کوئلو پائلو کا وہی جملہ: زندگی میں غلطی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، بس سبق ہوتے ہیں۔ جب ہم سیکھنے سے انکار کر دیتے ہیں تو قدرت انہیں دہراتی رہتی ہے۔
واہگہ کے مرنے والوں کا وارث کون ہے؟ صوبائی حکومت ورثا کی مالی امداد کا اعلان کر کے مطمئن ہو گئی۔ سیاسی لیڈر مذمّتی بیان جاری فرما کر اور میڈیا چیخ و پکار کر کے۔
پنجاب رینجرز کے ڈی جی نے بتایا اور قوم نے ان کے موقف کو قبول کر لیا کہ خود کش حملہ آور کو ہدف تک نہ پہنچنے دیا گیا۔ رینجرز کے بہادر جوانوں نے اسے روکا اور جانوں کی قربانی دے کر ان بہت سے لوگوں کو بچا لیا، جو ممکنہ طور پر جاں بحق ہوتے۔ اگلے روز پریڈ کا ویسا ہی شاندار اہتمام کیا گیا۔ بڑی تعداد میں لاہور کے شہری اس میں شریک ہوئے۔ اعلان کیا گیا کہ پاکستانی ایک بہادر قوم ہیں۔ دشمن اسے ہراساں کرنے میں ناکام رہا۔
وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ نے پاک فوج کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ کوئی دن جاتا ہے کہ اس المناک سانحے کو ہم بھول چکے ہوں گے؛ تاآنکہ اللہ نہ کرے، پھر سے زخم ہرے ہوں۔
ہم ایک زود فراموش اور فراریت پسند (Escapist) معاشرہ ہیں۔ چیلنج کا مقابلہ کرنے کی بجائے، گریز کی راہیں تلاش کرنے والے۔ سرکاری بیانات کا مطلب کیا ہے؟ یہ کہ حملہ ضربِ عضب کا ردّعمل ہے اور یہ کہ دہشت گردی کا سدّباب مسلّح افواج کی ذمہ داری ہے، سول حکومت کی ہرگز نہیں۔ پنجاب کے وزیرِ داخلہ نے کہا کہ پریڈ کے مقام پہ حفاظت کی ذمہ داری پولیس نہیں، رینجرز کی تھی۔ حملہ آور کیا آسمان سے واہگہ پہ آ گرا تھا؟
وزیرِ داخلہ کا بیان بہت گونجا کہ سانحے سے چار دن پہلے ہی رینجرز، پولیس اور پنجاب حکومت کو مطلع کر دیا گیا تھا۔ یہ سوال پوچھنے کی مگر بہت کم جسارت کی گئی کہ چوہدری صاحب! لگ بھگ ایک سال قبل جس جوائنٹ انٹیلی جنس سیکرٹریٹ کے قیام کا اعلان ہوا تھا، اس کا کیا ہوا؟
اسلام آباد میں ایک ہی چھت کے نیچے تمام، 26 عدد انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نمائندے جمع ہوتے۔ مشکل صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ایک ہنگامی فورس قائم ہونا تھی۔ اگر وہ ادارہ بن چکا ہوتا تو واہگہ کا سانحہ شاید پیش نہ آتا۔ اگر اس روز یہ فورس وہاں کارفرما ہوتی۔
آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کا کہنا یہ ہے کہ انتباہی مراسلہ موصول ہونے پر شب ڈیڑھ بجے پولیس افسروں کا اجلاس بلایا گیا۔ دوسرے دن پھر یہی مشق کی گئی۔ رینجرز سے پوچھا گیاکہ پولیس کیا کر سکتی ہے۔ لیڈی پولیس کے علاوہ انہوں نے دس عدد مزید جوانوں کی فرمائش کی۔ دونوں مطالبات پورے کر دیے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ جن دو چیک پوسٹوں کا ہر ٹی وی نشریے میں بار بار ذکر کیا گیا، جائے حادثہ سے وہ دو کلومیٹر ادھر واقع ہیں۔ تلاشی یہاں ضرور لی جاتی ہے مگر سختی کے ساتھ نہیں (اور شاید یہ ممکن بھی نہیں کہ ہزاروں آدمیوں اور سینکڑوں گاڑیوں کو کھنگالا جائے)۔ اگر میں ٹھیک نتیجہ اخذ کر سکا تو وہ یہ ہے کہ دہشت گرد اردگرد کے دیہات میں کہیں چھپا ہوا تھا۔ ایک نہیں، دو عدد۔ دوسرا اپنی جیکٹ پھینک کر فرار ہو گیا۔ غالباً انہی دیہات میں، جہاں بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ اپنے ٹھکانے رکھتی ہے۔
بیس برس ہوتے ہیں، عمران خاں نے مجھ سے کہا: جنرل حمید گل مجھ سے کہتے ہیں کہ شوکت خانم ہسپتال کا دھماکہ آصف علی زرداری نہیں، بھارتی خفیہ ایجنسی نے کرایا ہے۔ عرض کیا، وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ عمران خان کے اس شبہے کا سبب یہ تھا کہ ہسپتال کی افتتاحی تقریب میں جب اس نے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو مدعو کرنے سے انکار کر دیا تو آنجناب نے انہیں پیغام بھیجا کہ اس کے نتائج اچھے نہ ہوں گے۔ اسی لیے کپتان اس دن اتنا مشتعل تھا کہ ایک اخبار نویس کی اس نے پٹائی کر دی تھی۔ صحافی نے کہا تھا کہ سستی شہرت کے لیے یہ دھماکہ اس نے خود کرایا ہے۔ یہ دہشت گرد بعد ازاں پکڑا گیا اور ایک پولیس افسر نے اسے گرفتار کیا تھا۔ بھارتی کی خفیہ ایجنسی را نے مشرقی پنجاب میں اسے تربیت دی تھی۔ بہت سے دوسرے مقامات پر بھی اس نے ریموٹ کنٹرول دھماکے کیے تھے‘ اس کا تعلق انہی دیہات سے تھا۔
تفتیش سے واضح ہو گا کہ ذمہ دار طالبان ہیں یا بھارتی۔ پاک بھارت سرحد کے ساتھ ساتھ پھیلے سینکڑوں دیہات کی اگر سختی سے تلاشی نہ لی گئی۔ مشکوک افراد پر نظر رکھنے کا اگر بندوبست نہ کیا گیا‘ تو خدانخواستہ آئندہ بھی اس طرح کا حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔ پنجاب پولیس تو بے بس نظر آتی ہے۔ اس لیے بے بس کہ وہ پولیس ہے ہی نہیں۔ درپیش چیلنج سے نمٹنے کی صلاحیت وہ ہرگز نہیں رکھتی۔ ایسا نہیں کہ وہ بزدلی کی ماری ہے یا صلاحیت سے محروم۔ انہی کے بھائی بند موٹر وے پر اپنے فرائض ذمہ داری، خوش اسلوبی اور دیانت داری سے انجام دیتے ہیں۔ پنجاب ہی نہیں، ہر کہیں پولیس صوبائی حکومتوں کی باندی ہے۔ اس کی بڑی تعداد اہم افراد کی حفاظت پر مامور ہے۔ حال ہی میں وزیرِ اعظم سے ملاقات کرنے والے ارکانِ اسمبلی نے شکایت کی کہ ان کے علاقوں میں پولیس افسروں کا تقرر ان کی مرضی سے نہیں ہوتا۔ ایسے میں وہ کیا خاک سیاست کریں؟ گذشتہ صدی کے اوائل کا لندن، 1990ء کے عشرے کا نیویارک اور 1995ء کا کراچی، جہاں کہیں ریاست نے دہشت گردی پر فتح پائی، پولیس ہی اس کا سب سے بڑا اور سب سے موثر ہتھیار تھی۔
آئی جی مشتاق سکھیرا کا نقطہء نظر یہ ہے کہ انٹیلی جنس کو جب تک بہتر نہ بنایا جائے گا، تنہا پولیس کچھ نہیں کر سکتی۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں اور اس کے پیچھے ان کا بلوچستان کا تجربہ کارفرما ہے۔ صرف فوجی اور سول انٹیلی جنس ہی نہیں، وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک، سدرن کمانڈر کے سربراہ جنرل ناصر اور چیف سیکرٹری کی مکمل خوشدلانہ تائید انہیں حاصل تھی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ کوئٹہ میں آدھی چیک پوسٹیں چند ماہ قبل ختم کر دی گئی تھیں۔ اغوا برائے تاوان کا سدّباب ہوا اور دہشت گرد کارروائیوں میں کمی آئی۔
دہشت گردی پر کبھی کوئی قومی پالیسی تھی ہی نہیں۔ اس عفریت سے نمٹنے کے لیے پوری قوم کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں کہیں کوئی مشکوک آدمی نظر آئے، پولیس کو اس کی اطلاع مل سکے۔ سپیشل برانچ کی استعداد بڑھانے کی۔ اس سے بھی زیادہ قانون کے دائرے میں پولیس اور سول سروس کو مکمل آزادیء عمل عطا کرنے اور اس کے ساتھ آئی بی کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی۔ آئی بی کا موجودہ سربراہ ایک ایماندار آدمی ہے مگر اس کی ایمانداری کیا کرے؟ خفیہ ایجنسیوں کے بجٹ بھی خفیہ ہوتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا مگر یہ ہے کہ آئی بی کا میزانیہ اب ڈھائی ارب کے لگ بھگ ہے۔ غضب خدا کا صرف راولپنڈی میٹرو کے لیے 35 ارب اور ملک بھر کی حفاظت پر مامور ادارے کے لیے صرف ڈھائی ارب؟ وزیرِ داخلہ روٹھ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ بھائی، یا تو انہیں اختیار دو یا کسی دوسرے کو ذمہ داری سونپو۔ یہ کیا مسخرہ پن ہے؟
قیامِ پاکستان کے بعد قبائلی علاقوں کے بارے میں کیے جانے والے فیصلوں پر کبھی عمل نہ کیا گیا۔ 1951ء آخری برس تھا اور لیاقت علی خان آخری حکمران، جن کے دور میں کچھ قبائلی علاقے سول اداروں کے حوالے کیے گئے۔ اس کے بعد ہم لمبی تان کر سو گئے۔ یہ علاقے جرائم پیشہ سول افسروں کی جنّت بنے رہے۔ مستثنیات کے سوا، جو شخص بھی یہاں پی اے کے منصب پر فائز ہوا، کروڑ پتی بن کے لوٹا۔ سندھ اور پنجاب سے کوئی بھی قاتل اور ڈاکو یہاں پناہ گزین ہو جاتا‘ پی اے سے رابطہ کیا جاتا تو اس کا جواب یہ ہوتا ''پشتون ولی کے تحت وہ کسی کی پناہ میں ہے اور پُرامن ہے‘‘ کیا کہنے، پشتون ولی کی اس توجیہ کے کیا کہنے۔
سرکاری بیانات سے آشکار ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ حکومت کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ ان کے خیال میں یہ فوج اور آئی ایس آئی کا دردِ سر ہے۔ سرکار کو کاروبار کرنا اور عمران خان سے نمٹنا ہے۔ جب یہ عرض کیا جاتا ہے کہ ملک کو ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے تو لوگ سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔ کیا صورِ اسرافیل ہی انہیں جگائے گا یا اس سے پہلے وہ جاگ اٹھیں گے؟ کوئلو پائلو کا وہی جملہ: زندگی میں غلطی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، بس سبق ہوتے ہیں۔ جب ہم سیکھنے سے انکار کر دیتے ہیں تو قدرت انہیں دہراتی رہتی ہے۔