"HRC" (space) message & send to 7575

بنیاد

نہیں‘ بخدا آدمی انصاف نہیں کرتے ۔ عدل اللہ ہی کرتاہے۔ 
جنرل کیانی کے لیے دل دکھتا ہے۔ میڈیا کی چیخ و پکار میں سچائی دھندلا جاتی ہے۔ لوگ ہوا کے ساتھ بہتے ہیں۔ وہ ایک عجیب آدمی ہے۔ پوری زندگی صبر سے بِتا دی۔ 
لوگ بھی عجیب ہیں، جنرل راحیل شریف کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے ہنگام اس شخص کوبھول ہی گئے، افغانستان اور مسلّح افواج کے لیے جس نے عصرِ رواں کی بنیاد رکھی۔ بلال الرشید نے یاد دلایا: مشرف اقتدار کے آخری ایام میں فوجی افسر وردی میں بازار نہ جا سکتے۔ کس جہالت اور جسارت کے ساتھ جنرل کیانی کی نفی کی جاتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف آج قومی اتفاقِ رائے پیدا ہوا او رجنرل راحیل شریف بجا طور پر داد کے مستحق ٹھہرے۔ مگر یہ کیا اندازِ فکر ہے کہ نیا زمانہ گویا نئے سپہ سالار کے طفیل پیدا ہوا ہے۔ اکثر کی ریت یہی ہے کہ جانے والوں کی یاد، آنے والوں کی چاہت میں گم ہو جاتی ہے۔ زمانے کے افق پر ابھرتے نئے دلاوروں کے لوگ مشتاق ہوں تو قابل فہم‘ مگر یہ کیا کہ گل کھلیں تو بوٹے سینچنے والوں کو فراموش کر دیاجائے۔ ہمارا آج اور آنے والا کل گزرے ہوئے کل سے پھوٹتا ہے۔ 
خدا مہربان ہے۔ اس کا قانون یہ ہے کہ جن کا عمل سچا ہو ، تاریخ ان کی تحسین کرتی ہے۔ جنرل حمید گل نے کہاتھا: آخری قہقہہ غلام اسحق خان لگائیں گے۔ ہاں‘ ان کا نام اب احترام سے لیا جاتاہے ۔ شریف خاندان کا عہد تمام ہوچکے تو ماضی کے کھنڈرات سے ان کی یاد با اندازِ دگر اٹھے گی۔ 
خدا قادر و عادل ہے ۔ زمانہ ایسے آدمی کے سوز سے فارغ کیسے ہو سکتاہے۔ نہیں، کردار کے اِس حسن اور استقلال کا قرض پاک فوج کے ہر فرزند کی گردن پر ہے۔ ابھی تو جنرل راحیل 
شریف غیر معمولی تلاطم میں اپنی کشتی کھے رہے ہیں۔ فرصت پا چکیں تو جنرل کیانی کے کردار کا ثبات انہیں یاد آئے گا۔ یاد ہے کہ سبکدوش ہوئے تو پاک فوج کے لیے حکمتِ عملی او رترجیحات کی تشکیل کے علاوہ تنظیمِ نو کے لیے نکات لکھاکرتے۔ ہمہ وقت غور و فکرکرنے والا آدمی ، جس کے بارے میں درویش نے کہاتھا: مزدور کی طرح مشقت کرنے والا شخص۔ جنرل موسیٰ ہو گزرے ہیں اور جنرل ٹکا خان بھی۔ وہی کیا، سیاچن، سوات اور وزیرستان میں دادِ شجاعت دینے والوں سمیت ، کتنے ہی جانباز اس سپاہ نے جیے ہیں۔ کیانی کی مگر بات ہی دوسری ہے۔ مشفق و مہربان، اپنے ماتحتوں اور بچوں کے ساتھ۔ 
ہر کوئی بلبلاتاہے ۔ ہر کوئی شکایت کرتاہے ۔ بعض کی روش غیبت ہے، بعض کی بدلہ۔ جنرل کیانی کو دیکھا کہ خاموش رہتے ہیں ۔ جس جنرل کو اس کے گنوار پن اور مشکوک طرزِ عمل کے باوجود سبکدوش کرنے سے انہوں نے گریز کیا، موقعہ ملا تو اس نے ان کی مذمت کی ۔ کم نام کرنا چاہا۔ میں ان سے ملنے گیا تو بولے: فوجی نظام کو آپ تو خوب سمجھتے ہیں ۔ جوبات میرے بارے میں انہوں نے کہی، وہ درست نہیں ۔ ایک لفظ بھی ان کی شخصیت کے بارے میں نہ کہا۔ کوئی اور ہوتا تو بخیے ادھیڑ کر رکھ دیتا۔ جنرل شاہد عزیز کی کتاب پڑھیے ، ذاتی مخالفین تو الگ، اپنے نا پسندیدہ کرداروں کے باب میں بے لگام ۔ گزری ہوئی ہر ساعت میں خود کو پارسا بتایا یا مجبور۔ جنرل پرویز مشرف ہر ہم عصر کے بارے میں دھڑلے سے بات کرتے ہیں ۔ جنرل کیانی نے مگر جنرل عبد الوحید کاکڑ کی 
طرح خاموشی کو شعار کیا۔ جنرل کاکڑ! خدا کی پناہ ،کس دل و جگر کا آدمی ہے ۔ برگد کی طرح بے نیاز۔ جنرل کیانی کی مثالی شخصیت وہی ہیں ۔ تحسین تو لوگ کیا خاک کریں، اپنے دلاوروں کو پہنچاتے ہی نہیں ۔ میجر نادر پرویز ایسے باوفا اور جری آدمی کو میاں محمد نواز شریف نے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینے سے معذرت کر لی۔ ''مجبوری ہے میجر صاحب‘‘ ارشاد کیا۔ ناراضی یہ تھی کہ خاندانی تقریب میں جنرل مشرف کو مدعو کیا ۔ میجر سے میں نے پوچھا تو بولے: پرانا رفیق تھا بھائی اور تقریب غیرسیاسی ۔
کوئی دن ادھر‘ درویش نے جنرل کیانی سے کہا: آپ تو صوفی ہو گئے ، واقعی صوفی۔ 15فروری کو دنیا بھر سے میرے احباب جمع ہوں گے۔ آپ کو زحمت دیتا مگر وہی سکیورٹی کا سوال۔ پھر بے تکلفی کے ساتھ کہا: کچھ لکھا کیجیے ۔ اخبار میں ایک آدھ مضمون ہی سہی ۔ میں نے سوچا: سوال ہی نہیں ۔ خودنوشت لکھنے پر میں نے انہیں آمادہ کر لیا تھا لیکن پھر چپ رہنے کا فیصلہ کیا۔ غلام اسحٰق خان کم ہی کسی کی سنا کرتے۔ اس ناچیز کو ہر بار گوارا کیا۔ اپنی داستان لکھنے پر وہ قائل ہو گئے لیکن پھر یہ کہا: زندگی کی ساری صداقتیں اوراق پر رقم ہیں ۔ کتابوں سے کون عبرت حاصل کرتا ہے۔ حکمت یار کی کہانی میں نے خود لکھنا شروع کی۔ تین دن طویل انٹرویو کیالیکن پھر انہیں کابل جانا پڑا۔ جنگ کے جنگل میں گم ہو گئے ۔ وہاں سے ایران ۔ 2002ء میں امریکیوں نے ایران پر دبائو ڈالا تو ایک تاریک شب کی خاموشی میں زندگی دائو پر لگا کر واپس وطن چلے گئے۔ دو راتیں کسی ایک مقام پہ نہیں ٹھہرتے۔ یہی غنیمت ہے کہ جیتے ہیں ؎
اس شہرِ خرابی میں غمِ عشق کے مارے 
زندہ ہیں، یہی بات بڑی بات ہے پیارے 
ڈاکٹر سڈل کے سوا کسی نے مان کر نہ دیا۔ وہ اپنے مشاہدات البتہ لکھ رہے ہیں ۔ 
کوئی مجھ سے کہتاہے ، اپنے تجربات اور ان زعما کی داستان لکھو، جن سے ذاتی طور پر واسطہ رہا۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی ، غلام اسحٰق خان ، حکمت یار ، حزب المجاہدین کے محمد صلاح الدین ، جنرل کیانی ، عمران خان ، ڈاکٹر سڈل ۔ اپنے آپ سے پوچھتا ہوں تو آواز آتی ہے : خونِ دل میں انگلیاں ڈبو سکتے ہو‘ تو ضرور لکھو۔ صد شکر کہ صحبتِ سعید میسر ہے۔ صد شکر کہ دیدۂ تر میں شبنم باقی ہے‘ صد شکر کہ صحت اچھی ہے۔ لیکن ایک ہفتے میں پانچ دن ٹی وی پروگرام کرنے اور پانچ کالم لکھنے کے بعد وقت کہاں سے لائوں۔ 
جنرل کیانی کی روداد البتہ بے چین کرتی ہے ۔ کمبائنڈ ملٹری ہسپتال راولپنڈی گیا۔ایک وسیع و عریض فلک آسا عمارت زیرِ تعمیر پائی۔ جنرل صلاح الدین نے بتایا کہ جنرل کیانی نے بنا رکھی تھی۔ کوئٹہ جانا ہوا ۔ ایک بے حد وسیع اور شاندار میڈیکل کالج۔ معلوم ہوا کہ ایک کہنہ فوجی بیرک تھی ، جنرل نے اسے سول ادارے میں ڈھال دیا۔ گوجر خان میں ایک پوسٹ گریجویٹ کالج کی تجویز پیش ہوئی ۔ فوج کی اٹھارہ کنال زمین انہوں نے حکومت کے سپرد کی اور میاں شہباز شریف کو فون کیا۔ درویش نے کہا: معاف کیجیے گا، جنرل صاحب، خادمِ پنجاب کی ترجیح تعلیم نہیں۔ آج تک وہاں خاک اڑتی ہے‘ جس طرح ہر سیاسی لیڈر کے دل میں۔ اور سروں میں تو آپ جانتے ہیں‘ اکثر بھوسہ بھرا ہے۔ تعلیم جنرل کیانی کی ترجیح تھی اور دیر پا منصوبے ۔ بلوچستان کے 20ہزار جوان فوج میں بھرتی کیے ۔ جنرل جنجوعہ کہتے ہیں : ایک نیا بلوچستان جنم لے رہا ہے۔ بے شک۔ آج کی قیادت نے قابل تحسین ریاضت کی‘ مگر بنیاد کس نے رکھی تھی؟ 
بھارت افغانستان میں در آیا تھا۔ اس کے رگ و پے میں رواں تھا۔ بخدا ، جنرل کیانی تھے، امریکیوں کو جنہوں نے قائل کیا کہ وہ خرابی کا باعث ہے ، اصلاح کا نہیں ۔ اس کا کردار زیادہ رہا تو اس خطۂ ارض کو امن کبھی نصیب نہ ہوگا۔ یہ سالہا سال کی ریاضت تھی۔ تحسین جنرل راحیل شریف کے نام لکھی تھی اور صدر اشرف غنی کے ۔ وہ حقدا ربھی ہیں۔ جنرل کیانی کے بغیر یہ معجزہ مگر کبھی نہ ہوتا۔ مشفق ، وسیع الظرف ، صابر و شاکر۔ حد یہ ہے کہ عمران خان، صدر زرداری اور نواز شریف سمیت ہر لیڈر کا طعنہ سنا ، میڈیا کی یلغا ر کا سامنا کیا مگر جواب شاذ ہی دیا۔ سازش تو کیا‘ غیبت تک سے گریز کیا۔ کیا قوم اپنے محسن کو بھلا دے گی۔ 
ایک طویل ذاتی تجربہ اس کے سوا ہے۔ کتنی بار میں اس آدمی سے بگڑا، کتنی بار تنگ کیا۔ دو ایک بار ہی شکایت کی اور وہ بھی دھیمے لہجے میں ۔ کبھی ہیجان کا شکار نہ ہونے والا قابلِ اعتماد دوست۔ مطالعے میں انہماک ، دلیل سے محبت۔ ایسے آدمی سے بے دردی کون روا رکھ سکتاہے ۔ 
نہیں، بخدا آدمی انصاف نہیں کرتے ۔ عدل اللہ ہی کرتاہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں