"HRC" (space) message & send to 7575

قومِ رسولِ ہاشمیؐ

یہ ایک تابناک معاشرہ بن سکتا ہے‘ دنیا کی معزز اور خوشحال اقوام میں سے ایک‘ اگر ایک اخلاقی تحریک برپا ہو۔ اس تحریک کے خدوخال کیا ہونے چاہئیں۔ آپ بھی غور کریں‘ ناچیز بھی کرے گا ؎
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر 
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ 
ہوٹل کی راہداری میں قدم رکھا تو دو بھلے آدمی لپکتے ہوئے آئے۔ اگرچہ بات کرنے کے وہ آرزو مند تھے مگر عجلت کو انہوں نے محسوس کیا۔ اس کے باوجود بڑی بیتابی سے ان میں سے ایک نے پوچھا: اس ملک کا مستقبل کیا منور ہو سکتا ہے؟ ''بہت‘‘ میں نے کہا اور آواز بلند کی ''مستقبل بہت منور ہے‘‘۔ پلٹ کر میں نے دیکھا‘ چہروں پہ دمک تھی۔ وہ بشاشت جو قیدی میں رہائی کی امید سے پیدا ہوتی ہے۔ 
اپنے وطن کے ساتھ ہم نے کیا کیا؟ کبھی اپنا گھر اسے سمجھا ہی نہیں۔ ایک کے بعد دوسرا بحران۔ جمعہ کی شب پٹرول کی کمیابی پر دو وزرا کے خیالات سنے۔ شاہد خاقان عباسی نے پٹرول درآمد کرنے والی سرکاری کمپنی پی ایس او کے بارے میں تمام تر افواہوں کی تردید کی۔ اصرار کیا کہ غلطی صرف ایک اندازے میں ہوئی‘ یہ کہ جنوری میں کتنا پٹرول صرف ہو گا۔ سالِ گزشتہ کے مقابلے میں دس فیصد زیادہ پٹرول منگوایا‘ خریداری مگر 25 فیصد بڑھ گئی۔ پی ایس او کی مالی صحت کا اس بحران سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ شاہد خاقان ایک مردِ شریف ہیں مگر تلخی کا شکار نظر آئے۔ میڈیا پر برہمی کا اظہار تو نہ کیا مگر تاثر یہ دیا کہ افواہیں گھڑی اور افسانے تراشے جا رہے ہیں۔ 
بالکل برعکس برہم مزاج خواجہ محمد آصف نے بتایا کہ پی ایس او شدید دبائو کا شکار ہے۔ کہا: میری وزارت سمیت مختلف سرکاری محکمے 200 ارب دبائے بیٹھے ہیں۔ روپیہ ان کے پاس تھا ہی نہیں تو وہ کیا کرتے۔ خدا خدا کر کے اب ایل سی کھولنے کا بندوبست وہ کر پائے ہیں۔ ایک حیران کن انکشاف بھی کیا کہ تیل کی خریداری میں‘ جتنی زیادہ تاخیر ہو گی‘ ملک کو اتنا ہی مالی فائدہ ہو گا... ''تین چار بلین ڈالر تک‘‘ انہوں نے ارشاد کیا۔ 
خاقان عباسی صاحب سے التماس ہے کہ جس چیز پر میڈیا سے وہ ناخوش ہیں‘ اس پر اپنے ہم نفس سے بات کیوں نہیں کرتے؟ پی ایس او کے بارے میں خواجہ نے ٹھیک وہی بات کہی‘ جس کا اظہار دوسروں نے کیا ہے۔ صاف صاف یہ اشارہ بھی دیا کہ تیل کی درآمد میں جان بوجھ کر تاخیر کی جا رہی ہے کہ زرمبادلہ کی بچت کی جائے۔ بچت تو کیا خاک ہو گی کہ یہ اسراف کرنے والی قوم ہے۔ ایک ہنگامہ اور ہیجان ضرور برپا ہے۔ حکمران جماعت کی نیک نامی اور استعداد کار کے بارے میں شکوک و شبہات اور بھی گہرے ہوئے ہیں... حکمران پارٹی سے مراد ہے‘ شریف خاندان۔ لاہور والوں کی اصطلاح میں باقی سب ''چھان بورا‘‘ ہے‘ گندم کا چھلکا‘ جو اس قدیم شہر کے کلچہ خور‘ مویشیوں کو کھلا دیا کرتے ہیں۔ 
