور ہراساں‘ وہ بولے ''عورتیں کو میں چٹاں‘‘ (عورتوں سے مجھے کیا غرض)۔
کس بلا کا آدمی تھا۔ سجادہ نشین ہوئے تو چار الفاظ کا مختصر سا خطاب کیا ''نذرانے بند، لنگر جاری‘‘۔ پوچھا‘ کیوں خواجہ صاحب! کہنے لگے: ہمارے اجداد کو یہ زرعی زمینیں نذرانے کے طور پر ہی دی گئی تھیں۔ ان کی آمدن کا واحد مصرف یہی ہے کہ خلق خدا کی خدمت میں صرف کی جائے۔ ہمارا حق بس اپنے اخراجات ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ برسوں بعد جدہ کے سفر میں ملاقات ہوئی۔ صداقت شعار تو ہمیشہ سے تھے۔ چہرے پر پاکیزگی کا تاثر شدید تر تھا۔ پوچھا: خواجہ صاحب! کیا نماز کا اہتمام ہے! بولے: تریوی‘ ترے‘ چھیاسی (23-3-1986) کو لیاقت صاحب نے مجھے سمجھایا کہ نماز پڑھا کرو‘ اس کے بعد سے پابندی ہے۔ یا رب! آدمی اس قدر سادہ اور سہل ہوتے ہیں اور اس پر بھی ایسے کامیاب؟
معلوم ہوا خواجہ صاحب اس کمیٹی کے چیئرمین ہیں‘ عازمین حج کے لیے جسے عمارتیں کرائے پر لینی ہیں۔ پاکستان چونکہ تیسرا بڑا گاہک ہے‘ لہٰذا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ایک ہلچل تھی۔ ایک دوست نے کسی کو بتا دیا۔ وہ میری جان کو اٹکا۔ میں اسے خواجہ صاحب کے پاس لے گیا۔ انہوں نے فقط غور کرنے کا وعدہ کیا۔ ایک ذرا سی کوفت تو ہوئی کہ سوچے سمجھے بغیر ہم لوگ سفارش کرنے اور منوانے کے عادی ہیں۔ میں مگر خاموش رہا کہ خواجہ ایک اصول پسند آدمی ہے۔
برسوں بعد ایک دن وہ گنبد خضریٰ کے سائے میں ملے۔ میں لپک کر ان کی طرف گیا۔ حیرت زدہ میں نے دیکھا کہ خواجہ صاحب نے کسی تپاک کا مظاہرہ نہ کیا۔ سوال کرتا تو اتنی دھیرج سے‘ اتنی کمزور سی آواز میں جواب دیتے کہ حیرت ہوتی۔ سوچتا ہوا واپس چلا آیا کہ خواجہ صاحب ایسے تو نہ تھے۔ شاید کچھ پریشانی ہو۔ خیال آیا‘ خدا کے بندے‘ خواجہ تیرے جیسا نہیں ہے کہ گنبد خضریٰ کے جوار میں بھی معمول کا لہجہ برقرار رکھے۔ شاعر کہتا ہے ؎
سلام کرتے ہوئے ہم نہ دیکھ پائے انہیںؐ
جواب دیتے ہوئے‘ وہؐ تو ہم کو دیکھتے ہیں
آدمی ازل کا ناشکرا ہے۔ کچھ نعمتیں جن کی قدرو قیمت کا احساس‘ محرومی کے بعد ہوتا ہے۔ ایک دن خبر آئی‘ خواجہ دنیا سے چلے گئے۔ مکہ کے نواح میں ٹریفک کا حادثہ ہوا اور جان ہار دی۔ حیرت سے سوچا: کیا حجاز کی سرزمین ایسی خوش آئی تھی کہ خواجہ نے وہاں دائمی قیام کی دعا کی ہو؟
کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔ آدمی کے قلب و دماغ کا حال کسے معلوم۔ عاصی اصل میں پاک باز ہوتے ہیں‘ مقدس چہروں والے گاہے سیاہ باطن۔ میر صاحب نے کہا تھا ؎
شیخ جو ہے مسجد میں ننگا، رات کو تھا مے خانے میں
خرقہ‘ جبہ‘ کرتا‘ ٹوپی مستی میں انعام کیا
انسانوں کا خالق ستارالعیوب ہے۔ سبھی کے عیب وہ ڈھانپے رکھے۔ اگرچہ وہ رسوا ہو کر رہتے ہیں‘ جو شعوری طور پر دوسروں کی توہین کریں۔
خواجہ صاحب تو تھے ہی پاک باز۔ ساری خلق جس کی قائل ہو‘ شاید اللہ بھی اس پر رحم فرمائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ خواجہ کے مرقد میں جنت کی کھڑکیاں کھلی ہوں گی۔ عالم حیرت میں شاید وہ سوچتے ہوں گے کہ اتنی بہت سی حوروں کا میں کیا کروں گا؟
جب بھی جانا ہو‘ اس حال میں اللہ دنیا سے لے جائے کہ عالم بالا میں خواجہ صاحب کی ملاقات نصیب ہو اور اس طرح نصیب ہو کہ وہ شاداں و فرحاں ہو۔
آدمی کے عظیم الشان مغالطوں میں سے ایک یہ ہے کہ ذہانت کوئی بڑی متاع ہے۔ بعض احمق تو یہ سمجھتے ہیں کہ چالاکی بھی۔ میرے ایک عزیز دوست نے فرمایا تھا کہ آصف علی زرداری کامیاب ترین آدمی ہیں۔
برسبیل تذکرہ یہ کہ بلندی سے گرنے کا خوف ایک وسوسے کی پیداوار ہوتا ہے۔ اس فکر سے چھٹکارا کچھ مشکل نہیں۔ سرکارؐ کے فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ وسوسہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ اگر تم مبتلا ہو تو جو خیال آئے‘ اس کے برعکس کرو۔ اگر کوئی ماہر نفسیات اس نکتے کو سمجھ لے تو وہ اپنے ہر مریض کا علاج کر سکتا ہے۔