"HRC" (space) message & send to 7575

ہم نے قاتل کئی دیکھے ہیں‘ تمہارے جیسے

چپ رہنے کا جنرل کیانی نے تہیہ کر رکھا ہے وگرنہ جنرل مشرف سے شاید وہ یہ کہتے ؎ 
سخت جاں ہم سا کوئی تم نے نہ دیکھا ہو گا 
ہم نے قاتل کئی دیکھے ہیں، تمہارے جیسے 
اس آدمی کا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے‘ اپنا دفاع کرنے سے جو انکار کر دے۔ خود کو خدا کے حوالے کر دے۔ جنرل کیانی کے خود ساختہ حریف اور حاسد‘ مغالطے کا وہ شکار ہیں کہ ان کا تاثر وہ خراب کر سکتے ہیں۔ جب وہ کسی کا دشمن اور بدخواہ ہی نہیں تو اسے اندیشہ کیا۔ امام عالی مقام‘ سیدنا حسینؓ ابن علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا تھا: اس شخص سے کبھی نہ لڑنا‘ اللہ کے سوا‘ جس کا کوئی نہ ہو۔ 
سولہ برس ہوتے ہیں‘ سرما کی بارش۔ ایئرپورٹ چوک پر کانسٹیبل نے ٹیکسی کا راستہ روکا۔ استفسار کے لیے اس کے قریب گئے۔ پولیس والا آگے بڑھا اور ٹیکسی ڈرائیور کو تھپڑ جڑ دیا۔ مشتعل مسافر باہر آیا اور پنڈ نہ چھوڑا‘ جب تک اس نے معافی نہ مانگ لی۔ یا للعجب‘ اگلے نو کلومیٹر تک سڑک خالی پڑی تھی۔ غصّہ ابھی باقی تھا۔ اس سے کہا: عجیب آدمی ہو‘ تم نے احتجاج کیوں نہ کیا؟ سرکاری کارندے اسی طرح بگڑتے ہیں۔ ڈیوٹی کے بعد رزق حلال کے لیے ریاضت کرنے والا جی ایچ کیو کا وہ اہل کار ایک عجیب آدمی تھا۔ بولا: ''صبر ہم نے اختیار کیا اور معاملہ مالک کے سپرد کر رکھا ہے‘‘۔ ''تم خود اپنی عزت کا خیال نہ رکھو تو وہ تمہارا بدلہ کیوں لے گا؟‘‘ ناراضی سے میں نے پوچھا۔ ''کیا اس نے بدلہ لیا نہیں؟ کیا اسے مجھ سے معافی نہ مانگنا پڑی؟‘‘ رسان سے اس نے کہا۔ 
سرما کی اِس شام کو وہ مجھے یاد آیا۔ سالہا سال میں ان سے ملتا رہا۔ جنرل صاحب صبر کا جب ارادہ کر لیتے ہیں تو پہاڑ کی طرح ڈٹ جاتے ہیں۔ کوہسار سے الجھ کر کوئی کیا پائے گا؟ شاعر نے تو سپنا ہی دیکھا۔ کچھ کر دکھانے والے بھی ہوتے ہیں ؎ 
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم‘ جو چلے تو جاں سے گزر گئے 
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا 
شریف حکومت کے تقابل میں جنرل مشرف کا عہد اب اجاگر ہو رہا ہے‘ خامیاں بھی خوبیاں بھی۔ تاریخ سب کھرا کھوٹا الگ کر دیتی ہے۔ ان کی آوارہ خیالی‘ ان کے عہد کا معاشی استحکام‘ ان کی عرق ریزی اور عیش کوشی۔ آج ہمارا واسطہ ایک ایسے حکمران سے ہے‘ 20 کروڑ انسانوں کے ایک انتہائی اہم ملک کو‘ جس نے حالات کے حوالے کر دیا ہے۔ زرداری صاحب سے سمجھوتہ کہ جو کچھ بھی انہوں نے کیا اور جو بھی کریں گے‘ کبھی قانون کا اطلاق ان پر نہ ہو گا۔ ایم کیو ایم سے مفاہمت کہ گورنر انہی کا رہے گا۔ اقتدار میں مولانا فضل الرحمن ایسے شخص کا حصّہ اور معیشت اکائونٹنٹ اسحق ڈار کے حوالے۔ گیس‘ پٹرول اور بجلی‘ ایک کے بعد دوسرا قحط۔ اور بھی بحران ابھی آئیں گے۔ پتوار ڈال دیئے جائیں تو کشتی منزل کا رخ کبھی نہیں کیا کرتی۔ طوفانی سمندر میں ملاح تفریح میں مگن ہے۔ 