برسبیل تذکرہ‘ عمران خان کے بارے میں خواجہ کا ایک جملہ حیران کن تھا۔ ان کے سیاسی مستقبل پر سوال کیا گیا تو فرمایا: کیا یہ بھی کوئی قابلِ غور موضوع ہے؟ کیا کہنے‘ کیا کہنے‘ سبحان اللہ‘ سبحان اللہ۔ پھر اسی سانس میں جنرل پرویز مشرف سمیت سبھی کو نصیحت کی کہ تکبّر بُرا ہے۔ دنیا میں رسوائی اور آخرت میں بھی۔ خواجہ صاحب سے سوال یہ ہے کہ تکبّر ان کی رائے میں کس چڑیا کا نام ہے؟ صرف ایک تزویراتی پسپائی پر عمران خان کو انہوں نے غیر متعلق اور بے معنی 
قرار دے دیا۔ شریف خاندان اور اس کے حواریوں کا شعار یہی ہے۔ طاقت ور ہوں تو گریبان پکڑتے ہیں اور کمزور ہوں تو سب جانتے ہیں کہ کیا کرتے ہیں۔ پندرہ برس تک پنجاب میں تحریک انصاف کے پوسٹر اور بینر ناقابلِ برداشت رہے۔ لشکر لے کر وہ اسلام آباد پہ چڑھ دوڑا۔ مجھ ایسے لوگ‘ اس اقدام کے خلاف تھے‘ خاص طور پر اس مشکوک مفکر‘ علامہ طاہرالقادری کے۔ پوری سنجیدگی سے ہم یہ سمجھتے تھے کہ اس سے ملک کو نقصان پہنچے گا‘ قومی سیاست اور تحریک انصاف کو بھی۔ شریف خاندان مگر انکسار‘ عاجزی اور حسنِ اخلاق کا پیکر بن گیا۔ فوراً ہی جنرل راحیل شریف سے وزیر اعظم نے استدعا کی کہ کپتان کو وہ سمجھائیں۔ 
ہم صحافی سیاست کے طالب علم ہیں‘ ظاہر ہے کہ ہمیں الہام نہیں ہوتا۔ با ایں ہمہ ہمارا انتباہ یہ ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے بارے میں شریف قبیلے کا اندازہ یکسر غلط ہے۔ بجا کہ پارٹی کو منظم کیے بغیر‘ بنیادی مسائل‘ دہشت گردی‘ گیس‘ بجلی‘ پولیس‘ عدالت‘ تعلیم‘ صحت پر ضروری تحقیق اور مردانِ کار کی تیاری کے بغیر‘ اقتدار شاید اسے نہ مل سکے مگر نون لیگ کو تباہ کرنے کی وہ پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کی کوئی ساکھ نہیں اور کوئی کارنامہ انہوں نے انجام نہیں دیا۔ ایک خاندان تباہ ہو گیا‘ زرداری صاحب مدظلہ العالی کا۔ تضادات کے طفیل‘ اب اس کے اندر دراڑیں ہیں۔ سندھ میں شاید آخری بار وہ اقتدار میں ہیں۔ دوسرا بھی اسی راہ پر گامزن ہے۔ محترمہ مریم نواز اور جناب حمزہ شہباز الگ الگ اپنے اجلاس بلاتے ہیں۔ سرکاری افسران کی خدمت میں حاضر ہوتے اور وہ احکامات صادر کرتے ہیں۔ یہ تباہی کا راستہ ہے۔ وہی زرداری صاحب‘ ان کی ہمشیرہ محترمہ اور صاحبزادے کی تگڑم‘ جو اب اپنی خالہ صنم بھٹو اور ممانی غنویٰ بھٹو کی طرف مائل ہیں۔ مشیر ان کے مختلف اور ترجیحات ان کی جدا ہیں۔ع
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں 
انسانی کردار کے تضادات کو قدرت گاہے ایسے زاویوں سے بے نقاب کرتی ہے کہ گمان تک نہیں ہوتا۔ میرؔ صاحب کا فرمان یہ ہے ؎ 
