کیا بلھے شاہ نے سچ نہ کہا تھا کہ آخرکار آدمی کو صرف ایک ''الف‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹامک ٹوئیاں مارنے والے دانشور اور ملّا اپنی زندگی دشوار کرتے ہیں اور دوسروں کی بھی۔
سلاد کا ایک چمچ پلیٹ میں ڈالا اور کھانے کا لطف اٹھانے لگا۔ اتنے میں بیرا آن پہنچا۔ اسے بتایا کہ سلاد کو ضائع نہ کیا جائے۔ جب وہ برتن سمیٹ چکا تو شیخ صاحب نے اپنی ہمیشہ کی نرم آواز میں کہا: سلاد کو الگ سے رکھ دینا، کسی مہمان کو پیش نہ کرنا۔
ریسٹورنٹ کا وسیع و عریض صحن آباد تھا اور ہال بھی۔ گھونٹ گھونٹ پانی پیتے ہوئے شیخ صاحب شاد تھے۔ کراچی کے اس مشہورِ عالم باورچی ذاکر کے سوا، جو ٹی وی پر جادو جگاتا ہے، شیخ صاحب شاید وہ واحد شخص ہیں، جن کے گاہک ان کے مہمان اور ملاقاتی بھی ہوتے ہیں۔
بیس برس پہلے کا وہ دن یاد آیا، جب ایک دوست کے ساتھ پہلی بار ایف 8 مرکز آنا ہوا تھا۔ ایک چھوٹی سی دکان، قمقموں کی یہ بہار نہ تھی۔ برتن فرش پر دھرے تھے۔ شیخ صاحب نے نظر اٹھا کر دیکھا اور یہ کہا: دیسی مرغی بھی ہے‘ اور ایک چھوٹی سی کیتلی کی طرف اشارہ کیا۔
ایک بے سر و سامان اور بے وسیلہ آدمی کامیابی کی اس معراج تک کیسے پہنچا۔ میں انہیں آمادہ کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ شہر میں وہ اور شاخیں بھی کھولیں بلکہ ہو سکے تو دوسرے شہروں میں بھی۔ وہ مان کر نہ دیے۔ کہا: ڈھنگ کے آدمی نہیں ملتے اور کھکھیڑ میں، میں پڑنا نہیں چاہتا۔
''غیر معمولی احتیاط‘‘ میں نے سوچا ''بلکہ امانت داری‘‘۔ مجھے معلوم تھا کہ بہت سے اہم لوگ ان کے ریستوران میں آتے ہیں مگر تفصیلات بیان کرنے میں شیخ صاحب کو تامّل تھا۔ جنرل
پرویز مشرف، جو اچھے کھانوں کے شوقین ہیں، شیخ صاحب کے بہت مدّاح تھے۔ گاہے شام کو بار بی کیو کے لیے وہ طلب کیے جاتے۔ عمران خان کے لیے بھی ان کے ہاں سے کھانا بھجوایا گیا۔ ''میانوالی کی دیسی مرغیاں‘‘ شیخ صاحب ہنسے۔ ''ان کی ٹانگیں لمبی ہوتی ہیں‘‘۔ ''عمران خان ہی کی طرح‘‘ میں نے اضافہ کیا۔ شیخ صاحب نے داد دینے سے گریز کیا۔ اپنی زبان کو وہ دل کی طرح سنبھالے رکھتے ہیں۔ دیسی مرغی میانوالی سے اور مچھلی وہ لاہور سے ''درآمد‘‘ کرتے ہیں۔ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ اخبار میں ذکر کا ارادہ ہے تو ہرگز ہرگز نہ بتاتے لیکن میرے اصرار پر انہوں نے پاک فوج کے ان جنرلوں کا ذکر کیا، جو ان کے دسترخوان سے متمّتع ہوتے رہے۔ ان میں سے ایک تو دیسی مرغیاں کھاتے کھاتے کرنل سے لیفٹیننٹ جنرل ہو گیا ''شرماتے ہوئے انہوں نے کہا: ''بڑا ہی اچھا آدمی ہے۔ جب وہ مری میں تھا تو اپنی گاڑی میں اس نے مجھے آزاد کشمیر کی سیر کرائی تھی۔ ایسی ایسی جگہیں میں نے دیکھیں، جن کا تصور تک نہ کیا تھا‘‘۔