ایک ارب آبادی کے ساتھ‘ بھارت کی چھ سات فیصد سالانہ شرح ترقی۔ چین نے یہی کیا تھا۔ 2006ء سے جاپان کی بجائے‘ وہ دوسری بڑی معیشت ہے اور ہدف یہ مقرر کیا کہ چھ سال میں اپنی معیشت کا حجم جاپان سے وہ دوگنا کریں گے۔ یہاں پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے مدّعی کیا کر رہے ہیں؟ چار فیصد شرح ترقی۔ اعتبار اس پر بھی نہیں کہ ڈار صاحب اعدادوشمار میں ہیرا پھیری کو عیب نہیں سمجھتے۔ پورے خلوص سے یہ کارِ خیر کر ڈالتے ہیں۔ معیشت کی جنگ میں ملک پسپا ہے۔ اس دشمن کے مقابلے میں جس نے پاکستان کو تباہ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ اس طرح کام نہ چلے گا۔ بساط ایک دن الٹ دی جائے گی۔ مخالفین نہیں‘ میاں صاحب خود اس کا سامان کریں گے۔ ملک کی معیشت نہ بچی تو اس کا دفاع کس طرح ممکن ہو گا؟ عالم یہ ہو گیا کہ پٹرول اور بجلی کا بحران پیدا ہوا تو برادر خورد شہباز شریف‘ چودھری نثار علی خان اور سعد رفیق تک نے دفاع کرنے سے انکار کر دیا۔ 
کئی اعتبار سے جنرل پرویز مشرف کا دور ان سے بہتر تھا۔ شرح ترقی 6 سے 7 فیصد‘ سالانہ دس لاکھ ملازمتیں۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے بعد یہ پہلا زمانہ تھا‘ غربت جب کم ہوئی۔ اپنی قوم کی تہذیب و تمدن‘ روایات اور تاریخ سے نابلد‘ حماقتیں بھی جنرل نے پہاڑ ایسی کیں۔ ملک کو ملاّئوں اور این جی اوز کی چراگاہ بنا دیا۔ باایں ہمہ اس جعلی جمہوریت سے ان کا دور بہتر تھا۔ خرابیاں سب کی سب ہیں‘ اب کرپشن اس کے سوا اور حاکم وقت تاریخ کے چوراہے پر محوِ خواب۔ اپنی ذاتِ گرامی سے عالی جناب کو فرصت ہی نہیں۔ 
جنرل مشرف بھی خود نمائی کے آدمی ہیں۔ کیسی عجیب بات انہوں نے کہی۔ وزیرستان میں آپریشن جلد کرنا چاہیے تھا‘ جنرل کیانی نے تاخیر کر دی۔ ثانیاً 2009ء میں سیاسی پارٹیوں کے مقابلے میں جنرل کیانی کو ان کی مدد کرنی چاہیے تھی۔ 
تراسی فیصد عوامی تائید کے ساتھ عدلیہ بحالی کی تحریک برپا تھی۔ وردی پہن کر فوجی افسر بازار نہ جا سکتے۔ ایسے میں منتخب سیاسی قیادت کے مقابل‘ کیانی ان کی مدد کیسے کرتے؟ سیاست کی اپنی حرکیات ہیں۔ وقت کا دھارا جب کسی سمت میں بہتا ہے تو ان کے مقابل کھڑے ہونے والے احمق نہیں پاگل ہوتے ہیں۔ لوحِ زماں سے جن کا نقش ہی مٹا دیا جاتا ہے۔ متحدہ مجلس عمل سے اتحاد‘ مولوی فضل اللہ ایسے عفریت جنرل مشرف کے دور میں پلے۔ بالکل وہ غلط کہتے ہیں کہ اس شخص کو 2007ء میں انہوں نے نمٹا دیا تھا۔ نمٹانا کیا معنی‘ اسے گرفتار کیا ہوتا‘ پھانسی چڑھا دیا ہوتا۔ آرمی پبلک سکول پشاور کے بچے ہی نہیں‘ ہزاروں دوسرے معصوم شہری بچ رہتے۔ اس قاتل کی وجہ سے ملک کو کم از کم دس بلین ڈالر کا نقصان الگ پہنچا۔ 
سوات میں فوجی کارروائی کس نے کی؟ جنوبی وزیرستان سمیت‘ چھ سات قبائلی ایجنسیوں میں بھی۔ تاریخ میں جنرل کیانی کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ تین ماہ میں سوات کی بیس لاکھ آبادی واپس چلی گئی۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن بے شک کامیاب ہے مگر کتنے ماہ بیت گئے؟ پھر اس میں بھی ان کی مدد شامل ہے کہ منصوبہ انہی کے دور میں بنا۔ 
حالات کا فرق ہوتا ہے‘ حضور والا حالات کا۔ شمالی وزیرستان میں جنرل کیانی آپریشن کیسے کرتے۔ سلالہ کی چوٹی پر امریکیوں نے گولہ باری کی تھی۔ ایبٹ آباد آپریشن کر کے ساری دنیا میں پاکستان کو رسوا کیا تھا۔ امریکی جنرل پاکستانی سپاہ کو بلیک میل کرنے پر تلے تھے۔ سیاسی حمایت ندارد۔ حال یہ تھا کہ ملالہ یوسف زئی پر حملہ ہوا تو سوشل میڈیا میں اکثریت نے اسے ڈرامہ کہا۔ ایسے میں آپریشن کس طرح ممکن تھا؟ میاں محمد نواز شریف نے الیکشن جیتا تو حالات قدرے سازگار ہوئے۔ جنرل کیانی ان کی خدمت میں حاضر ہوئے آپریشن کی اجازت مانگی۔ آنجناب نے فرمایا کہ وہ مذاکرات کرنا پسند کریں گے۔ زروجواہر کے انبار پر بیٹھا ہوا متامّل اور خوف زدہ لیڈر۔ جواب میں جنرل نے کہا: بات چیت سے امن حاصل ہو جائے تو اور کیا چاہیے۔ تین مشورے بھی دیئے۔ مذاکرات آئین کی حدود میں ہونے چاہئیں‘ مدت مقرر کی جائے تو بہتر ہے۔ ان کے حامی مولوی صاحبان کو شریک نہ کیجیے گا کہ وہ مکالمہ ہائی جیک کر لیں گے۔ ایک کے سوا دونوں مشوروں کے برعکس فیصلہ کیا۔ مولانا سمیع الحق اس قدر بے قابو تھے کہ کمیٹی پر ایک رکن خود ہی مسلط کر دیا۔ تحریک انصاف کے حامی نے ایک حیران کن تجویز دی کہ دہشت گردوں کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کی جائے۔ طالبان کا طرز عمل یہ تھا کہ پشاور کے چرچ میں 155 معصوم شہری بموں سے اڑا دیئے۔ جنرل ثناء اللہ نیازی اور 13 دوسرے فوجی افسروں اور جوانوں کو شہید کیا۔ کیانی کیا کرتے؟ 
اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ جنرل سے بارہا ملاقات ہوئی۔ اپنے بدترین ناقدین‘ اپنے حاسدین کے خلاف بھی وہ بات نہیں کرتے۔ ایک لفظ بھی نہیں۔ ایسے آدمی کے بارے میں اس بے رحمی سے اظہار خیال؟ چپ رہنے کا جنرل کیانی نے تہیہ کر رکھا ہے وگرنہ جنرل مشرف سے شاید وہ یہ کہتے ؎ 
سخت جاں ہم سا کوئی تم نے نہ دیکھا ہو گا 
ہم نے قاتل کئی دیکھے ہیں، تمہارے جیسے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں