"HRC" (space) message & send to 7575

اپنی جماعت

کتنے ہی جانباز‘ کتنے ہی ایثار کیش اور کتنے ہی مخلص ماہرین موجود ہیں مگر اس قوم نے اپنی لگام کرپٹ یا ناکارہ لیڈروں کو سونپ رکھی ہے۔ 
1776ء میں لندن جب یورپی تنازعات میں الجھا ہوا تھا‘ آزادی پا لینے کے بعد امریکی آئین کی تشکیل کا مرحلہ درپیش تھا۔ یہ نئے اور ناتجربہ کار لوگ‘ باغی کہ جنہیں ملک چلانے کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ مگر وہ جنگی ہیرو تھے اور ایک عظیم براعظم کے وارث‘ وسیع و عریض رقبے کے علاوہ‘ جسے وہ سب نعمتیں میسر تھیں۔ اپنے وطن سے وہ مخلص تھے اور ان اقدار پر نیا معاشرہ منظم کرنے کے آرزومند جو پائیدار اور ثمر خیز ہوں۔ ان میں سے ایک جیفرسن نے‘ جو بلند خیال‘ باہمت اور ڈٹ جانے والا آدمی تھا‘ کہا کہ الیکشن ہر سال ہونے چاہئیں۔ دوسرے لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔ انہوں نے کہا: یہ کس طرح ممکن ہے۔ پھر وہ دو سال پر آمادہ ہوا اور آخرکار چار برس کے صدارتی نظام پر۔ مشکل سے وہ مانا کہ کسی بھی صدر کی مدت آٹھ سال سے زیادہ نہ ہونی چاہیے‘ اس لیے کہ طویل اقتدار‘ حکومت سے چمٹے رہنے کی خواہش پیدا کرتا اور وراثت کو جنم دیتا ہے۔ 
1958ء میں ذوالفقار علی بھٹو‘ سکندر مرزا کے وزیر بنے تھے‘ پھر وہ اس کے جانشین فیلڈ مارشل ایوب خان کے۔ آٹھ برس تک وہ اس کے گن گاتے رہے تاآنکہ فوجی ڈکٹیٹر کا اعتماد کھو دیا۔ خدا کی پناہ‘ 57 برس سے بھٹو خاندان اقتدار میں ہے۔ نواز شریف ایک دوسرے فوجی حکمران کی پیداوار ہیں۔ 1983ء میں وہ وزیر بنائے گئے اور 32 سال سے مسلط ہیں۔ 
نواز شریف بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی قوت عمل محدود اور بروقت فیصلے کرنے کی صلاحیت سے وہ محروم ہیں۔ اگر کل وہ دستبردار ہو جائیں تو؟ شہباز شریف؟ اور ان کے بعد؟ محترمہ مریم نواز یا حمزہ شہباز۔ عملاً حمزہ شہباز پنجاب کے ڈپٹی چیف منسٹر ہیں۔ تشہیری حکمتِ عملی کے علاوہ بہت سی سرکاری پالیسیاں ناشتے کی اس میز پر ترتیب دی جاتی ہیں‘ جن میں مریم نواز کے مشیر جمع ہوتے ہیں۔ ادھر بلاول بھٹو ہیں اور اگر چودھریوں کا بس چلا تو یہ مونس الٰہی ہوں گے۔ عمران خان اگرچہ بالکل نہیں چاہتے کہ ریحام خان سیاست میں آئیں مگر خود خاتون کی خواہش مختلف نظر آتی ہے۔ اگر وہ متحرک ہوئیں تو کل کلاں خدانخواستہ کپتان کے منظر سے ہٹنے کے بعد‘ کھرب پتی جہانگیر ترین یا حیلہ ساز شاہ محمود کی بجائے‘ 1857ء سے جن کا خاندان ہر قماش کے حکمرانوں کی خدمت کرتا آیا ہے‘ وہی اس کی جانشین ہوں گی۔ حال ہی میں انہوں نے کہا کہ ایک خان سے دو خان بہتر ہوتے ہیں۔ یہ بھی کہ اگر نیا پاکستان بنانا ہے تو شاہ محمود ایسے لوگ کسی مصرف کے نہیں۔ 
خاندانی اقتدار کی بجائے اگر ملک میں جمہوری ثقافت موجود ہوتی؟ اگر پیپلز پارٹی میں ان کی اہلیہ‘ پھر صاحبزادی‘ پھر داماد اور اس کے بعد نواسے کی بجائے‘ کوئی اور لیڈر چنا جا سکتا؟ اگر پارٹیوں میں الیکشن ہوا کرتے۔ ایک صدی کے بعد بھی باچا خان کی گدی پر ان کے پوتے اسفند یار ولی براجمان ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کو مفتی محمود مرحوم کیا‘ حضرت مولانا حسین احمد مدنی سے چھٹکارا نہیں مل سکا۔ عبدالصمد اچکزئی کے صاحبزادے محمود اچکزئی نے جو انعام کے طور پر زیادہ سے زیادہ اپنی بے مصرف چادر کسی کو دے سکتے ہیں‘ پہلی بار حکومت پانے کے بعد اپنے خاندان کے سوا کسی کو شریکِ اقتدار کرنا گوارا نہ کیا۔ 
ایک معاشرہ اپنے لیڈر خود چنتا ہے یا وہ اس پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ مسلط ہو جانے والے لیڈر‘ جو معاشرے کے علمی اور ذہنی افلاس کا مظہر ہوتے ہیں‘ ملک نہیں‘ اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔ اگر وہ خود غرض‘ خود پسند‘ عدم تحفظ کا شکار اور حیلہ ساز نہ ہوں تو اور کیا ہوں گے؟ 
یمن میں بحران پیدا ہوا تو وزیر اعظم اور ان کے منتقم مزاج وزیر دفاع نے جذباتی بیانات سے ایک سماں باندھ دیا کہ گویا ابھی وہ زرہ بکتر پہن‘ تلوار سونت کر مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ کے دروازے پر جا کھڑے ہوں گے۔ پھر ایک متفقہ قرارداد پارلیمنٹ سے منظور کرا دی‘ جسے کوئی بھی معنی پہنائے جا سکتے ہیں اور جسے خود ان کے ممدوحین نے مسترد کر دیا ہے۔ ملک میں ایسا ایک بھی لیڈر نہیں جو ایک جامع منصوبہ پیش کرتا۔ جینئس نہیں‘ ایک کامیاب لیڈر اکثر معقول تجربے اور اوسط ذہانت کا آدمی ہوا کرتا ہے۔ 
ملک کے سب سے بڑے بینک کے 48.50 فیصد حصص بیچ دیئے گئے ہیں‘ پچھلے برس جن سے حکومت کو دو ارب روپے کی آمدن ہوئی تھی۔ ان حصص کو بیچنے کی ضرورت کیا تھی؟ کیا اس کی بجائے پاکستان سٹیل ملز‘ پی آئی اے اور ریلوے میں شراکت داری کے اقدامات نہ کرنا چاہئیں تھے؟ 16 ملکوں میں حبیب بینک کی 1425 شاخیں قائم ہیں۔ ڈھنگ سے اسے چلایا جائے تو سالانہ منافع جلد ہی دس ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔ 
1947ء میں پاکستان ریلوے کی پٹڑی 11755 کلومیٹر طویل تھی جو اب 9000 کلومیٹر ہے۔ باقی بیچ دی گئی یا چرائی گئی۔ ہر شخص جانتا ہے کہ مال گاڑیوں کا نظام بہتر بنا کر زیادہ سے زیادہ ایک سال میں ریل کو منافع بخش بنایا جا سکتا ہے۔ اگر اس کی ورکشاپوں‘ اس کی وسیع و عریض جائیداد کا نظام ایسے نجی اداروں کے سپرد کر دیا جائے‘ جو منافع میں حصہ دار ہوں۔ اگر اس کی پٹڑی پر نجی گاڑیاں چلانے کی اجازت دے دی جائے اور اس کا کرایہ وصول کیا جائے۔ ہم مگر اس پر شاد ہیں کہ غلام احمد بلور ایسے لٹیرے کی بجائے‘ اب خواجہ سعد رفیق اس وزارت پہ سوار ہیں‘ زیادہ محنتی اور قدرے کم مفادپرست۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کاروبار حکومت کا کام نہیں۔ یہ پیشہ ور ماہرین کا کام ہوتا ہے‘ جن پر کاروباری نگران ہوں۔ سیاست کی طرح کاروبار کی بھی اپنی حرکیات ہوتی ہیں۔ 
پیرس اور نیویارک میں پی آئی اے کے دو ہوٹلوں کی مالیت 700 ملین ڈالر ہوتی ہے‘ حکومت پاکستان جنہیں بیچ دینا چاہتی ہے تاکہ 2.2 بلین ڈالر کے قرض کا کچھ حصہ چکایا جا سکے۔ دنیا کی کسی بھی معقول ایئرلائن کے مقابلے میں اس کا عملہ پانچ گنا زیادہ ہے۔ وہ روٹ اس کے پاس موجود ہیں‘ جو صرف قومی ایئرلائن کو حاصل ہو سکتے ہیں۔ کسی بڑے کاروباری ادارے یا ان کے کنسورشیم کو اگر یہ روٹ اور اگر یہ ایئرلائن سونپ دی جائے؟ اگر 25 فیصد حصص اس کے حوالے کر دیے جائیں تو زیادہ سے زیادہ دو سال میں وہ اسے منافع بخش بنا دے گی؟ واپڈا اور سٹیل مل میں بھی مضمون واحد ہے۔ مل جل کر یہ سب ادارے‘ قوم کے پانچ سو ارب روپے سالانہ ہڑپ کر جاتے ہیں۔ صرف ریل کی تشکیل نو کے لیے 300 ارب درکار ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ مہیا نہیں ہو سکتے۔ پاکستان سٹیل ملز کے پاس دس ہزار ایکڑ اراضی ہے۔ ایک پورا صنعتی شہر اس پر آباد ہو سکتا ہے۔ یہ کام تو مگر ماہرین ہی کر سکتے ہیں۔ ریل‘ پی آئی اے‘ سٹیل مل اور واپڈا کو برباد کرنے والی سیاسی جماعتیں ہرگز نہیں۔ 
وسائل کا ہرگز کوئی فقدان نہیں۔ فیصلے کرنے والے خود غرض‘ نالائق اور مفاد پرست ہیں۔ شوکت عزیز وزیر اعظم بنے تو ایک پاکستانی اخبار نویس نے جدید ملائیشیا کے معمار مہاتیر محمد سے پوچھا کہ وہ مشرق بعید میں خدمات انجام دینے والے ماہرِ معیشت کے بارے میں کیا کہیں گے؟ ان کا جواب یہ تھا: معیشت بجا لیکن اسے نتیجہ خیز بنانے کے لیے سیاست کا فہم درکار ہے۔ 
پاکستان کی تعمیر نو ممکن ہے۔ بارہ سے پندرہ فیصد سالانہ شرح ترقی ممکن ہے۔ اس کی زراعت پانچ برس میں تین گنا‘ کان کنی کی آمدنی دس برس میں سو گنا اور برآمدات پانچ برس میں دو گنا اور ٹیکس وصولی تین گنا ہو سکتی ہے۔ اپنی دولت کو بیرون ملک بھیجنے والا شریف خاندان اور ہر وقت لوٹ مار میں لگا رہنے والا زرداری خاندان مگر یہ کارنامہ انجام نہیں دے سکتا۔ عمران خان کے بس کی بھی بات نہیں کہ جہانگیر ترین اور شاہ محمود ان کے رفقاء کار ہیں۔ 
وقت آ گیا ہے کہ عام پاکستانی‘ خود اپنی سیاسی جماعت تشکیل دیں۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں‘ وگرنہ سینہ کوبی اور گریہ و ماتم۔ کتنے ہی جانباز‘ کتنے ہی ایثار کیش اور کتنے ہی مخلص ماہرین موجود ہیں مگر اس قوم نے اپنی لگام کرپٹ یا ناکارہ لیڈروں کو سونپ رکھی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں