"HRC" (space) message & send to 7575

دیر ہے اندھیر نہیں!

تاریخ کا ماجرا یہ ہے کہ اپنے سینے میں کوئی راز وہ چھپا کر نہیں رکھتی۔ آخر کار سب کچھ اگل دیتی ہے۔
سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے یہ کہا تھا: کھوٹے کو وہ کھرا تسلیم ہی نہیں کرتی، کھرے کو بھی بہت تأمل کے بعد کھرا مانتی ہے۔
خدا کے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں۔ جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ بے تُکی صداقت شعاری گنواروں کا دستور ہے، اہل حق کا نہیں۔ سچ گاہے تأمل کا محتاج ہوتا ہے۔ لوہے کی کلہاڑی سے آپ درخت نہیں کاٹ سکتے، لکڑی کا دستہ جب تک مددگار نہ ہو ؎
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولا برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا
ایم کیو ایم کے بارے میں صرف صداقت لکھنے کا وقت آ پہنچا۔ کسی جھجک کے بغیر۔ کسی تعصب سے پاک، محبت اور نفرت تجزیہ کرنے نہیں دیتی۔ ہیجان میں مبتلا آدمی کھوٹا اور کھرا الگ نہیں کر سکتا۔ کچھ حقائق این اے 246 نے واضح کر دیے، کچھ آنے والے دنوں میں آشکار ہو جائیں گے۔ اچھا وکیل وہ ہوتا ہے، جو مخالف کو اپنی بات مکمل کرنے دے۔
عمران خان نے کہا: پہلی بار ایم کیو ایم کے لیڈر گھروں میں ووٹ مانگنے پہنچے‘ وگرنہ بھتہ وصول فرمانے کے لیے جایا کرتے۔ کہا کہ چن چن کر وہ پولیس افسر قتل کر دیے گئے، جون 1995ء سے جنوری 1996ء تک جاری رہنے والے آپریشن میں جو شریک تھے۔ واقعہ یہی ہے مگر یہ درست نہیں کہ ایم کیو ایم والوں نے کبھی ووٹ نہ مانگے۔ لاہور کینٹ کے الیکشن میں خواجہ سعد رفیق کے تجویز کردہ 20 میں سے 15 امیدوار اس لیے بھی جیت گئے کہ نون لیگ کے کارکنوں نے ایک ایک گھر پہ تین تین بار دستک دی۔ تحریک انصاف کے حصے میں صرف 25 فیصد سیٹیں اس لیے بھی آئیں کہ سعد رفیق مہینہ بھر لاہور میں متحرک رہے اور حامد خان اپنے گھر پہ سوئے رہے۔ سعد رفیق کل وقتی سیاستدان ہیں۔ کاروبار ان کی ثانوی ترجیح ہے۔ ان کی سیاست کا انحصار کاروبار پہ نہیں، کاروبار کا انحصار سیاست پر ہے۔
حامد علی خان تحریک انصاف کے نائب صدر تھے۔ ٹی وی مذاکروں میں مگر پارٹی کا حوالہ دینے کی اجازت مرحمت نہ فرماتے۔ 30 اکتوبر 2011ء کے بعد البتہ یہ منصب اسم مبارک کے ساتھ جگمگانے لگا، جب عمران خان نے لاہور کی تاریخ کے عظیم ترین عوامی اجتماعات میں سے ایک اجتماع سے خطاب کیا۔ ان کے لیڈر پر جب افتخار چوہدری نے مقدمہ دائر کیا تو مدعا علیہ سے پوچھے بغیر انہوں نے معافی نامہ دائر کر دیا۔ ایسے فدائین کے جلو میں عمران خان کی سیاسی بقا بھی ایک معجزہ ہے۔
بارہ بجکر تین منٹ پر میں نے کپتان کو دوسرا پیغام بھیجا۔ یہ کہ وہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرے۔ بتائے کہ طوفان زدگان کے لیے اس کی حکومت نے اب تک کیا اقدامات کیے۔ طے کردہ پالیسی کے خطوط کیا ہیں۔ آنے والے کل میں بحالی کے لیے منصوبہ کیا ہے۔ آدھ گھنٹہ پہلے بھیجا جانے والا پیغام یہ تھا: میڈیا آپ کی حکومت کے پرخچے اُڑا رہا ہے۔ آپ کو پشاور پہنچ کر اپنے کارکنوں، پارٹی لیڈروں اور افسروں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ وہ میدان میں اُتریں۔
بارہ بجکر چھبیس منٹ پر جواب موصول ہوا "O.K"۔ چار بجے وہ پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کر رہا تھا۔ وہ یہی کر سکتا ہے۔ خود بروئے کار آئے اور جو کچھ بن پڑے کر دکھائے۔ نائبین کے انتخاب کا کچھ زیادہ سلیقہ وہ نہیں رکھتا وگرنہ 48 گھنٹے تک اس کی مذمت کا سلسلہ جاری نہ رہتا۔
عطا ربّانی نے اپنی کتاب "I Was Quaid's A.D.C" میں ایک واقعہ لکھا ہے۔ 1948ء میں برطانوی ہائی کمشنر گورنر جنرل کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی: شاہ برطانیہ کے بھائی کراچی تشریف لا رہے ہیں، ازراہ کرم کراچی کے ہوائی اڈے پر وہ اس کا استقبال کریں۔ حیرت سے انہوں نے اس دانا انگریز کو دیکھا اور سوال کیا: جب میرا بھائی لندن جائے گا تو ہوائی اڈّے پر اس کا خیر مقدم کون کرے گا؟
کچھ ہی دیر گزری تھی کہ انہوں نے معزز مہمان کے لیے استقبالیہ برپا کرنے کا حکم دیا۔ وہ ایک حیرت انگیز جذباتی توازن کے آدمی تھے۔ مرعوبیت‘ نہ حد سے زیادہ خود اعتمادی، جو ہمارے اکثر لیڈروں کا شعار ہے۔ استقبالیہ جاری تھا‘ جب اطلاع دی گئی کہ مہاجروں کا ایک نعرہ زن گروہ، گورنر جنرل ہاؤس کے دروازے تک آ پہنچا ہے۔ موسلادھار بارش نے جھونپڑیوں کی چھتیں اکھاڑ پھینکی تھیں، جس طرح ابر باراں نے پختون خوا کے ہزاروں برس پرانے دیہات کو برباد کر ڈالا ہے ؎
بجلیاں ہیں، زلزلے ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں
کیسی کیسی دخترانِ مادرِ ایّام ہیں
استقبالیہ تمام ہوا، وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قائد اعظم نے حکم دیا کہ وہ مظاہرین سے بات کریں۔ چند ہی منٹ میں پریشان حال وہ لوٹ آئے "Qaid e Aazam I think...."... اپنی کرسی سے گورنر جنرل اٹھے اور یہ کہتے ہوئے مہاجروں کی طرف چل دیے: "Leave it Liaqat, I don't think, you can think"... ہجوم سے انہوں نے کہا کہ اپنے تین نمائندے وہ چُن لے۔ جیسا کہ اُن کا مزاج تھا، پوری بات تحمل کے ساتھ سنی، پھر بتایا کہ فلاں اور فلاں مطالبات فوراً منظور ہیں۔ باقی میںکچھ وقت لگے گا۔ پھر ارشاد کیا: میں آپ کے دکھوں سے بے نیاز نہیں مگر حالات!
یہ فقط ایک غیر معمولی اور معمولی لیڈر کا فرق نہیں بلکہ تعمیری اور ناقص انداز فکر کا بھی۔ کام یکسوئی چاہتا ہے، یکسوئی اور غوروفکر کے بغیر سلیقہ مندی ممکن نہیں۔ ترجیحات متعین کرنے کے لیے خلوص اور غور و فکر درکار ہوتے ہیں۔ سیاست جذبات کا استحصال نہیں بلکہ ایک سائنس ہے۔ سرکارﷺ نے فرمایا تھا: بنی اسرائیل کے انبیاء سیاست کیا کرتے تھے۔ اس لحاظ سے یہ پیغمبری منصب ہے۔ افسوس کہ قومی رہنماؤں کے بجائے فتویٰ فروش ملّا انبیا ؑ کے وارث ہو گئے۔ ان میں ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں گرامی منزلتﷺ کا قول یہ ہے: انسانوں میں سے بدترین وہ ہیں، دنیا کے لیے جو اپنا دین بیچتے ہیں۔
سیاست ریاکاری نہیں، نعرہ فروشی اور زورِ خطابت بھی نہیں بلکہ حکمت اور حسنِ انتظام ہے۔ معاشرے کی ساخت اور ابدی قوانین کا ادراک۔ اقبال نے کہا تھا: وحی الٰہی انسانی تجربے کا اختصار ہے۔ وہ بصیرت جو بنی آدم سیکڑوں اور ہزاروں سال کے تجربے میں اخذ کرتا ہے، قرآن کریم کی ایک آیت اور سرکارﷺ کے ایک فرمان سے اخذ کی جا سکتی ہے۔ سوشلزم کی آگ بجھانے کے لیے سرکارﷺ کا ایک قول کافی تھا: کاروبار حکومت کا کام نہیں۔ مجھ سے معمولی لوگ پورے اعتماد سے جب سرکاری اہتمام میں سٹیل مل، پی آئی اے، واپڈا اور نو تخلیق میٹرو بس کو مسترد کرتے ہیں تو کارفرما اصول یہی ہوتا ہے۔ ورنہ ہم کہاں کے دانا ہیں، کس ہنر میں یکتا ہیں۔ احمد ندیم قاسمی نے یہ کہا تھا: ؎
پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو یہ تیراؐ ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیراؐ
شاعروں نے کیا یہ سمجھا تھا کہ ان کی مراد اپنے ادبی مقام سے تھی؟ جی نہیں! جب انہوں نے ریاکار ترقی پسندوں سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا تو مدحتِ سرکارﷺ کو سہارا کیا۔ ظہیر کاشمیری اور فیض احمد فیضؔ حرماں نصیب لشکر میں متذبذب کھڑے رہے۔ جہاں تک اس عہد زیاں کار کے لیڈروں کا تعلق ہے تو بہت سے ان میں سے جعل ساز ہیں۔ بیشتر یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی قوم کو مستقل طور پر وہ احمق بنا سکتے ہیں۔ ڈیڑھ صدی ہوتی ہے، اُس ہوشمند آدمی ابراہام لنکن نے احمقوں کے ایسے ہی ایک ٹولے کو بتایا تھا: سبھی کو کچھ دن فریب دیا جا سکتا ہے، کچھ کو ہمیشہ۔ تمام انسانوں سے ہمیشہ ہمیشہ کی دھوکہ دہی ممکن نہیں ؎
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
تاریخ کا ماجرا یہ ہے کہ اپنے سینے میں وہ کوئی راز چھپا کر نہیں رکھتی۔ آخرکار سب کچھ اگل دیتی ہے۔
سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے یہ کہا تھا: کھوٹے کو تو وہ کھرا تسلیم ہی نہیں کرتی، کھرے کو بھی بہت تأمل کے بعد کھرا مانتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں