"HRC" (space) message & send to 7575

’’بری ہے ڈرائے گیوں کی صبح‘‘

دوسروں کے لیے جو گڑھا کھودتا ہے ، وہ خود اس میں گرتا ہے ۔ دوسروں کی توہین کرنے و الا خود اپنی توہین کو دعوت دیتاہے ۔ کیسے یہ لیڈر ہیں ، جو اتنی سی بات نہیں جانتے ؟
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کس لیے بلایا گیا تھا؟ ظاہر ہے کہ سعودی عرب کی امداد کے لیے اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی غرض سے ۔ خواجہ محمد آصف کے آتشیں خطاب سے اس بنیادی مقصد کے حصول میں کتنی مدد ملے گی ؟ رہی سہی کسر ایوانِ وزیرِ اعظم کے اس وضاحتی بیان سے پوری ہو گئی کہ وزیرِ دفاع کے بیان کا انہوںنے قطعاً کوئی نوٹس نہیں لیا ۔ میاں صاحب کو قطعاً کوئی اعتراض نہیں ۔
قرآنِ مجید ایک بڑھیا کا ذکر کر تاہے ، جس نے سوت‘ کاتا اور خود ہی ادھیڑ ڈالا ۔ سرکاری پارٹی کے اس کارنامے پر سب سے زیادہ پریشانی خود سعودی عرب کو ہوئی ہوگی ۔ سعودی حکمرانوں نے خود بھی پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ امیر جماعتِ اسلامی سراج الحق چند ہفتے قبل حجازِ مقدّس تشریف لے گئے تو ممتاز سرکاری شخصیات نے ان سے ملاقاتیں کیں ۔ صدر زرداری نے ایک بار سخت ردّعمل ظاہر کرنے کے بعد، سعودی عرب کی حمایت میں جو بیان جاری کیا، اس کے بھی اسباب ہیں ۔
دانا آدمی وہ ہوتاہے ،جو اپنی اوّلین ترجیح پہ نگاہ رکھتاہے ۔ خواجہ آصف کے خطاب کے بعد یمن کا مسئلہ پسِ منظر میں چلا گیا۔ ایم کیو ایم کا طرزِ عمل تو سمجھ میں آتا ہے ۔ حلقہ این اے 246کا الیکشن ۔ اے این پی اور مولانا فضل الرحمٰن پختون خوا میں کپتان کے شکست خوردہ ہیں۔ نون لیگ کی حکومت نے قوم اور سیاسی جماعتوں کو کیا پیغام دیا ؟ یہ کہ اگر اس کی شان میں گستاخی کی جائے تو ایسا کرنے والوں کو مزا چکھایا جائے گا؟
اتنا تھوڑا علم ، اتنا معمولی سا ظرف اور اس قدر اضطراب کہ اپنے آپ پر کبھی قابو ہی نہ رہے۔ ''بری ہے ڈرائے گیوں کی صبح‘‘ ابھی کل کی بات ہے کہ ایک عدد معافی نامہ لکھ کر ، یہ پیمان کر کے کہ دس سال تک سیاست میں وہ حصہ نہ لیں گے ، شریف خاندان نے سعودی عرب میں پناہ پائی تھی ۔ ساتھیوں کی اکثریت نے انہیں چھوڑ دیا تھا۔ 2002ء میں قاف لیگ نے پنجاب میں انہیں عبرتناک شکست سے دوچار کیا تھا ۔ جی ہاں ، دھاندلی ہوئی تھی اور احتجاج کرنے والے ہم ایسے لوگ تھے، وہ بقل بطورے نہیں ، جو اب سرکارکے قصیدے رقم فرماتے ہیں ۔
جی ہاں ، دھرنے کی سیاست ، سول نافرمانی اور اسمبلیوں سے استعفے دے کر تحریکِ انصاف نے پہاڑ ایسی غلطیوں کا ارتکاب کیا تھا۔ قیمت اس نے ا دا کی اور آئندہ بھی کرے گی ۔ سوال مگر یہ ہے کہ اب اسمبلیوں میں تو خود نون لیگ اسے لے کر گئی ، وہ بھی اس معاہدے کے بعد کہ دھاندلی ثابت ہونے کی صورت میں وزیرِ اعظم اسمبلیاں تحلیل کر دیں گے۔ سات ماہ تک خود حکومت نے استعفے قبول کرنے سے انکار کیا۔ پھر خواجہ آصف کس کے خلاف صف آرا ہوئے ہیں؟ وزیرِ اعظم نے ان کی تائید فرما کر کس کو داد دی ؟ اعتزاز احسن نے وزیرِ دفاع کو پورس کا ہاتھی قرار دیا۔ جی نہیں ، پورس کے ہاتھی راجہ کی فرمائش پر نہیں پلٹے تھے ۔ راجہ پورس سے میاں صاحب کا مقام بہت بلند ہے ۔
خواجہ نے کہا ،ان لوگوں کو شرم آنی چاہیے۔ جی ہاں ، ضرور آنی چاہیے مگر کیا صرف انہی کو ؟ کیا انہیں شرم نہ آنی چاہیے جنہوں نے جنرلوں کی گود میں پرورش پائی ۔ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے وہ حکومت کر تے رہے ۔ صرف جنرل محمد ضیاء الحق کے اقتدار میں نہیں ، اس کے بعد بھی ۔ 17اگست 1986 ء کے بعد یہ آئی ایس آئی تھی ، جس نے اسلامی جمہوری اتحادتشکیل دیا اور جس کے بل پر وہ اقتدار میں آئے۔ 1999ء میں اپنی برطرفی تک ، ہر سال 17اگست کو وہ جنرل محمد ضیاء الحق کے مزار پر تشریف لے جاتے اور اعلان کرتے کہ وہ ان کا مشن مکمل کر کے رہیں گے ۔
یہ تو 12اکتوبر 1999ء کے بعد ہوا کہ سیاست میں فوج کی مداخلت انہیں شرمناک نظر آنے لگی ۔ اب جنرل محمد ضیاء الحق کا نام لینا انہوں نے چھوڑ دیا ۔ انہیں بھول گئے ، بالکل ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ، جنہیں فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں نے پالا پوسا تھا اور آٹھ برس تک جن کے ساتھ اقتدار کے مزے لوٹے تھے ۔ ایوب خان سرپرستی نہ کرتے تو بھٹو کیا ہوتے ؟ لاڑکانہ کے ایک جاگیردار اور سندھ میں ان سے کہیں بڑے بہت سے جاگیردار موجود تھے ۔ کراچی کے ایک وکیل ، شاید ایک کامیاب وکیل مگر کراچی میں اے کے بروہی موجود تھے۔ یحییٰ خان کے دور میں جب انہیں شیخ مجیب الرحمٰن کا وکیل مقرر کیا گیا تو مشہور صحافی آریانا فلانچی کو انٹرویو دیتے ہوئے بروہی کے بارے میں انہوں نے کہا تھا ''بہترین میں سے بہترین‘‘۔ لاہو رمیں تب محمود علی قصوری اور ایم انور کا طوطی بولتا تھا۔ جنرل محمد ضیاء الحق شریف خاندان پر عنایات نہ کرتے تو وہ کیا ہوتا؟
قادر الکلام ، سیاسی حرکیات کے شناور اور اپنے عصر سے آشنا ذوالفقار علی بھٹو اور جوڑ توڑ میں اپنا ثانی نہ رکھنے والے میاں محمد نواز شریف کو دانشور اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹیاں تشکیل دینے کا اعزاز عطا کرتے ہیں ۔ بھٹو تو خیر کہ اقتدار سے الگ ہونے کے بعد عوامی سیاست میں آئے۔ رہے نواز شریف تو 1985ء اور 1988ء میں فوج نے انہیں وزیرِ اعلیٰ بنایا اور 1990ء میں جنرلوں ہی نے وزیرِ اعظم ۔ احسان فراموشی ان دونوں تاریخ ساز رہنمائوں کی مشترکہ خصوصیت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو فیلڈ مارشل کی تحقیر کرتے رہے ۔ میاں محمد نواز شریف نے اپنا قرض جنرل محمد ضیاء الحق کی اولاد سے وصول کیا، جس کے پر کاٹنے اور رسوا کرنے میں کبھی کوئی کسر انہوں نے اٹھانہ رکھی ۔
خواجہ محمد آصف نے آگ برسائی تو خواجہ سعد رفیق ان کی مدد کو آئے ۔ بیان جاری کیا کہ تحریکِ انصاف والے اوّل اپنے لیڈر کی زبان کو لگا م دیں ۔ اس پر پنجابی کا محاورہ یاد آیا۔ ''خواجے دا گواہ ڈڈّو‘‘ (خواجہ کا گواہ مینڈک)۔ پھر یہ سوچ کر ہنسی چھوٹ گئی کہ یہاں تو خواجہ کا گواہ بھی خواجہ ہے ۔
یہی دونوں آدمی تھے، جنہوں نے فوج کے ساتھ شریف حکومت کے تصادم کی راہ ہموار کی تھی اور ایک وہ غیر ذمہ دارآدمی ، پرویز رشید ۔ نتیجہ کیا نکلا، خفت اور شرمندگی کے ساتھ پسپائی ، جس کا سلسلہ جاری ہے ۔ ذاتی بالادستی کی بجائے اگر انہوں نے پسماندہ ، ستائے اور روندے گئے عام آدمی کی مدد کی ہوتی ؟ پولیس کو کچھ بہتر بنادیا ہوتا؟ عدالت کی تھوڑی سی اصلاح کی ہوتی ؟ ٹیکس چوری کا قلع قمع کر کے غیر ملکی امداد سے نجات پانے کی تھوڑی سی جستجو ؟ تو صورتِ حال آج کیا ہوتی ؟ آدمی اپنی توانائی بہترین چیزوں پر صرف کرتاہے یا ادنیٰ پر ۔ یہ اس کی اپنی مرضی ہے ۔ قدرت کا قانون فقط یہ ہے کہ اس کے اعمال کا نتیجہ اسے لوٹادیتی ہے ۔
غلطی سب کرتے ہیں ۔ بہترین وہ ہیں ، جو اپنی غلطیوں سے سیکھ لیتے ہیں ۔ بدترین وہ ہیں ، جو اپنی پریشانیوں اور ناکامیوں کے اسباب خارج میں تلاش کر تے رہتے ہیں ۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت کبھی گوارا نہیں کرتے ۔ ایک شریف خاندان اور اس کے حواری ہی نہیں ، سبھی سیاستدانوں کا حال یہی ہے ۔ کل رات گئے الطاف حسین فرما رہے تھے: ''تحریکِ انصاف نے اپنی ذلّت و رسوائی دیکھ لی؟‘‘ سبحان اللہ، عالی جناب کو تو فروغِ امن کا نوبل پرائز ملنے والا ہے ؟
دوسروں کے لیے جو گڑھا کھودتا ہے ، وہ خود اس میں گرتا ہے ۔ دوسروں کی توہین کرنے و الا خود اپنی توہین کو دعوت دیتاہے ۔ کیسے یہ لیڈر ہیں ، جو اتنی سی بات نہیں جانتے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں