"HRC" (space) message & send to 7575

آسودگی

اپنا دیار آپہنچا۔ عافیت اور آسودگی گھر میں ہوتی ہے... یا شاید گمنامی میں ، تنہائی میں ، خاموشی میںیا شاید صحبتِ سعید میں ۔ ہاں رب العالمین او ررحمتہ اللعالمینؐ کی یاد میں۔ 
یا رب تو کریمی و رسولِ تو کریم 
صد شکر کہ ہستیم میانِ دو کریم 
دور بہت دور، دریائوں، کھیتوں ،پہاڑوں اور سبزہ زاروں سے پرے ، سرما کا سورج ڈوب رہا ہے ۔ ابھی کچھ دیر پہلے دل میں حرفِ شکایت اٹھا تھا۔ بٹن دبایا تو بجلی غائب، ٹونٹی کھولی تو پانی ٹھنڈا ، گیس بھی غائب۔ پٹرول غائب۔ 
شہباز شریف یاد آئے۔ میں نے کہا ''میرا گائوں...‘‘ یادداشت انہوں نے غضب کی پائی ہے ۔ بولے: سڑک تو بنوا دی تھی ۔ عرض کیا: سورج غروب ہونے کے بعد اس سڑک پہ ٹھگوں کا راج ہو جاتاہے ۔ پھر ان کا سابق مشیر یاد آیا، جو اب مرکز میں براجمان ہے ۔ جس کا پیشہ عمران خان کی زندگی میں کیڑے ڈالنا ہے ۔ ایک جرّی اخبار نویس نے اس کی فرمائش پر لکھا کہ یہ سڑک ایک ہائوسنگ سوسائٹی کے لیے ہارون الرشید نے بنوائی ۔ برسوں بعد آج بھی وہاں کھیت لہلہاتے ہیں ۔ 
پھر ایک اور خیال نے دستک دی ۔ ٹھنڈے پانی سے نہانے کا اپنا ہی لطف ہے ۔ سامنے کرسی پر تھر کی اونی چادر رکھی ہے ۔ سالِ گذشتہ جو صبغت اللہ شاہ راشدی نے بھجوائی تھی ۔ برفیلا پانی کاہلی نوچ پھینکتا ہے ۔ زندگی گوارا معلوم ہونے لگتی ہے ۔
کیسا اچھا دن بیتا ہے ۔ پٹرول نہ سہی ، ریل میں سفر کیا اور دل شاد ہوا ۔ ہزار نعمتیں اب بھی جلوہ گر ہیں ۔ ہزار امکانات اب بھی موجود۔ 
ملک کاموسم بدل رہا ہے ۔ ایک عشرے کے بعد پہلی بار دہشت گردی تحلیل ہونے کی امید جاگی ہے ۔ 
ایک منٹ فوّارے کے نیچے اور زندگی پھر سے بروئے کار آگئی۔ سجدۂ شکر ادا کرنے اٹھا توبرقی رو نے آمد کی خبر دی۔ بٹن دبایا تو معلوم ہوا کہ گیس بھی نمودار ہے۔ سبحان اللہ! فبای اٰلاء ربکما تکذبان۔ اللہ کی کون کون سی نعمت کو تم جھٹلائو گے ۔ 
لاہور میں اذانِ فجر کی آواز کے ساتھ آنکھ کھلی ۔ یہ سالانہ زیارت کا دن ہے ۔ گیہوں کے سبز کھیتوں اور پیلی سرسوں کی زیارت ۔دس منٹ باقی تھے، جب ہوٹل سے گاڑی ریلوے سٹیشن کے لیے روانہ ہوئی ۔سات بجنے میں تین منٹ باقی تھے، جب کسی نے چیخ کر آواز دی۔ ''آپ کا شناختی کارڈ‘‘۔ ''کسی اور کا ہوگا‘‘ میں نے سوچا۔ پلٹ کر دیکھا تو اپنا ہی ۔ خدا کرے کہ گاڑی تک پہنچ سکیں ۔ ناکے پر ہجوم ۔ دہشت گردی ایک ایک زندگی سے خراج مانگتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ مولوی صاحبان کو عقلِ سلیم عطا کرے ۔
قلی سے کہا : بھائی ، یہ وہ گاڑی ہی نہیں ، وہ تو ریل کار ہے ۔ رسان سے اس نے جواب دیا ''وہی ہے‘‘ مگر وہ کشادہ سیٹیں او روہ کھلے ڈبے کیا ہوئے ؟ خدا خدا کر کے سیٹ تلاش کر لی گئی ۔ حیرت باقی رہی کہ چین کی بنی ، شور و شر سے پاک وہ ریل کار کیا ہوئی ؟ سموچی گاڑی کون نگل گیا؟ یہ نشست تو ایسی ہے کہ ٹیک تک لگائی نہیں جا سکتی ۔ چار گھنٹے کا طویل سفر کیسے طے ہوگا۔ 
آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نور جہاں کا مقبرہ تلاش کرنا شروع کیا۔ جب تک حواس ٹھکانے آتے ، شہرِ لاہور بہت پیچھے رہ گیا۔ خدا خیر کرے ، ابتدا ہی غلط ہوئی ۔ دوسری سیٹ چاہیے تھی کہ رخ شمال کی جانب ہوتا۔ ارے بھائی ، یہ کیا ہوا ؟ روشنی اس قدر تیزی سے کیوں پھیلنے لگی ؟ سورج قبل از وقت کیسے نکل آیا؟ اوہو، یہ انیس جنوری ہے ۔ 23دسمبر کو 27دن بیت گئے ۔ دن دراز ہونے لگے ۔ چلیے ، غنیمت ہے کہ کچھ دیرمیں کھیتوں کا سبزہ نظر نواز ہوگا ۔ کچھ دیر میں بے نیاز پیلی سرسوں کا جمال۔ 
اللہ کی زمین دلکش منظروں سے بھری پڑی ہے ۔ ندیاں اور دریا، برف سے ڈھکے پہاڑ ، آبشاریں اور چمن زار۔ برسات کے جوبن پر وسطی پنجاب کے میدان میں ہوا اپنا سب سے سہانا گیت دھان کے کھیتوں کے لیے گاتی ہے۔ مون سون کے بعد لہکتا ہو اسبزہ ہوا کے دوش پہ لہراتاہے تو دھرتی گیت گانے لگتی ہے ۔ اوائلِ سرما میں ہرے کچور کھیتوں کی مگر بات ہی دوسری ہے ۔ دور دور تک پھیلا ہوا سبزہ ، آنکھوں میں ٹھنڈک بن کر اترتا۔ پھر جی میں قرار بن کر ٹھہر جاتاہے ۔ دھرتی کا وہ رنگ کہ رگ رگ میں آسودگی بونے لگے ۔ 
''سبک رفتار‘‘ گاڑی پوٹھوہار میں داخل ہو گئی ۔ ستلج کے اتھلے اور جہلم کے نیلے پانیوں پر سے ہم گزر آئے مگر وہ کھیت کہاں ہیں ؟ اس سیٹ سے کیا دکھائی دے ؟ تو آج کا سفر رائیگاں ہوا ؟ آج کی زیارت بے ثمر؟ جیسے کوئی حجاز پہنچ کر بھی تشنہ رہے۔ چلیے یہی کیا کم ہے کہ صبح کی مہربان ہوا اٹھکیلیاں کرتی ہے ۔ دریائوں کے آر پار ساری دھرتی پر ابھی دھند کا راج ہے ۔ آفتاب جیسے مہتاب ہو گیا ۔ ڈھلوان میں گھوڑوں کاایک لشکر چرتا نظر آیا۔ صدیوں پہلے ایسے دلکش مناظر کتنے عام ہوں گے ۔ سائنسی ترقی نے عنایات کیں مگر کیا کچھ چھین لیا۔ خپلوسے آگے، چیری کے جنگلوں سے پرے، دریائے شیوک کے کنارے کا وہ منظر، جہاں ایک شہسوار صبحدم تنہا چلا جاتا تھا۔ زمین و آسمان سے بے نیاز ۔ یادیں ہجوم کرتی ہوئی آئیں۔ نواحِ طوس میں ، امام غزالیؒ کے مزار کی جستجو ، جہاں آج بھی ہر روز گھوڑوں کے لشکر ہریالی ڈھونڈتے ہیں۔ فردوسی کے سفید مزار کا فلک آسا گنبد اور فواروں کا خروش...مگر وہ سبزہ کہاں ہے ؟ 
