یہود کیوں شرمائیں‘ نصاریٰ کیوں شرمائیں۔ شرم تو ہم مسلمانوں کو آنی چاہیے۔
رحمتِ سید لولاکؐ پہ کامل ایمان
امتِ سید لولاکؐ سے خوف آتا ہے
دو دن گزر گئے‘ زخم کسی طرح مندمل نہیں ہوتا۔ کسی طرح صبر نہیں ہوتا۔ یا رب! ہمارے لیڈروں نے کچھ بھی نہیں سیکھا؟ کچھ بھی نہیں۔ اسداللہ خاں غالب کے شعر میں تعلّی ہے‘ مگر ایسا ہی گھائو ہو گا کہ وہ رو دیئے تھے۔
نادیدنی کی دید سے ہوتا ہے خونِ دل
بے دست و پا کو دیدۂ بینا نہ چاہیے
جناب سراج الحق سے پوچھا گیا تو انہوں نے یہ کہا: عورتوں کو یہاں اور بھی بہت سے کام کرنا ہوتے ہیں۔ کھانا پکاتی ہیں‘ بچے پالتی ہیں‘ مہمانوں کی تواضع کا بندوبست کرتی ہیں۔ پروگرام کے میزبان نے پوچھا: کراچی کی خواتین‘ جن کے سب سے بڑے جلسۂ عام کا اہتمام جماعت اسلامی نے کیا تھا؟ جواب‘ آئیں بائیں شائیں۔
سارے عالم کی خواتین بچے پالتی ہیں‘ مہمانوں کی خاطر داری کرتی ہیں۔ تمام اسلامی دنیا کی ثقافت یہی ہے۔ ماں کی جبلت پیدائشی اور ابدی ہے۔ مہمان نوازی مسلمان کا شعار ہے۔ کراچی یا دیر سے اس کا کیا تعلق؟ انسانی جبلتیں وہی ایک ہیں اور کبھی نہیں بدلتیں۔ کہا: جماعت اسلامی شعبہ خواتین کی سربراہ محترمہ عائشہ منور تشریف لائی تھیں۔ قائل کرنے کی انہوں نے بہت کوشش کی۔ میں نے بھی زوردار اپیل کی مگر کسی طرح وہ مان کر نہ دیں۔ حیرت ہے کہ الیکشن جیتنے والی پارٹی‘ سوات اور چترال کی طرح‘ جس کی جڑیں‘ اس سرزمین میں بہت گہری ہیں‘ چند سو خواتین کو بھی آمادہ نہ کر سکیں۔ کون مانے گا؟ کون اس بات پر یقین کرے گا؟
اے این پی کے سینیٹر زاہد خان کا مؤقف ان سے بھی زیادہ چونکا دینے والا تھا۔ مشتعل ہو کر انہوں نے کہا: یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے‘ ہمارا کوئی کارکن اگر ملوث ہو تو ابھی ہم اسے پارٹی سے نکال پھینکیں گے۔ زاہد خان اکثر اسی طرح بات کرتے ہیں: ہم سچے ہیں‘ باقی ساری دنیا جھوٹی ہے۔ یاد ہے کہ وکلاء تحریک کے دوران افواہوں کا ان سے ذکر کیا کہ اے این پی تحریک سے دستبردار ہونے والی ہے۔ فرمایا: سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دل و جان سے ہم اس معرکے میں شریک ہیں۔ چند دن گزرے تھے کہ اسفند یار ولی خان کا بیان دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ نشر کر رہے تھے: ججوں کی بحالی میرا مسئلہ نہیں۔ حضور! آپ کا اگر مسئلہ نہیں تو آپ کی پارٹی شاہراہ دستور پر کیا ریاکاری کا مظاہرہ فرماتی رہی۔ دیر میں اگر کوئی خفیہ سمجھوتہ نہ ہوا تو صرف ایک سوال باقی رہ جاتا ہے کہ سیکولرازم کی علمبردار‘ خواتین اور اقلیتوں کے حقوق پر مغرب کی ہمنوا پارٹی‘ دو چار ہزار خواتین کو بھی کیوں قائل نہ کر سکی‘ جب کہ 16 ہزار سے زیادہ مرد ووٹروں نے ڈٹ کر اس کی حمایت کی۔
عذرِ گناہ بدتر از گناہ۔ ناراض لہجے میں ارشاد کیا: مسئلہ یہ ہے کہ طالبان ہمارے دشمن ہیں۔ ہماری خواتین اگر میدان میں نکلتیں تو ان پر حملہ کیا جاتا۔ طالبان کیا خواتین ہی کو ہدف کرتے ہیں۔ مردوں کے سامنے کورنش بجا لاتے ہیں؟ پختون خوا حکومت کے وزیر اطلاعات مشتاق غنی نے ان سے بڑھ کر کمال کیا۔ بولے: ہمیں تو معلوم ہی نہیں‘ پھر یہ کہ ہمارا تعلق ہی کیا ہے۔ یہ تو الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ ارے بھائی! 47 ہزار اور دوسری رپورٹ کے مطابق 53 ہزار عورتوں کو پیغام پہنچا دیا گیا کہ پولنگ کے دن وہ گھروں سے باہر نہ نکلیں گی۔ بصد خوشی انہوں نے اتفاق رائے کیا۔ گھر گھر چرچا ہوا اور سپیشل برانچ کو خبر تک نہ ہو سکی۔ آئی جی درانی صاحب کی موجودگی میں‘ جو کئی برس پنجاب سپیشل برانچ کے سربراہ رہے‘ جو نہایت ہی لائق افسر سمجھے جاتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ خفیہ سمجھوتہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ مباحثے کے بعد ہوا۔ ظاہر ہے کہ سوچ سمجھ کر کیا گیا۔ صرف دو پارٹیاں ہی نہیں‘ تمام کے تمام امیدوار اور ان کی جماعتیں اس میں شامل تھیں۔ سینکڑوں تو نہیں درجنوں افراد مشاورت کے عمل میں شریک رہے ہوں گے۔ وہ سب کے سب اس قدر محتاط تھے۔ ایسے راز پالنے والے کہ کانوں کان کسی کو خبر نہ ہو سکی۔ آپ کی خفیہ پولیس کا حال اگر یہ ہے تو امن و امان کے ہزاروں پیچیدہ پہلوئوں کے لیے‘ کس طرح آپ پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟
لیبر پارٹی کے ایڈ ملی بینڈ‘ یو کے آئی پی کے ناجیل فیرج‘ لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے نک کلیگ سمیت برطانیہ کی کئی سیاسی پارٹیوں کے سربراہ مستعفی ہو گئے۔ ان میں سے کوئی کسی جرم کا مرتکب نہ ہوا تھا۔ بس یہ کہ الیکشن میں کارکردگی توقعات سے کم رہی۔ کیا تنہا وہ قصوروار تھے‘ قائدین کی حیثیت سے مگر انہوں نے ذمہ داری قبول کی اور گھر چلے گئے۔
سراج الحق‘ زاہد خان اور مشتاق غنی اگر یہ کہتے کہ قدیم روایات کے تحت‘ ہمارے لوگوں کی اکثریت خواتین کا گھر سے نکلنا پسند نہیں کرتی۔ اگر یہ مؤقف وہ اختیار کرتے کہ ایک قبائلی معاشرہ ایک تاریخی عمل میں بتدریج جدید جمہوری معاشرے میں ڈھلتا ہے تو اس میں حرج کیا تھا؟ زاہد خان اور مشتاق غنی نے بھی اللہ کے آخری رسولؐ کا یہ فرمان‘ سو بار سنا ہو گا کہ الصّدق ینجی والکذب یہلک‘ سچ نجات دیتا اور جھوٹ ہلاک کرتا ہے۔ تحریک اسلامی کے سرخیل جناب سراج الحق نے تو کتنی ہی بار اپنی تقاریر میں اس کا حوالہ دیا ہو گا کہ اصلاً وہ ایک خطیب ہیں‘ پھر سیاستدان‘ مکمل طور پر ایک عملی سیاستدان۔ طلبہ سیاست میں حصہ لیا تو اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ بنے۔ اس کے باوجود کہ قبائلی سرزمین سے آئے تھے۔ اردو بولتے ہوئے اب بھی مذکر مونث کی تمیز وہ نہیں کر سکتے۔ 33 سال پہلے کیا عالم ہو گا۔ اس کے باوجود طلبہ کی عظیم اکثریت نے ایسے الیکشن میں ان پر اعتماد کیا‘ ہیرا پھیری کا جن میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انتھک آدمی ہیں۔ سحر سے شام تک پا بہ رکاب۔ کچھ زیادہ پڑھے لکھے بھی نہیں۔ عالم فاضل تو بہرحال نہیں۔ اس کے باوجود اس پارٹی کے سربراہ ہو گئے‘ جس میں پڑھے لکھوں کا تناسب کسی بھی جماعت سے زیادہ ہے۔ اگر وہ تسلیم کر لیتے کہ معاہدہ ہوا ہے اور صاف صاف اس کی وجوہات بھی بیان کر دیتے؟ ان کے وقار میں اضافہ ہوتا۔
انسانی کردار کا پتہ امتحان میں چلتا ہے۔ جب کوئی غلطی سرزد ہو جائے۔ جب تنقید کا اندیشہ ہو۔ کاکول اکیڈمی میں زیر تربیت چار چھوکرے اگر دیوار پھلانگ کر سینما دیکھنے جائیں۔ ان سے پھر جواب طلبی ہو تو اس نوجوان کو گھر بھیجا جا سکتا ہے جو دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرائے۔ جو یہ کہے کہ ساتھیوں نے بہلا پھسلا کر اسے آمادہ کیا تھا۔ ایک ایسے آدمی کو دوسروں کی قیادت کیونکر سونپی جا سکتی ہے‘ جو دبائو میں اخلاقی قوت سے یکسر محروم ہو جائے۔ جو یہ کہتا ہے کہ اپنے فیصلے وہ خود صادر نہیں کرتا بلکہ اس پر مسلط کیے جاتے ہیں۔ پہاڑ سی غلطیاں اپنی جگہ اگر فوج ہی ملک کا واحد ادارہ ہے تو اس کی وجوہات ہیں۔ وہ اسی وطن کے فرزند ہیں۔ اس مٹی سے اگے اور اپنی ہوائوں کے پالے ہوئے۔ تربیت مگر انسانوں کو بدل دیتی ہے۔ ماحول ان کے طرز عمل پہ اثر انداز ہوتا ہے۔
مغرب فقط اس لیے ہم سے بہتر نہیں۔ فقط اس لیے ظفرمند اور ثمربار نہیں کہ قانون اور تعلیم کی اہمیت کا اس نے ادراک کر لیا ہے بلکہ اس لیے بھی کہ اجتماعی زندگی کو وہ ادنیٰ لوگوں کے ہاتھ میں نہیں دیتے۔ ایک ذرا سے جھوٹ اور قانون کی ایک ذرا سی خلاف ورزی پر لیڈر کو خفت ہی نہیں‘ احتساب کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ سزا بھی سہنا پڑتی ہے۔
اقبال نے کہا تھا ؎
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یہود کیوں شرمائیں‘ نصاریٰ کیوں شرمائیں۔ شرم تو ہم مسلمانوں کو آنی چاہیے۔
رحمتِ سید لولاکؐ پہ کامل ایمان
امتِ سید لولاکؐ سے خوف آتا ہے