ایک مشہور سیاستدان، پرسوں قومی اسمبلی میں جس نے جوت جگائی۔ ''لاہور سے روانہ ہوتے ہوئے ان کی بیگم مجھے فون کر دیتی ہیں۔ اللہ کا بہت شکر ہے‘‘ لاہوریوں کے مخصوص لہجے میں انہوں نے کہا اور اس جج کے بارے میں بتایا، جو سرما میں اکثر آیا کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ خود کو دوسروں سے چھپائے رکھے۔
شیخ صاحب کا تعلق اصلاً لاہور سے ہے۔ وہیں پیدا ہوئے، پلے بڑھے۔ کشمیری نژاد ہیں اور ہر کشمیری کی طرح چٹورے۔ پودینے کی چٹنی کا پیالہ انہوں نے میری طرف بڑھایا اور یہ کہا: ''بہت ہی عمدہ ہے‘‘ پھر انگشتِ شہادت کو انگوٹھے سے جوڑ کر دائیں ہاتھ کو تین دفعہ جنبش دی۔ وہی لاہوریوں کا خاص انداز۔
ایک بات لاہوریوں والی ان میں بالکل نہیں۔ اپنی سنسنی خیز داستان وہ چٹخارے لے لے کر بیان نہیں کر سکتے۔ اوّل تو سناتے نہیں وگرنہ وہ دل ربا قصہ، جس پر ایک فلم بنائی جا سکتی ہے، اس طرح سناتے ہیں، جیسے کسی دوسرے کی کہانی ہو۔ 1990ء تک وہ پاک فوج کو آلو اور پیاز سپلائی کرنے والے ایک بڑے ٹھیکیدار تھے اور مزے کی زندگی گزارا کرتے۔ سبزی کے نرخ آغاز میں طے کر لیے جاتے ہیں اور پورا سال برقرار رہتے ہیں۔ ''ایک بار قیمتیں بہت بڑھ گئیں، اتنی زیادہ کہ ہم حواس باختہ ہو گئے‘ ساہیوال، بہاولپور اور ملتان میں ہر روز چھ ٹرک سپلائی کیے جاتے اور ہر روز ساٹھ ہزار روپے کا نقصان ہوتا‘‘ میں نے کہا: ''آپ کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی‘‘ بولے: ''بالکل نہیں، انہوں نے قیمت 25 فیصد بڑھا دی تھی۔ سپلائی آدھی کر دی تھی۔ قسمت کو یہی منظور تھا‘‘۔
تب لاہور سے شیخ صاحب اسلام آباد چلے آئے۔ سال بھر کے لیے ایک مکان کرائے پر لیا اور باقی ماندہ پونجی تمام ہو گئی۔ ایک ویئرہائوس میں ملازمت کی مگر دل نہ لگا۔ قاعدے قانون کی کچھ خلاف ورزی تھی اور یہ بات انہیں گوارا نہ ہوتی۔ دل کڑھتا رہتا۔ پھر ایک سٹور پر سیلزمین کی نوکری کر لی۔ ان دنوں کا ذکر کرتے ہوئے، شیخ صاحب کے لہجے میں اداسی اتر آئی‘ ''ایک دن اس نے مجھ سے کہا‘ میں تمہارا متحمل نہیں‘‘ میں حیران رہ گیا۔ کبھی 12 سے کم ملازم میرے پاس نہ رہے تھے اور میں نے کبھی کسی سے یہ نہ کہا تھا۔
میں باہر نکلا اور میں نے ضلع کچہری کے ہجوم پر نظر ڈالی۔ خود سے میں نے کہا: ''انہیں ایک ریسٹورنٹ کی ضرورت ہے‘‘۔ قرض لیا‘ گھر سے کھانا پکوا کے لاتے اور بیچا کرتے۔ ''زندگی ایک ڈھب پہ آ گئی‘‘ اس شام کا ذکر کرتے ہوئے، ان کی آواز میں شرمندگی اتر آتی ہے جب نواب آف کالا باغ خاندان کا ایک شخص ان کے ہاں مرغ تکّہ کھانے کے لیے آیا۔ مرغے کی ٹانگ اس نے میرے سامنے لہرائی اور کہا ''یہ کیا ہے؟‘‘ جوڑ میں لہو کا سراغ تھا۔ ''میری گوشمالی کرنے کے بعد اس نے مجھے نسخہ بتایا‘‘۔
شیخ صاحب کو اصرار ہے کہ سب کچھ آدمی کے مقدر میں لکھا ہے۔ اپنے بہترین باورچی کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اتفاقاً اس سے ملاقات ہوئی تھی۔ ٹیکسی پہ گھر جاتے ہوئے، جب انہوں نے اسے لفٹ دی۔ ''اس کی تنخواہ کا متحمل میں نہ تھا مگر کم معاوضے پر وہ آمادہ ہو گیا؛ تاآنکہ آمدن بڑھ گئی۔ ''ہر چیز اتفاق سے رونما ہوتی ہے‘‘ انہوں نے کہا: جس طرح ایک شب آپ نے فلاں بات مجھے بتائی تھی۔
میں حیران رہ گیا۔ نکتے کی ہر بات شیخ صاحب کو یاد رہتی ہے اور کبھی وہ داد طلب نہیں ہوتے۔ پڑھے لکھے وہ بالکل نہیں مگر کبھی یہ لگتا ہے کہ ان میں برصغیر کے کسی قدیم فلسفی کی روح کارفرما ہے۔ ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ فرد اپنی ذات اجاگر کرنے سے جتنا گریز کرے گا، اتنا ہی شاد کام ہوتا جائے گا۔
میں نے کہنا چاہا کہ آدمی اپنی تقدیر خود بناتا ہے۔ حسنِ اخلاق سے فروغ ہے، شرافت، دیانت، خدمت گزاری اور انکسار سے۔ آخر اسلام آباد میں اور کون ہے جو میانوالی سے مرغیاں منگواتا ہے۔ لاہور سے مچھلی خریدتا اور باریک بینی سے جائزہ لیتا ہو۔ سلاد کے پیالے کو اگر چمچ چھو جائے تو کسی مہمان کو پیش کرنے سے گریز کرے۔ جو نان میں کلونجی ڈالتا ہو۔ صفائی کی جسے اتنی شدید فکر ہمیشہ لاحق رہے۔ پھر ایک خیال نے مجھے خاموش رہنے پر آمادہ کیا۔ آخرکار سب سے اہم چیز وہ آہنگ ہے، جو کوئی شخص کسی بھی طرح اپنی ذات میں پیدا کر لیتا ہے۔ اس آدمی کی پُرسکون زندگی کی جھیل میں، ایک کنکر میں کیوں پھینکوں۔ شوربے والی دیسی مرغی بے حد لذیذ ہے، جو اس نے خاص طور پر میرے لیے پکوائی ہے اور پودینے کی چٹنی بھی۔
رہا رزق تو اندھوں کے سوا سب جانتے ہیںکہ مالک نے اس کا وعدہ کیا ہے۔ ''زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں، جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو‘‘ پھر کچھ دیر میں سوال پر غور کرتا رہا کہ اس نیم خواندہ آدمی کو یہ ادراک کیسے ہوا، دنیا بھر میں جسے کسی سے کوئی شکایت نہیں۔
بلھے شاہ نے کہا تھا کہ آدمی کو صرف ایک ''الف‘‘ درکار ہے۔ ٹامک ٹوئیاں مارنے والے دانشور اور ملّا اپنی زندگی دشوار کرتے ہیں اور دوسروں کی بھی۔