جی نہیں، ایسا کبھی ہوا ہے اور نہ ہو گا۔ اپنی فطرت میں تمام انسان ایک جیسے ہیں اور ان پر قدرت کے قوانین کا اطلاق ایک ہی طرح سے ہوتا ہے۔ رب العالمین کی بارگاہ میں کوئی استثنیٰ نہیں۔
بالآخر ایک شائستہ آواز ہم نے سنی ہے۔ یہ وزیرِ اعظم کے ترجمان ڈاکٹر مصدّق ہیں، جنہوں نے یہ کہا: عمران خان کے روّیے میں لچک ہے۔ وزیرِ اعظم کے استعفے سے دستبرداری پر سرکاری ایوان سے ایسا ہی ردّعمل چاہیے تھا۔ تحریکِ انصاف ایک چیختی دھاڑتی حقیقت ہے۔ اس کے وجود کو تسلیم کیے بغیر، وہ آہنگ پیدا نہیں ہو سکتا، سیاسی استحکام کے لیے جو ضروری ہے۔ قیامِ امن کے لیے ایک کم از کم قرار اور ٹھہرائو کے بغیر ملک اور معاشرے فروغ پذیر نہیں ہو سکتے۔ یہ تاریخ کا سبق ہے اور اٹل ہے۔
عمران خان نے دو بڑی غلطیوں کا ارتکاب کیا۔ ایک سے وہ پیچھے ہٹ گئے اور یہ خوش آئند ہے۔ شعلہ بداماں مظاہرین کے بل پر حکومت کا فوری خاتمہ۔ ثانیاً ان کے کارکنوں کا بے پناہ تلخ روّیہ۔ حریف تو کجا، آزاد اخبار نویس بھی جس کا ہدف رہتے ہیں۔ سرکاری صحافیوں کی بات دوسری ہے اور بتدریج وہ ڈوبتے جا رہے ہیں۔ دھرنے کے ہنگام ایسے اخبار نویسوں کو بکائو کہا گیا، جن میں سے بعض کی دیانت پر قسم کھائی جا سکتی ہے ۔ لازم نہیں کہ ان کی رائے سے اتفاق کیا جائے مگر بکائو؟
خوفِ خدائے پاک دلوں سے نکل گیا
اور آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاںؐ گئی
بالآخر ایسے اخبار نویسوں نے بھی اختلاف کیا، جو کپتان کی احتجاجی تحریک کے حامی تھے۔ سیلاب، آندھی اور طوفان اوّل اوّل اپنے ساتھ دہشت لے کر آتے ہیں۔ تجزیہ کرنے کی صلاحیت ایسے میں کند ہو سکتی ہے۔ کتنا ہی تجربہ کار کوئی کیوں نہ ہو، گاہے مرعوبیت کا شکار ہو سکتا ہے۔ غیب کا علم کون رکھتا ہے۔ حواس مگر سلامت رکھنے چاہییں اور مشورہ ان سے کرنا چاہیے جو بڑی تصویر دیکھنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں۔ ایک مرحلہ وہ تھا، جب خود وفاقی وزرا خوف کا شکار تھے۔ اگر کچھ اخبار نویس مرعوب اور متاثر ہو گئے تو تعجب کیا۔ سامنے کا نکتہ یہ تھا کہ کیا آرمی چیف اس بغاوت کی پشت پناہی کریں گے یا نہیں۔ واضح طور پر اس سوال کا جواب نفی میں تھا۔
بے شک انتخاب میں دھاندلی ہوئی۔ سوال مگر یہ تھا کہ کتنی سیٹوں پر۔ پھر یہ کہ فیصلہ کون کرے گا۔ ہجوم یا کوئی عدالتی ادارہ؟ اوّل دن سے کپتان نے اگر آئین کی دفعہ 190 پہ اصرار کیا ہوتا تو پورا امکان تھا کہ خوف زدہ حکومت مان جاتی۔ وزیرِ اعظم نے عدالتی کمیشن کے لیے جب عدالتِ عظمیٰ کو لکھ بھیجا تو عمران خان کو فقط یہ کرنا تھا کہ دفعہ 190 کے تحت عدالتی کی بجائے تحقیقاتی کمیشن پہ اصرار کرتے۔ دوسرا موقعہ وہ تھا، جب جنرل راحیل شریف نے علامہ طاہرالقادری اور خود انہیں ملاقات کی دعوت دی۔ جیسا کہ بعد میں آئی ایس پی آر کی وضاحت سے آشکار ہوا، یہ اقدام وزیرِ اعظم کی ایما پر کیا گیا۔ عسکری قیادت سے انہوں نے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کی درخواست کی تھی۔ اپنے حلیفوں سے خوف زدہ وزیرِ اعظم پیچھے ہٹ گئے اور ہوا کے گھوڑے پر سوار احتجاجی لیڈر بھی۔ اس وقت ایک معاہدہ ممکن تھا اور ایسا معاہدہ جو نہ صرف دھاندلی کی گتھی سلجھا سکتا‘ بلکہ آئندہ کے لیے ممکن حد تک شفاف الیکشن کی ضمانت بھی عطا
کرتا۔ طبائع میں مگر ہیجان تھا اور ایسا ہیجان جو ہوش و خرد کو چاٹ جاتا ہے۔ بارہا عرض کیا اور بارِ دگر عرض ہے کہ عقل کبھی تنہا نہیں ہوتی۔ ایک جمیل و جلیل مقصد سے روشن ہو تو متوازن بھی ہو سکتی ہے۔ اگر برہمی، انتقام یا ہوسِ اقتدار سے مملو تو غیظ و غضب کے زیرِ اثر‘ انتقام کی کالی دیوی۔
بیسویں صدی کے علمی مجدّد، اقبال کی فکر، عقل اور عشق کے عنوان پر نشیب و فراز سے گزری ہے۔ اس موضوع پر ان کا بہترین شعر شاید یہ ہے۔
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے، منزل نہیں ہے
مقصد بلند ہو اور تجزیہ درست تو ناکامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا؛ اگرچہ وقت کا تعین کوئی نہیں کر سکتا۔ کوئی عظیم سے عظیم شخص بھی نہیں۔ قرآنِ کریم کہتا ہے: تم پوچھتے ہو کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ اللہ کی مدد قریب ہے‘ لیکن پھر وہ گزر جانے والی امتوں کے اہل عزم کی کہانی کہتا ہے۔ وہ کہ جن کے بدن آروں سے چیر دیے گئے اور جو ایسی ابتلائوں سے گزرے کہ عامی جن کے تصور ہی سے کانپ اٹھیں۔ ایک مثبت خیال بہرحال نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ افغانستان میں امریکی جنرل ہار گئے اور پاکستان کا فرزند اشفاق پرویز کیانی آخری تجزیے میں کامیاب رہا۔ وہ تینوں امریکی فارمولے اس نے مسترد کر دیئے، جن میں امریکہ، چین اور سعودی عرب کے علاوہ بھارت کا بھی ایک کردار تھا، یہ کہانی پھر کبھی۔
عمران خاں نے جو کیا سو کیا، مگر نون لیگ بھی کیا کر پائی؟ وزیرِ اعظم نواز شریف کا لہجہ اگرچہ شائستہ رہا مگر مسئلہ جوں کا توں ہے۔ پرویز رشید اور احسن اقبال ایسے وزرا کو طعنہ زنی کے لیے انہوں نے کھلا چھوڑ دیا۔ نتیجہ اس کا برقرار رہنے والی کشیدگی ہے۔ دھرنے سوکھ گئے مگر احتجاجی جلسے جاری ہیں اور 30 نومبر سر پہ۔ آج بھی جب ڈاکٹر مصدق نے معقولیت کا مظاہرہ کیا ہے، ان دونوں وزرا کا لہجہ لڑاکا دیہاتی عورتوں کا لہجہ ہے۔
عمران خاں نے اگر یہ کہا تو کیا غلط کہا کہ قوموں اور ملکوں کی ترقی کا انحصار امن و امان پہ ہوتا ہے۔ امن، استحکام، ایک عمدہ سول سروس، انصاف عطا کرنے والی عدالت اور سیاسی اثرات سے پاک پولیس۔ کیا بالفاظِ دیگر یہی بات جرمن چانسلر انجلا مرکل نے وزیرِ اعظم نواز شریف کو نہیں بتا دی: سرمایہ کاری کے لیے ہم آمادہ ہیں مگر مسئلہ سلامتی کا ہے۔ چند دن ہوتے ہیں، اس ناچیز کی گزارش پر کان کنی کی ایک ممتاز امریکی کمپنی کے پاکستانی ڈائریکٹر اور دنیا کے دس ممتاز انجینئروں میں سے ایک کینیڈین انجینئر پاکستان تشریف لائے۔ ہر معقول شرط وہ تسلیم کرنے پر آمادہ تھے، جو پاکستان کا آئین اور پاکستانی حکومت عائد کرے۔ کس حسرت سے وہ کہتے رہے کہ 48 مقامات پر پاکستان میں ایک ہزار بلین ڈالر سے زیادہ سونے کے ذخائر موجود ہیں، تیس برس میں جو برآمد کیے جا سکتے ہیں۔ حکومتِ پاکستان اگر عالمی ٹینڈر طلب کرے۔ اسی اثنا میں ایک سرکاری وفد پیرس میں ان مشکوک کمپنیوں سے خفیہ مذاکرات کرتا رہا، جنہیں سپریم کورٹ مسترد کر چکی۔ اطلاع یہ ہے کہ سازباز ہو چکی؛ اگرچہ میرا خیال ہے کہ اس آزاد میڈیا اور ان عدالتوں کی موجودگی میں ڈکیتی آسان نہیں۔ میڈیا کے واویلا کرنے پر عدالتِ عظمیٰ نے روک دیا تھا، آئندہ بھی انشاء اللہ روک دے گی۔
احسن اقبال کی رائے کیونکر قبول کی جائے کہ شاہ سے زیادہ وہ شاہ کے وفادار ہیں۔ بجا کہ اقتصادی راہداری اور بجلی کے منصوبے شاندار ہیں۔ ملک کی اوّلین ضرورت‘ جن کی تکمیل سے معاشی نمو کے ایک شاندار عہد کا آغاز ہو سکتا ہے۔ سوال دوسرا ہے۔ پارلیمنٹ میں بحث کیوں نہ کی گئی؟ کابینہ میں بھی نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈروں کو بھی اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا۔ کم از کم اقتصادی وقائع نگاروں کو۔ فقط غیر ملکی امداد کے بل پر کسی قوم نے کبھی کوئی اقتصادی معجزہ برپا نہیں کیا۔ غضب خدا کا، لبرٹی مارکیٹ کے تمام تاجر پانچ لاکھ روپے سالانہ ٹیکس دیں۔ تھانیدار ایم پی اے کی مرضی سے لگے، پٹواری وزیرِ اعلیٰ کی خوشنودی سے۔ پھر ملائیشیا اور ترکی بننے کا خواب بھی دیکھا جائے۔
جی نہیں، ایسا کبھی ہوا ہے اور نہ ہو گا۔ اپنی فطرت میں تمام انسان ایک جیسے ہیں اور ان پر قدرت کے قوانین کا اطلاق ایک ہی طرح سے ہوتا ہے۔ رب العالمین کی بارگاہ میں کوئی استثنیٰ نہیں۔
پس تحریر: راولپنڈی میں میٹرو بس کیلئے، سڑکوں کی کھدائی سے روزانہ سینکڑوں شہری الرجی کا شکار ہو رہے ہیں۔ پانی کے پیہم چھڑکائو سے سدباب ممکن ہے۔ انچارج مگر حنیف عباسی ہیں۔ دودھ کی رکھوالی بلی کے سپرد۔