زندگی کی رہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل 
یوں سمجھ لے کوئی مینا خانہ بارِ دوش ہے 
کتنے حکمران تاریخ کی گود میں جا سوئے اور کتنے بربادی کی راہ پہ گامزن ہیں۔ دیکھنے والی آنکھ مگر کم ہے۔ ادراک کرنے والے قلوب کم۔ جن لوگوں نے شریف خاندان ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے‘ ایک دن وہ ویران ساحلوں پر اتریں گے اور بے نام جزیروں میں عبرت کا نشان بن جائیں گے۔ 
پٹرول کی بات ادھوری رہ گئی۔ ایک اور نقطۂ نظر بھی ہے۔ جان بوجھ کر تاخیر ہوئی اور مہنگا پٹرول خریدا گیا۔ فروخت کرنے والوں کے علاوہ‘ تیل کمپنیوں کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ طاقتور لوگ‘ جس سے روپیہ بنائیں گے۔ شاہد خاقان شریف آدمی ہیں مگر سبھی تو نہیں۔ بہت کچھ ان سے بالا بالا بھی ہو سکتا ہے۔ افواہ یہ بھی ہے کہ پی ایس او کو فروخت کرنے کا منصوبہ ہے اور وہ بھی میاں محمد منشا کے ہاتھ۔ ایک عدد بینک پہلے ہی انہیں بخشا جا چکا۔ اگر ایسا ہے تو حکمران طبقے میں ان کا کردار بہت بڑھ جائے گا۔ ''مشتری ہوشیار باش‘‘ نہیں یہ ''فروخت کنندہ ہوشیار باش‘‘ کا مضمون ہے۔ 
اچھا‘ وہ سوال کہ ملک کا مستقبل کیا ہے؟ جیسا کہ بار بار عرض کیا‘ ملکوں اور قوموں کے مقدر کا انحصار افواج اور حکومتوں سے زیادہ اقوام پر ہوتا ہے۔ کیڑے ڈالنے والے ملحدوں اور ملاّئوں کی بات دوسری ہے‘ وگرنہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے‘ جہاں ڈاکٹر امجد ثاقب ہیں‘ جہاں ادیب رضوی ہیں‘ جہاں ایدھی فائونڈیشن ہے‘ مفت تعلیم کے لیے ریڈ کارپوریشن‘ غزالی اور تعمیر ملت فائونڈیشن ایسے ادارے ہیں۔ یہ رحمۃ للعالمینؐ سے محبت کرنے والی قوم ہے اور دائم خرابی اس کا مقدر نہیں ہو سکتی۔ ملک کے اکثر بڑے ہسپتالوں میں لاکھوں مریضوں کو روزانہ بہترین کھانا مفت پیش کیا جاتا ہے۔ میرے دوست نجیب بلگامی نے بتایا کہ کراچی میں صرف ایک صاحبِ خیر‘ روزانہ ڈیڑھ لاکھ آدمیوں کے لیے دستر خوان بچھاتا ہے۔ علم کم ہے۔ یہ شعور کم ہے کہ جدید زندگی کے تقاضے‘ منظم اداروں کے بغیر نبھائے نہیں جا سکتے۔ دس پندرہ لاکھ تعلیم یافتہ لوگ عمران خان کے ساتھ ہیں مگر افسوس کہ ان کی تربیت کا کوئی منصوبہ نہیں۔ 
یہ ایک تابناک معاشرہ بن سکتا ہے‘ دنیا کی معزز اور خوشحال اقوام میں سے ایک‘ اگر ایک اخلاقی تحریک برپا ہو۔ اس تحریک کے خدوخال کیا ہونے چاہئیں۔ آپ بھی غور کریں‘ ناچیز بھی کرے گا ؎
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر 
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ 
پسِ تحریر: تیل کی قلّت پر سیکرٹری پٹرولیم عابد سعید کو معطل کر دیا گیا۔ یہ کیا حرکت ہے؟ ان کا کیا قصور؟ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں