پٹرول کا بحران تو انشاء اللہ جلد تمام ہو جائے گا‘ مگر نظم و نسق کا یکسر غلط انداز؟ خرابی اندازِ فکر میں ہے، جنابِ والا اندازِ فکر میں!
حضرت امام علی رضاؒ مامون الرشید کے ہاں پہنچے اور اسے بتایا کہ سلطنت کا حال کیا ہے۔ بھونچکا، وہ سنتا رہ گیا۔ امیرالمومنین کو علم ہی نہ تھا کہ خرابی ہے اور اس قدر زیادہ۔ سرکارؐ کے علم ہی نہیں، امامؒ ان کی حکمت کے جانشین بھی تھے۔ یہ تو نہیں فرمایا کہ ایسے میں جب سرحدوں پر بغاوتیں ہیں اور رعایا ابتلا میں، تم یہاں تفریح اور علمی مباحث میں مگن ہو۔ مورخ کہتے ہیں کہ صاف، سیدھی اور کھری بات انہوں نے کی۔ یہی ان کے شایانِ شان تھا۔ اطلاع اور تجزیہ ہی جب ناقص ہو تو اقدام کیسے درست، بھرپور اور مکمل ہو سکتا ہے۔ ابتدا میں اور اصلاً انحراف علمی ہوتا ہے۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے مامون کے گرامی قدر والد ہارون الرشید سے اسی پیرائے میں بات کی تھی۔ لوٹ کر عالی مرتبت استاد امام مالک بن دینارؒ کے پاس مدینہ منورہ گئے اور روداد کہی تو وہ شاد ہوئے۔ اس قدر شاد کہ گھر میں جس قدر درہم و دینار اور سواری کے جتنے جانور تھے، سب اپنے شاگرد کی نذر کیے۔ کیوں نہ کرتے۔ امامؒ وہ تھے کہ سرکارؐ کے احترام میں مدینہ کی گلیوں میں ننگے پائوں چلتے۔ اللہ جانے، کہاں انؐ کا قدم پڑا ہو۔
حکمران ایک ہوتا ہے مگر دوسروں پر بھی انحصار ہوا کرتا ہے۔ سلطنت کے اہم لوگوں پر، معاشرے کی اخلاقی حالت پر۔ دو صدیوں کے بعد الپ ارسلان کے جانشین ملک شاہ نے امام غزالیؒ کو طوس سے بغداد آنے کی دعوت دی۔ فارسی زبان میں لکھا گیا، اس کا خط تاریخ نے محفوظ رکھا ہے۔ نو عدد القاب مکتوب کے سرنامے پر لکھے گئے۔ امام، یگانہء جہاں اور انگشت نمائے عالم۔ امرا اور جنرلوں نے تائیدی دستخط ثبت کیے۔ التجا کی گئی کہ دارالحکومت تشریف لائیں۔
امام ؒ دربار میں داخل ہوئے تو جیسا کہ مسلمان بادشاہوں کا دستور تھا، ملک شاہ نے سوال کیا ''مسلمانوں کا حال کیا ہے؟‘‘ فرمایا ''ان کی گردنیں اس طرح ٹوٹ رہی ہیں، جس طرح تیرے گھوڑوں کی گردنیں سنہری لگاموں کے بوجھ سے‘‘۔ دربار میں سنّاٹا تھا۔ درخواست کی گئی کہ مدرسہء نظامیہ کی سربراہی قبول فرمائیں، جو کبھی ان کے وجود سے منوّر تھا۔ فرمایا: دربار میں حاضر ہونا پڑے گا اور اب (کہ زندگی کا ڈھب بدل چکا) میں ایسا نہیں کر سکتا۔ پھر یہ کہ طوس کے غریب بچوں کو کون پڑھائے گا؟ یہ ارشاد نہ کیا کہ تصنیف و تالیف کے لیے میرے پاس وقت نہ رہے گا، جن کے بل پر اسلام کا پرچم سرفراز ہے۔ یونانی فلسفے کا پرچار کرنے والوں سے نمٹا جا رہا ہے ۔
پوری، سچی اور کھری حقیقت‘ جان لینے کی ضرورت حکمران کو زیادہ ہوتی ہے۔ عمر فاروقِ اعظمؓ ہر صوبے سے دس آدمیوں کا ایک وفد مدعو کیا کرتے۔ شکایات سنی جاتیں اور احکامات صادر ہوتے۔
قائد اعظمؒ نے ارشاد کیا تھا: صحافت اگر درست خطوط پر ہو تو قوم کی رہنمائی بھی کر سکتی ہے۔ اسی نادرِ روزگار ہستی کے بارے میں ترقی پسندوں، ملحدوں اور ملّائوں کی مہم پون صدی سے جاری ہے، جب اقبالؔ کی تائید کے بعد وہ بروئے کار آئے۔ گذشتہ تین صدیوں کی جدید سیاست نے محمد علی سے بڑا آدمی نہیں دیکھا۔ پانچ اوصاف ان کے ایسے ہیں کہ کسی اور لیڈر میں دکھائی نہ دیے۔ کبھی جھوٹ نہ بولا، وعدہ شکنی کے کبھی مرتکب نہ ہوئے۔ ثالثاً امانت داری ان کی مسلّم تھی، چہارم کبھی غیبت نہ کرتے، سنتے بھی نہیں تھے۔ سرکارؐ کا ارشاد ہے کہ صفائی ایمان کی شرط ہے۔ محمد علی صفائی کے اعلیٰ ترین معیار پر تھے۔ گھر اجلا، دفتر اجلا اور لباس اجلا۔ خیالات تو تھے ہی پاکیزہ۔
جب محمد علی یہ کہتے ہیں کہ صحافت قوم کی رہنمائی کر سکتی ہے تو کسی کو شک نہ ہونا چاہیے۔ ایک ایک لفظ وہ سوچ سمجھ کر کہتے اور تول کر بولتے تھے۔ خود پر تنقید کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے۔ ممبئی کے پارسی اخبار نویس ''کراکا‘‘ مسلسل ان کے خلا ف لکھا کرتے۔ ایک شب کھانے پر مدعو کیا۔ تبادلہء خیال کیا۔ تنقیدی تحریروں کا فقط گزراں سا حوالہ دیا۔ کہا: میں جانتا ہوں کہ تم کسی کے اکسانے یا کسی مفاد سے مجھ پر تنقید نہیں کرتے۔ یہ بات اس نے اپنی خود نوشت "Then Comes Hazrat Ali" میں لکھی ہے۔ خواب میں آپؓ کو دیکھا اور مسلمان ہو گیا تھا۔
وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کے خیر خواہوں کو انہیں بتانا چاہیے کہ جس پر ذمہ داری ہو، تنقید اسے گوارا کرنی چاہیے۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے ''وامرھم شوریٰ بینہم‘‘ا ن کے معاملات باہم مشورے سے طے پاتے ہیں۔ مولانا شبیر احمد عثمانی سمیت، قائد اعظم بعض علما سے بھی مشورہ کیا کرتے۔ وکلا اور نوجوانوں سے زیادہ۔ وکلا کا رابطہ عام لوگوں سے پیہم ہوتا ہے اور طلبہ مصلحت کوش نہیں ہوتے۔ پنجاب مسلم لیگ کے جواں سال اور پُرجوش جوائنٹ سیکرٹری عاشق بٹالوی، لیاقت علی خان پر بگڑے تو لیگ کے اجلاس میں تادیر انہیں اظہارِ خیال کا موقعہ دیا۔ میاں شہباز شریف کے بقول ان کے برادرِ بزرگ کا اصرار یہ رہتا ہے کہ اگر اختلاف لازم ہو تو برسرِ بزم نہ کیا جائے۔ تنقید اگر ضروری ہو تو تنہائی میں بات کی جائے۔ اس قدر نازک مزاجی کے ساتھ کاروبارِ حکومت کیسے چلے؟
پٹرول کے بحران کی اگر انہیں خبر نہیں تھی تو یہ حیرت انگیز ہے۔ ان کے پرنسپل سیکرٹری صاحب کیا کرتے ہیں؟ اپنے وزرا سے جناب وزیرِ اعظم کا رابطہ اس قدر کمزور کیوں ہے؟ پٹرول ایسے نازک معاملات پر بھی نگرانی اگر اس قدر ناقص ہے تو باقی محکموں اور وزارتوں کا حال کیا ہو گا؟ دشمن کے لیے حالات آج سازگار نہیں کہ خطے میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے دنیا پاکستان کی مددگار ہے وگرنہ ایسے میں دشمن اگر حملہ آور ہو جاتا؟ معلوم ہوا کہ کاروبار حکومت نہایت غلط انداز میں چلایا جا رہا ہے۔ ''اوگرا‘‘ کے جن سیکرٹری صاحب کو سرکاری کمیٹی نے ذمہ دار قرار دیا ہے، وہ غیر ذہین ہرگز نہیں مگر امانت و دیانت کے حوالے سے ان کی شہرت کیا ہے؟ وزیرِ اعظم خوب جانتے ہیں۔ پندرہ بیس ارب ڈالر کی درآمد ایسے آدمی کے سپرد کیسے کی جا سکتی ہے؟ شاہد خاقان عباسی بھلے آدم ہیں مگر اس قدر بے نیازی اور اس قدر لاپرواہی؟ کہا: اگر میں ذمہ دار ٹھہرایا جائوں تو مستعفی ہو جائوں گا۔ ارے بھائی، اس قدر ذمہ دار تو آپ بہرحال ہیں کہ آپ کو واویلا کرنا چاہیے تھا۔ وزیرِ خزانہ کے دروازے پر بار بار دستک دی ہوتی کہ پی ایس او کو ادائیگی کی جائے۔ خواجہ آصف نے خود کہا کہ ان کی وزارت سمیت پوری حکومت 200 ارب روپے کی نادہندہ تھی۔ بار بار خط لکھے گئے کہ بینکوں کا اعتبار ختم ہو گیا۔ رہے وزیرِ خزانہ تو ادائیگی میں تاخیر کے وہ براہِ راست ذمہ دار ہیں۔ ماہرِ معاشیات کی بجائے، جب ایک اکائونٹنٹ کو عنان سونپی جائے گی تو نتیجہ یہی ہوگا۔ کیسی جسارت کے ساتھ قوم کو انہوں نے بتایا کہ وہ قصوروار نہیں۔ ذمہ دار تو خود وزیرِ اعظم بھی ہیں۔ ملک اگر دہشت گردی کا شکار نہ ہوتا تو ان سے استعفے کا مطالبہ روا ہوتا۔ حالتِ جنگ میں گھوڑے نہیں بدلے جاتے؛ اگرچہ دانا ہوتے تو خود ہی قومی حکومت تشکیل دینے پر آمادہ ہو جاتے۔
سول سروس تباہ ہو چکی۔ 313 افسر یحییٰ خان نے نکالے، 1300 قائدِ عوام، فخرِ ایشیا ذوالفقار علی بھٹو نے اور ارشاد یہ کیا "God willing and Waqar living, I'll sortout the bureaucracy" (اللہ کا فضل شاملِ حال اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ وقار احمد جیتا رہا تو افسر شاہی سے میں نمٹ لوں گا)۔
قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے مدتوں بعد ڈھنگ کی ایک بات کہی ہے۔ معاملے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنایا جائے۔ بنے گا نہیں کہ وزیرِ اعظم یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے۔
ملک اس طرح نہیں چلا کرتے۔ اس طرح کے من مانے انداز میں تو ایک چھوٹا سا کاروبار بھی چل نہیں سکتا۔ اگر یہ راز وزیرِ اعظم اور ان کے رفقا پر آشکار نہیں تو جلد ہو جائے گا۔ پٹرول کا بحران تو انشاء اللہ جلد ختم ہو جائے گا مگر نظم و نسق کا یکسر غلط انداز؟ خرابی اندازِ فکر میں ہے، جنابِ والا اندازِ فکر میں!