عقل اللہ نے برتنے کے لیے عطا کی ہے۔ علم اور دانش بروئے کار آئیں تو ان میں اضافہ ہوتا ہے۔ روپے کی طرح وہ سنبھال رکھنے کی چیز نہیں ؎
احساس مر نہ جائے تو انسان کے لیے
کافی ہے ایک راہ کی ٹھوکر لگی ہوئی
المیہ کچھ دیر بعد برپا ہوا‘ جلسے کے آغاز میں سیڑھی کیونکر غائب ہو گئی؟ عمران خان برہم تھے اور کیوں برہم نہ ہوتے۔ لاہور میں ایسی ہی بدنظمی کے طفیل دھڑام سے وہ نیچے گرے تھے اور مہینوں تک لوہے کی جیکٹ پہنے پھرے۔ موسم گرما کی شدت میں مسلسل ایک عذاب وہ سہتے رہے۔ وہی پائلو کوئلو کی بات: زندگی میں غلطی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی‘ بس سبق ہوتے ہیں۔ اگر آپ سیکھنے سے انکار کر دیں تو زندگی انہیں دُہراتی ہے اور ظاہر ہے کہ کبھی اور زیادہ شدت کے ساتھ۔ قدرت کے قوانین میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اگر شتر مرغ بنے رہنے پر مصر ہوں تو پھر سے آدمی بنانے کے لیے انہیں صدمہ پہنچاتی ہے اور گاہے حواس مختل کرنے والا صدمہ۔
جمعہ کی شام غروبِ آفتاب کے فوراً بعد یہ آشکار تھا کہ تعداد حیران کن ہو گی۔ اخبار نویسوں نے دو اڑھائی لاکھ تک کا اندازہ لگایا۔ شمار کرنے والے محتاط اور دیانت دار لوگوں سے میں نے بات کی۔ ان میں سے ایک کو میں بیس برس سے جانتا ہوں۔ وہ مبالغہ کرنے والا ہے اور نہ تعصب کا شکار ہونے والا۔ سرکاری افسر ہے‘ حکمران بھی گاہے اس سے نالاں ہوتے ہیں کہ کانٹے کی تول تولتا ہے۔ ان سب ذمہ دار لوگوں سے بات کرنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ سامعین کی تعداد 90 ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان تھی۔ ملتان کی تاریخ کے کسی بھی اجتماع سے کم از کم دو گنا۔
بظاہر دونوں قصوروار ہیں۔ انتظامیہ اور تحریک انصاف کے مقامی رہنما بھی۔ سب سے زیادہ ذمہ داری شاہ محمود کی تھی‘ ان کا مسئلہ مگر یہ ہے کہ وہ ٹیم کے کھلاڑی ہی نہیں۔ اپنی ذات ہی ان کی پہلی اور آخری ترجیح ہے ع
طوطی کو شش جہت سے مقابل ہے آئینہ
سٹیج پر ایک ہنگامہ برپا تھا اور مستقل برپا رہا‘ جیسا کہ تحریک انصاف کے تقریباً ہر اجتماع میں ہوتا ہے۔ شہر کا شہر امڈ آیا تو اور بھی زیادہ احتیاط چاہیے تھی۔ لوگ‘ باگ حکومت سے ناراض ہیں۔ اس فضا سے فائدہ اٹھا کر شاہ محمود قریشی نے نفرت کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی ہے۔ حکومت کو انہوں نے ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ ان پر اور شیخ رشید پر حملے ہوئے۔ حکمرانوں کے کرتوت سامنے ہیں اور اس سے بیزاری کے اسباب معلوم۔ نون لیگ کی قیادت مگر اس حماقت کا ارتکاب کیوں کرتی؟ بپھرے ہوئے بے پناہ ہجوم کے سامنے کون کھڑا ہوتا ہے؟ طوفانی دریا کے مقابل کون تیرتا ہے؟ غیر جانبدار اور قابلِ اعتماد لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ نون لیگ کے چھچھوروں کی غیر ذمہ دار ٹولیاں تھیں۔ اپنے طور پر جنہوں نے یہ حرکت کی اور بھاگ کھڑے ہوئے۔ خود شیخ رشید کا کہنا یہ ہے کہ سٹیج کی ابتری پر ابتدا ہی میں ان کا ماتھا ٹھنکا تھا۔ دوسروں کو‘ خاص طور پر منتظمین کو احساس کیوں نہ ہوا؟ انتظامیہ سے رابطہ مسلسل رکھا جاتا۔ ملتان کے کمشنر اسداللہ خاں ہیں۔ بہترین میں سے بہترین۔ ہوش مند اور مستعد۔ کوئی دوسرا تو کیا اسلام آباد اور لاہور والے بھی ان سے بات کرتے ہوئے محتاط رہتے ہیں۔
ملتان پہنچ کر ہی تفصیلات معلوم ہو سکتی ہیں جس کے لیے پا بہ رکاب ہوں۔ جزئیات کا جائزہ لے کر ہی حکم لگایا جا سکتا ہے۔ اب تک معلوم ہونے والے حقائق یہ کہتے ہیں کہ ناگہانی طور پر برپا ہونے والا یہ ایک حادثہ ہے‘ شعوری طور پر‘ جس کا کسی نے ارتکاب نہیں کیا۔ غیر ذمہ داری البتہ انتہا درجے کی! اور مستقل طور پر وہ تحریک انصاف کا طرۂ امتیاز ہے۔
جلسہ گاہ کے پانچ دروازے تھے اور ان میں سے چار کھلے رکھے گئے۔ عمران خان کی تقریر اختتام کو پہنچ رہی تھی کہ انبوہ سے پیدا ہونے والے حبس سے پریشان ہجوم نے حرکت کا آغاز کیا۔ بعض نے سوچا کہ تاخیر اور دبائو سے بچنے کے لیے جلد از جلد نکل جائیں۔ اس سے بھگدڑ مچی اور مرنے والے کچل کر مارے گئے۔ درجنوں زخمی ہوئے‘ جن میں سے بعض نشتر ہسپتال میں پڑے ہیں۔ ابتدا ہی سے ہجوم بدنظمی کا شکار تھا۔ ٹی وی کی ایک معروف خاتون رپورٹر اس کا شکار ہوئی۔
ہیجان اور ردعمل میں بروئے کار آنے والی ہم ایک جذباتی قوم ہیں۔ ''ڈنگ ٹپائو‘‘ طرزِ عمل کی عادی۔ سائنسی انداز فکر سے ہرگز کوئی علاقہ جسے نہیں ہے۔ 2009ء سے اب تک چار دفعہ سیلاب آیا۔ ایک بار بھی پہلے سے انتظام نہ تھا۔ ہمیشہ وہی افراتفری۔ امسال تو محکمہ موسمیات نے 28 اگست کو انتباہ کر دیا تھا اور سیلاب 15 ستمبر کو آیا مگر ڈھاک کے وہی تین پات ع
وہی ہے چال بے ڈھنگی، جو پہلے تھی سو اب بھی ہے
احمد پور سیال اور اٹھارہ ہزاری تحصیلیں ہر بار ڈوبتی ہیں۔ اب کی بار بھی ڈوبیں۔ ایک جگہ چناب اور جہلم ملتے ہیں۔ دوسرے مقام پر چناب اور راوی۔ کتنی ہی بار اخبار نویسوں نے توجہ دلائی ہے کہ دریا سے متصل مقامات پر پلاسٹک کی کشتیوں کا بندوبست کر دیا جائے۔ دس پندرہ کروڑ سے زیادہ خرچ نہ ہوں گے۔ کوئی سنتا ہی نہیں‘ کسی کو پروا ہی نہیں۔ حکمران آج کے دن کے لیے سوچتے ہیں‘ شام اور شب کے خبرناموں کے لیے۔ پورے حکمران طبقے کا عالم یہی ہے۔ ابھی ابھی خبر آئی کہ کراچی صدر کی ایک بلند اور وسیع عمارت میں آگ بھڑک اٹھی ہے۔ 2 کروڑ کی آبادی کا شہر۔ ملک کی صنعتی شہ رگ۔ برسوں سے آتشزدگی کے المناک واقعات ہیں۔ سینکڑوں جاں بحق ہوئے اور ہزاروں ان کے رونے والے۔ اربوں کا نقصان ہوا۔ حکمرانوں کو چُلّو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے کہ فائر بریگیڈ کا نظام تشکیل نہ دے سکے۔ 2000ء میں دو ہفتے نیویارک میں‘ مسافر نے بِتائے تھے۔ ہر دس پندرہ منٹ کے بعد فائر بریگیڈ کی گاڑی چیختی ہوئی گزرتی۔ معلوم ہوا کہ ہمارے 1122 کی طرح‘ نیویارک کے آگ بجھانے والوں کو بھی غیر ذمہ دار بدقماشوں کا سامنا ہوتا ہے۔ کوئی خطرہ لیکن وہ مول نہیں لے سکتے کہ احتساب کا نظام کڑا ہے۔
شاہ محمود کا تو ذکر ہی کیا کہ وقتی سیاسی فائدے سے زیادہ وہ کچھ سوچ سکتے ہی نہیں۔ عمران خان کا حال بھی یہ تھا کہ اظہار افسوس کے بعد‘ اسی سانس میں لاڑکانہ کے جلسے کی یاد دہانی کرائی۔ احساس اور درد کی لو گاہے کم ہوتے ہوتے بجھ ہی جایا کرتی ہے۔ پھر اپنی ذات کے سوا کچھ یاد نہیں رہتا۔
دل سخت ہو جاتے ہیں اور گاہے پتھروں سے زیادہ سخت۔ جمعہ کی شب لاہور سے ایک ممتاز اخبار نویس نے فون کیا کہ سوگ کی بجائے وہ جلسوں کا اعلان فرما رہے ہیں۔ خدا کا شکر کہ بالآخر کسی کو سوجھ گئی وگرنہ آج ملک بھر میں ان کا مذاق اڑ رہا ہوتا۔
جانے والے چلے گئے‘ وہ جو انقلاب کا خواب لے کر اپنے کچے گھروندوں سے نکلے ا ور اپنے دیوتا کو دیکھنے آئے تھے‘ خاک کا رزق ہوئے۔ پسماندگان پر کیا بیت رہی ہے؟ جس تن لاگے سو تن جانے۔ عمران خان کی ایک اپیل پر ان کے لیے کروڑوں روپے جمع ہو سکتے ہیں۔ مرنے والوں کے ماں باپ اور بیوی بچوں کے لیے انہیں فکرمند ہونا چاہیے۔ حکومت پنجاب کو بھی ان کی مالی مدد فراخدلی سے کرنی چاہیے۔ سیاست پر لعنت بھیجئے۔ خون اور آنسوئوں کا رنگ ہمیشہ ایک سا ہوتا ہے۔
دنیا بھر میں بڑے اجتماعات میں ہنگامی صورت حال سے نکلنے کے لیے مستقل طریق کار رائج ہیں‘ جنہیں ایس او پی (Standard Operating Procedure) کہا جاتا ہے۔ حکومتوں کو ان کی تشہیر کرنی چاہیے اور تحریک انصاف کے لیڈروں کو ان کا مطالعہ۔ ان کی ہر تقریب ہڑبونگ کا شکار ہوتی ہے۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے پروردگار کا فرمان اپنے بندوں کو پہنچا دیا تھا کہ جو کچھ کسی کو ملے گا عقل کے طفیل اور محروم ہوں گے تو حماقت کے سبب۔ کب تک ہیجان میں چیخنے چلّانے پر وہ اکتفا کریں گے۔ تھوڑا سا غوروفکر بھی‘ تھوڑا سا حسنِ انتظام بھی۔
اللہ نے عقل برتنے کے لیے عطا کی ہے۔ علم اور دانش بروئے کار آئیں تو ان میں اضافہ ہوتا ہے۔ روپے کی طرح وہ سنبھال رکھنے کی چیز نہیں۔
احساس مر نہ جائے تو انسان کے لیے
کافی ہے ایک راہ کی ٹھوکر لگی ہوئی
نوٹ: گزشتہ روز کے کالم میں مسلم سکالرز سکول رحیم یار خان کے چیئرمین کا نام غلطی سے ڈاکٹر اطہر مسلم چھپا ہے‘ ان کا نام ڈاکٹر محمد طاہر ہے۔ اسی طرح 'کیف کا کوئی لمحہ کبھی ماضی کو مشکل کر دیتا ہے‘ چھپ گیا۔ اس میں لفظ 'مشکل‘ نہیں 'متشکل‘ ہے۔