گوجر خان سے کچھ پہلے ، وہ منظر کھلا۔ حدّنظر تک کھیت ہی کھیت ۔ سبزے کی وہ فراوانی اور شادابی کہ بالی بالی چوم لینے کوجی چاہے ۔ یارب ! کس قدر تو مہربان ہے ۔ ان کھیتوں کے قلب میں البیلی سرسوں کی کہانی کہتی خوش رنگ ردا۔ وہ خدائے واحد و یکتا جو تنوع میں جلوہ گر ہونا پسند کرتا ہے۔ درخت ، ندیاں ، دریا اور کھیت اپنے حسن پر کبھی نازاں نہیں ہو تے ۔ تخلیق کرنے والی فطرت کی طرح وہ بے نیاز اور منکسر ہوتے ہیں۔ ''کیوڑے کا درخت خوشبو لٹاتا ہے اور اسے خبر تک نہیں ہوتی‘‘۔ لبنان کے فلسفی خلیل جبران نے کیا کہا تھا۔ ورڈزورتھ نے کیاکہا تھا ؟ کچھ یاد نہ آسکا ۔ اقبالؔ نے کہا تھا : دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو۔ کوئٹہ کی وادی میں پھولوں سے لدے ایک محیط شجر کے تلے جنرل جنجوعہ بولے: سبکدوشی کے بعد ایک پہاڑ ، ایک کینوس اور اس پر منـظر کو دائمی کر لینے کی تمنا۔ کیسے کیسے خواب دیکھنے والے چلے گئے ۔ کیسے کیسے خواب دیکھنے والے جیتے ہیں ۔ نامور اور گمنام۔
سامنے کی نشست پر ایک ننھی سی بچّی ،بچّوں ایسی معصوم ایک دلہن اور اس کا ہم نفس ۔ آنسو پونچھے اور خود کو سنبھالا۔ یارب، ایسے میں آنکھیں بھرکیوں آتی ہیں ۔ ایک نا تمام زندگی کی شمار نہ ہونے والی حسرتیں ؟ نہیں ، بخدا یہ تو شکر گزاری کی ساعت ہے ۔ جس نے رچائو بویا اور گداز اگا دیا ہے ۔ زندگی کھیتوں میں ہے ، کھلی ہوائوں ، وادیوں اور کوہساروں کے دامن میں ۔ نہیں ، نہیں ، وہ ہر کہیں ہے ۔ اس دلہن کی شرمیلی نجابت، اس بچی کی دلآویز مسکراہٹ میں ۔ سرکارؐ نے ارشاد کیا تھا ، سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے ، جس قدر جلد ممکن ہو ، گھر لوٹ آیا کرو ۔ اپنا دیار آپہنچا۔دل اب ٹھکانے پر ہے ۔عافیت اور آسودگی گھر میں ہوتی ہے... یا شاید گمنامی میں ، تنہائی میں ، خاموشی میںیا شاید صحبتِ سعید میں ۔ ہاں رب العالمین او ررحمتہ اللعالمینؐ کی یاد میں۔
یا رب تو کریمی و رسولِ تو کریم 
صد شکر کہ ہستیم میانِ دو کریم 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں