آدمی امتحان میں آشکار ہوتا ہے اور الطاف حسین آشکار ہو چکے ؎
ظفر آدمی اسے نہ جانیے گا، ہو وہ کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی‘ جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا
چار دن ہوتے ہیں‘ جب عرض کیا تھا کہ ایم کیو ایم کے لیے نشیب کا سفر شروع ہو چکا ہے اور اب تھمے گا نہیں۔
متحدہ کی پالیسیاں اور دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کا عزم ہی نہیں‘ اس تاثر کی سب سے بڑی وجہ جناب الطاف حسین کا طرزِ عمل تھا۔ بڑھاپے میں ایک وقت وہ آتا ہے‘ آدمی جب نتائج سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ بعض پر یہ وقت بہت پہلے طلوع ہوجایا کرتا ہے۔
انسانی ذہن بہت پیچیدہ ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی اپنے گرامی قدر استاد حمید الدین فراہی کی پائنتی پر دیر تک بیٹھے رہے۔ پھر سوال کیا: پروردگار اگر پہلے سے جانتا ہے کہ آدمی کو کیا کرنا ہے‘ تو اس کی آزادیٔ عمل کیا؟ جواب دہی کیسی ہے؟ فراہی نے‘ کہ ایک مکتبِ فکر کے بانی ہوئے‘ سر اٹھا کر دیکھا اور یہ کہا: وہ اپنے علم کی بنیاد پر جانتا ہے۔ طالب علم خوشنود اٹھا۔ اپنے سوال کا جواب اسے مل گیا تھا۔
خالق کائنات کے بعد‘ آدمی کو سب سے زیادہ اگر کوئی جانتا ہے تو وہ ابلیس ہے۔ روزِ اول اس نے یہ کہا تھا: بنی آدم کو میں گمراہ کر کے رہوں گا‘ اس کے اوپر اور نیچے سے آئوں گا‘ میں اسے اغوا کر لوں گا۔ جیسا کہ سورہ بقرہ بتاتی ہے۔ اللہ نے اس کے دعوے کی تردید نہ کی۔ مگر یہ فرمایا: میرے مخلص بندے گمراہ نہ ہوں گے۔ چالیس ہزار برس کے بعد مشرق کے لازوال شاعر نے لکھا:
عبد دیگر، عبدہ‘ چیزے دگر
معراج کی روداد بیان کرتے ہوئے سرکارؐ کو ختم المرسلین‘ رحمۃ اللعالمین اور سراجاً منیرا کی بجائے‘ اللہ کا بندہ کہا گیا ''لے گیا اپنے بندے کو وہ راتوں رات...‘‘
فرمایا: مومن اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ فرمایا: میں اس کے ہاتھ پائوں بن جاتا ہوں۔ بیسویں صدی کے علمی مجدد اقبال نے اس راز کو پا لیا تھا:
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے‘ حقیقت میں ہے قرآن
...............
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
حلب کی جنگ میں صلح ہو چکی تو شہر کے بڑے پادری نے جناب خالد بن ولیدؓ سے یہ کہا: اچھا ہوا‘ اگر نہ ہوتا تو میں زہر کھا لیتا۔ اس کے ہاتھ سے پڑیا لے کر آپ نے زہر پھانک لیا اور یہ کہا: موت اپنے مقرر وقت پہ آتی ہے۔ ایمان اور یقین کی شدت اور کبھی کبھار تو دعا کی کثرت بھی استثنیٰ پیدا کرتی ہے‘ لیکن اکثر عارضی استثنیٰ ہی۔ تاریخ انسانی کے سب سے بڑے سپہ سالار کی موت اسی زہر سے واقع ہوئی‘ مگر تاخیر کے ساتھ۔ کتاب یہ کہتی ہے: اللہ کو اس کے لشکروں کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
بنیادی حقیقت یہ ہے کہ قدرت کے قوانین کبھی نہیں بدلتے۔ آدمی کا کام بس اتنا ہے کہ ان قوانین کا ادراک کرے۔ اگر خود کو وہ ان کے مطابق استوار کرے تو کامیابی اس کا مقدر ہوگی۔ اگر ان سے متصادم ہو تو کوئی چیز ناکامی سے بچا نہ سکے گی۔
فرمایا: درجات علم کے ساتھ ہیں۔ عقل ہی آدمی کی رہنما ہے۔ جناب رسالتمآبؐ کے بعد سیدنا ابراہیم خلیل اللہ شاید اس لیے سب سے زیادہ معتبر ہیں کہ فہم و فراست نے ان کے وجود میں اپنی رفعت کو پا لیا تھا۔ آدمی کا سب سے بڑا وظیفہ کیا ہے؟ زندگی‘ کائنات‘ انسان اور اس کے پروردگار کا ادراک۔ خلیل اللہ نے کہ درود براہیمی کی گونج میں سرکارؐ کے ساتھ ساتھ ابد تک ان کا نام رہے گا‘ Deductive (استخراجی) اور Inductive (استقرائی) منطق کے ذریعے ہی کائنات کا سب سے بڑا بھید پایا۔ وہ مقام حاصل کیا کہ محبوب ترین بندوں میں سب سے زیادہ محبوب ٹھہرے ''ابراہیم میں تجھے تمام انسانوں کا امام بنا دوں گا‘‘۔ کہا: یا رب مجھے دکھا کہ موت اور حیات کیا ہے۔ ارشاد ہوا: ابراہیم کیا تجھے یقین نہیں؟ کہا: مگر میں یقین کی گہرائی چاہتا ہوں۔
حیات کی تگ و تاز کیا ہے؟ غورو فکر تجربات سے سیکھنے کا عمل۔ اس نادرِ روزگار ادیب کوئلو پائلو کا وہی جملہ: زندگی میں غلطی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی‘ بس سبق ہوتے ہیں‘ اگر ہم سیکھ نہ سکیں تو حیات ہمارے لیے انہیں دہراتی رہتی ہے۔
جناب الطاف حسین نے سیکھنے سے انکار کردیا ہے۔ استعفیٰ دیتے ہیں اور واپس لے لیتے ہیں۔ چلیے‘ یہ تو ڈرامہ ہوا؛ اگرچہ میرے خیال میں ایسا نہیں۔ جذبات سے مغلوب ہو کر وہ فیصلہ کرتے ہیں اور آرزو سے مغلوب ہو کر کچھ ہی دیر میں واپس لے لیتے ہیں۔ ہیجان اور خواہش کے غلبے میں اکثر آدمی کو خود بھی پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کر کیا رہا ہے۔ یہ جبلتوں کی حکمرانی ہے اور جبلت کی حکمرانی میں رسوائی ہوا کرتی ہے۔
اپنے ذہن سے آدمی سوال کرے تو وہ اس کا درست جواب دیتا ہے‘ اکثر نہیں‘ ہمیشہ۔ اگر ہم اس کی بات سننے سے انکار کردیں تو وہ خود کو معطل کر کے‘ ہمیں ہمارے حوالے کر دیتا ہے‘ جبلّتوں کے۔ پھر آدمی اور حیوان میں بہت تھوڑا سا فرق باقی رہ جاتا ہے۔
بارہا عرض کیا کہ عقل کبھی تنہا نہیں ہوتی۔ وہ کسی نہ کسی مثبت یا منفی جذبے کے ساتھ بروئے کار آتی ہے۔ اقتدار‘ شہرت‘ انتقام کی تمنا۔ جناب الطاف حسین کے پورے کردار پر انتقام کی آرزو کا غلبہ ہے۔ چیخ چیخ کر جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے کارکن روزانہ ایک گھنٹہ کلفٹن میں فائرنگ کی مشق کیا کریں۔ جب مشرقی پاکستان کو الگ کرنے اور پاکستان میں پیہم تخریب کاری کرنے والی‘ دہشت گرد بھارتی تنظیم ''را‘‘ سے وہ اسلحے کی فرمائش کرتے ہیں۔ جب وہ فرماتے ہیں کہ تب ''مظلوموں‘‘ کا نہیں، ''ظالموں‘‘ کا خون بہے گا۔ جب وہ جرنیل راحیل شریف کے لیے دعا کرتے ہیں کہ اب وہ واقعی ''راحیل‘‘ اور ''شریف‘‘ بن جائیں۔ جب پاکستانی فوج کو وہ دھمکی دیتے ہیں کہ اگر تصادم ہوا تو ان کی چھڑیاں‘ سٹار اور بلّے باقی نہ رہیں گے تو دراصل وہ کیا کہتے ہیں؟ جی ہاں بغاوت۔ کہتے وہ یہ ہیں کہ اگر میری بات نہ مانی گئی تو میں آگ لگا دوں گا۔ فساد برپا کروں گا۔ دلیل وہ کیا دیتے ہیں؟ پاکستان ہمارے اجداد نے بنایا تھا۔ پاکستان تو قائداعظم نے بنایا تھا اور 76.5 فیصد مسلم ووٹروں کی مدد سے۔ دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ 70 فیصد ٹیکس کراچی سے حاصل ہوتا ہے‘ کسی اور کو نہیں وہ اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں۔ یہ سارے ملک کا ٹیکس ہے‘ جو ساحل پر وصول کیا جاتا ہے۔ ڈیڑھ سو سال پہلے کراچی کی بندرگاہ پنجاب کی گندم اور کپاس برآمد کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ کبھی یہ ساحل بلوچستان کا حصہ تھا‘ پھر سندھ کا ہو گیا۔ مہاجرین سے ہی نہیں یہ سندھیوں‘ بلوچوں‘ پشتونوں‘ پنجابیوں‘ گوا سے آنے والے ولندیزی مکینوں‘ بوہروں‘ میمنوں‘ چترالیوں‘ ہزارہ والوں‘ کوہستانیوں اور سرائیکیوں کا مسکن بھی ہے۔ طالبان کے انجام سے آشکار ہے کہ ریاست کے اندر ریاست کا وجود برقرار نہیں رہ سکتا۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ حبِّ وطن کا جذبہ بہت طاقتور ہوتا ہے۔ بلوچستان اسمبلی نے ان کے خلاف ایک سخت قرارداد منظور کر لی ہے‘ پختون خوا اور پنجاب کو بھی کرنا ہو گی اور ایسی ہی۔ نوازشریف والا دکھاوے کا ردِّعمل نہیں۔ سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم اگرچہ بہت طاقتور ہے۔ اگرچہ آصف علی زرداری ایم کیو ایم کی مدد کے آرزو مند ہیں کہ ان کے مرغ دستِ آموز پیپلز امن کمیٹی کا انجام بھی بالآخر وہی ہوگا‘ جو دوسرے دہشت گردوں کا۔ سندھ اسمبلی اگر الطاف حسین کے خلاف قرارداد منظور نہ کرے گی تو خود الطاف حسین کی طرح تنہا ہو جائے گی۔
وقت آ پہنچا ہے کہ سچے دل سے الطاف حسین معافی مانگیں اور کم از کم کچھ عرصے کے لیے لازماً خاموش ہو جائیں۔ جس ذہنی اور جذباتی کیفیت کا وہ شکار ہیں‘ اس میں نازک ذمہ داریوں کا بوجھ وہ اٹھا نہیں سکتے۔
آدمی امتحان میں آشکار ہوتا ہے اور الطاف حسین آشکار ہو چکے ؎
ظفر آدمی اسے نہ جانیے گا، ہو وہ کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی‘ جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا