"HRC" (space) message & send to 7575

بس کرو‘ خدا کے لیے بس کرو

بس کرو‘ خدا کے لیے بس کرو‘ ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا جاتا ہے۔ 
پروفیسر غلام اعظم ٹوٹ ٹوٹ کر روئے اور ان کے تعجیل میں جمع ہونے والے سامعین بھی۔ یاد نہیں پڑتا کہ مختصر سے اس اجتماع میں کوئی اور اخبار نویس بھی موجود تھا یا نہیں۔ چھوٹے سے اخبار کے لیے روداد اس ناچیز نے بھی روتے ہوئے لکھی۔ 16دسمبر 1971ء یہ مشرقی پاکستان کی جدائی کا دن تھا۔ یہ رپورٹ آغا شورش کاشمیری نے ہفتہ وار چٹان میں شائع کی۔ اگلے شمارے میں ایک گمنام شاعر کی تڑپا دینے والی نظم بھی اس موضوع پر چھپی۔ زندگی مگر ایک عجیب چیز ہے۔ 
حادثہ یہ ہے کہ ساری ذلّتوں کے باوجود 
زخم اک دن سوئے اندمال آ جائے گا 
کل مگر یہ زخم ہرا ہو گیا‘ جب ایک انگریزی اخبار میں پروفیسر غلام اعظم کے انتقال پر ایک مذمتی رپورٹ پڑھنے کو ملی۔ لگ بھگ دو ہزار الفاظ کی اس رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ مرحوم ایک جرائم پیشہ آدمی تھے۔ 1971ء میں‘ جب پاکستانی فوج احتجاج کرنے والے بنگالیوں کے خلاف کارروائی میں جتی تھی‘ البدر کے نام سے ایک تنظیم انہوں نے قائم کی اور بے گناہوں کا قتل عام کیا۔ یہی نہیں مرتے مرتے حسینہ واجد کی مقدس حکومت کے لیے انہوں نے ایک بحران کھڑا کردیا۔ "A tricky last wish that could not be fulfilled" کے عنوان سے لکھی گئی کہانی کے مطابق ایک ظلمِ عظیم کے وہ مرتکب ہوئے۔ دنیا سے رخصت ہوئے۔ انہوں نے آرزو کی کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمن نظامی ان کی نماز جنازہ پڑھائیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ایک دوسرے لیڈر۔ اخبار نویس کے بقول جو ایک پاکستانی ہے‘ وصیت کا مقصد سیاسی تھا۔ بیچاری بنگلہ دیشی حکومت کے لیے ایک بحران پیدا ہو گیا کہ وہ کرے تو کیا کرے؟ مرنے والے پر الزام لگایا گیا ہے کہ نومبر 1971ء کے آخر میں فرار ہو کر وہ پاکستان آ گئے اور یحییٰ خان کو ایمرجنسی نافذ کرنے پر آمادہ کیا۔ رپورٹ کا ایک ایک لفظ میں نے پڑھا اور نوٹس بنائے۔ افسوس کہ اچانک درپیش ہونے والے سفر میں یہ نوٹس کھو گئے۔ دل گرفتگی پہ دل گرفتگی ہے۔ 
پہلی بات تو یہ ہے کہ البدر کی تشکیل سے پروفیسر غلام اعظم کا ہرگز کوئی تعلق نہ تھا۔ پاکستانی فوج کے ایک میجر نے مقامی صورت حال کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک ہنگامی صورت حال میں یہ تنظیم بنائی تھی۔ جس کا مقصد سرحد سے داخل ہو جانے والے بھارتی ایجنٹوں سے نمٹنا تھا۔ بائیں بازو کے بعض دانشوروں نے اس باب میں پیہم چار عشرے اس قدر جھوٹ بولا ہے کہ خدا کی پناہ۔ غیر ملکی ایجنٹوں کے خلاف برسر جنگ ہونا کیا کوئی جرم ہے؟ زندہ سلامت مذکورہ فوجی افسر سرگودھا شہر میں موجود ہیں اور کئی بار ٹیلی ویژن پر داستان کہہ چکے۔ پروفیسر غلام اعظم فرار ہو کر مغربی پاکستان نہیں آئے تھے۔ بلکہ پاکستانی حکومت اور فوج پہ دبائو ڈالنے کے لیے کہ طے شدہ پالیسی کے مطابق مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان کا دفاع کیا جائے۔ یحییٰ خان مگر مشرقی پاکستان کو غرق مئے ناب کر چکے تھے۔ مغربی پاکستان کو سیاسی طور پر فتح کر لینے والے فخر ایشیا‘ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اس مطالبے کی تائید کرتے تو شاید کوئی امکان جنم لیتا مگر وہ ایسا کیوں کرتے۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد ڈھاکہ سے بھاگ کر وہ کراچی تشریف لائے اور ہوائی اڈے پر ارشاد کیا تھا: ''خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بچ 
گیا‘‘۔ اسی برس کے اوائل میں مینارپاکستان پر ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی انہوں نے مذمت اور مخالفت کی تھی۔ ارشاد کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کا جو رکن اسمبلی اس میں شریک ہوگا‘ اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ یہ بھٹو تھے‘ جنہوں نے واضح اکثریت حاصل کر لینے والے شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار منتقل ہونے نہ دیا۔ یہ اخبار نویس وہاں موجود تھا۔ چیئرنگ کراس لاہور میں احتجاجی جلوس سے خطاب کرتے ہوئے جب جناب بھٹو نے یہ کہا تھا ''سندھ اور پنجاب اقتدار کا سرچشمہ ہیں اور ان کی چابیاں میری جیب میں ہیں۔ ''اِدھر ہم اور اُدھر تم‘‘ کا نعرہ بھی آنجناب ہی نے لگایا تھا۔ عباس اطہر مرحوم نے روزنامہ آزاد مرحوم میں یہ سرخی جمائی تھی‘ جنہیں بعدازاں بھٹو صاحب نے اپنے اخبار کا ایڈیٹر مقرر فرمایا۔ کبھی اس نامور اخبار نویس سے انہوں نے یہ نہ پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ منفرد اخبار نویس نے 1977ء میں اپنی سرخیوں کا ایک مجموعہ شائع کیا تو اس کا عنوان یہی رکھا۔ اِدھر ہم‘ اُدھر تم... اس کے باوجود کہ وہ بھٹو کا مداح تھا‘ جب اسے پھانسی دی گئی تو درد بھری درجنوں نظمیں اس نے لکھیں اور ان کا مجموعہ ''ذکر‘‘ کے عنوان سے مرتب کیا۔ 
انگریزی اخبار کی رپورٹ یہ کہتی ہے کہ پروفیسر غلام اعظم کے خاندان نے ان کے انتقال کی خبر چھپا رکھنے کی کوشش کی۔ آخر کیوں‘ اس سے انہیں کیا حاصل ہوتا؟ واقعہ یہ ہے کہ لاہور کے پروفیسر سلیم منصور خالد کو یہ خبر 9:35 پر ملی‘ پروفیسر غلام اعظم کے فرزند کی طرف سے‘ ایک پیغام کی صورت۔ کیا یہ چھپا رکھنے کی کوشش تھی؟ 
اخبار نویس کے مطابق یہ وصیت کہ جماعت اسلامی کے رہنمائوں میں سے ایک ان کی نماز جنازہ پڑھے‘ عیاری پر مبنی ایک سیاسی چال تھی۔ اس لیے کہ وہ دونوں پس دیوار زنداں تھے۔ یاللعجب! اگر ان میں سے کسی ایک کو چند گھنٹے کے لیے پیرول پر رہا کردیا جاتا تو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کو اس سے کیا فائدہ پہنچتا؟ کیا مرنے والے 92 سالہ بے گناہ آدمی کو یہ حق بھی حاصل نہ تھا کہ اس کا پسندیدہ عالم دین جنازہ پڑھا دے۔ اللہ کی بارگاہ میں بہتے آنسوئوں کے درمیان‘ دل کی گہرائیوں سے اس کے لیے مغفرت کی دعا کرے؟ وہ آدمی جو جوانی میں تحریک پاکستان کا کارکن تھا۔ آسام کے ریفرنڈم میں جس نے تیر کر دریا پار کیے کہ گائوں گائوں مہم چلا سکے۔ کیا اپنے وطن کا دفاع اور اس سے محبت کرنا‘ ایک ایسا جرم ہے کہ پسِ مرگ بھی اس کی سزا توہین و تذلیل ہے۔ سویت یونین کی گود سے اچھل کر امریکہ کی گود میں جا بیٹھنے والے دانشوروں کے نفسیاتی مطالعے کی ضرورت ہے۔ آخر انہیں کیا مرض لاحق ہے؟ 
کیا انکشاف فرمایا کہ پروفیسر غلام اعظم نے جنرل یحییٰ خان کو ایمرجنسی لگانے پر آمادہ کیا تھا۔ مارشل لاء پہلے ہی نافذ تھا اور ایمرجنسی اس کا حصہ ہوتی ہے۔ 
یہ ہے اپنے آپ سے نفرت اور اس کے نتیجے میں خودشکنی۔ یہ ہے وہ مرض جو بعض نام نہاد دانشوروں کو لاحق ہے۔ مغرب اور بھارت کو وہ پاکستان کے نقطۂ نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ پاکستان کو مغرب اور بھارت کے نقطۂ نظر سے۔ پروفیسر غلام اعظم پر عائد کردہ تمام الزامات اس فرد جرم میں سے لیے گئے‘ جو حسینہ واجد کی حکومت نے مرتب کی تھی۔ من و عن انہیں قبول کر لیا گیا اور اس عدالتی طریقِ کار کو بھی‘ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی اکثر تنظیمیں جسے مسترد کرتی ہیں۔ یہ بھی سفید جھوٹ ہے کہ بنگلہ دیشی عوام نے انہیں اپنی سرزمین پر دفن کرنے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ عوامی لیگ کے چند درجن چھچھورے البتہ! جنازہ جب بیت المکرم لے جایا جا رہا تھا تو یہ بازاری لونڈے مرنے والے کے خلاف نعرہ زن تھے۔ وہ ایک ایسے آدمی سے خوف زدہ تھے جو اب اس دنیا میں موجود نہیں تھا۔ 
مجھے اس واقعے کا حوالہ دینے میں تامل ہے‘ چند ماہ قبل جب ایک معروف اخبار نویس پر حملہ ہوا۔ خبر اس طرح نشر کی گئی کہ ملک بھر میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ ایک آدھ دن کی بات نہیں‘ ایک خاص میڈیا گروپ میں دس پندرہ برس سے ایسی تحریریں چھپ رہی ہیں‘ جن کا بین السطور یہ ہے کہ پاکستانی ریاست اپنا کوئی اخلاقی جواز نہیں رکھتی۔ اس وقت صدمہ سے جب سبھی گم صم تھے اور کسی کو کچھ نہ سوجھ رہا تھا‘ جب اس پاگل نے اعلان کیا تھا کہ اگر کچھ نہ ہوا تو اسلام آباد سے کراچی تک احتجاجاً وہ پیدل مارچ کرے گا۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ایک دن میں یہ کر ہی گزروں گا۔ بے بسی کے ساتھ اپنے وطن کی توہین سہنے کے مقابلے میں‘ جسمانی اذیت گوارا ہے۔ تکان آخر اتر ہی جایا کرتی ہے۔ اس قدر توہین کوئی کب تک برداشت کرے۔ 
بس کرو‘ خدا کے لیے بس کرو‘ ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا جاتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں