قدرت کا قانون یہ ہے کہ وہ مہلت دیا کرتی ہے۔ بدقسمت لوگ وہ ہوتے ہیں جو مہلت کو نعمت سمجھ لیتے ہیں۔ خدا کے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں۔
تحریک انصاف تباہی کے راستے پر گامزن ہے اور ہرگز یہ خوشی کی بات نہیں۔ طویل عرصے کے بعد لاکھوں نوجوانوں کو یہ جماعت‘ زیادہ صحیح الفاظ میں عمران خان متحرک کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ اب وہ شکستہ دل ہیں۔ پارٹی کی مقبولیت میں مسلسل کمی ہے۔ 2012ء میں پارٹی الیکشن اس طرح منعقد ہوئے کہ بہت سے علاقوں میں بدترین لوگ ان پر مسلط ہو گئے۔ طویل چیخ و پکار کے بعد جسٹس وجیہہ الدین کی قیادت میں ایک کمیشن قائم ہوا۔ آخر آخر وہ بھی متنازع ہو گیا۔ خان صاحب نے کمیشن کو برطرف کرنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہے۔ جج صاحب نے فیصلہ کر ڈالا کہ کمیشن وہ قائم تو کر سکتے ہیں‘ تحلیل نہیں فرما سکتے۔
پارٹی دوراہے پر کھڑی تھی کہ پختون خوا کے بلدیاتی الیکشن نے گھائو اور بھی گہرے کر دیئے۔ صوبے میں جماعت کی کارکردگی ایسی بھی ناقص نہیں تھی۔ مدتوں سے چلا آتا پٹوار کا مسئلہ تقریباً مکمل طور پر اس نے حل کر دیا۔ اتنا ہی بڑا کارنامہ یہ ہے کہ پولیس میں سیاسی مداخلت بڑی حد تک ختم ہو گئی۔ سکولوں اور ہسپتالوں کی حالت بھی بہتر ہونے لگی۔ اس کے باوجود بلدیاتی انتخاب میں‘ وہ 29,28 فیصد سے زیادہ سیٹیں حاصل نہیں کر سکی۔ پارٹی لیڈروں کے مطابق سبب یہ ہے کہ باقی تمام موثر جماعتیں اس کے خلاف متحد ہو گئیں۔ اے این پی‘ نون لیگ اور جمعیت علماء اسلام۔ انتہا تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے بھی الگ پرواز کرنے کا فیصلہ کیا۔ عذر لنگ! طاقتور فریق کے خلاف اتحاد بنا ہی کرتے ہیں۔
سوات کے نتائج پہ نظر ڈالی جائے تو ادراک ہوتا ہے کہ خرابی کہاں ہے۔ مراد سعید کو خان صاحب نے اپنا جانشین نامزد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ایک ناتجربہ کار نوجوان جو ایک حادثے کی پیداوار ہے اور اظہار خیال میں پرلے درجے کا غیرمحتاط۔ بتایا جاتا ہے کہ وادی میں امیدواروں کے انتخاب کو صوبائی اسمبلی کے ارکان پر چھوڑ دیا گیا۔ ان میں سے اکثر نے اپنے سگے بھائیوں کو ٹکٹ جاری کردیئے۔ ایک نے عم زاد کو۔ ایک طرف تو اعلان یہ ہے کہ ترقیاتی فنڈز ارکان اسمبلی کو نہیں ملیں گے‘ دوسری طرف ٹکٹ گھروالوں میں بانٹ دیئے گئے۔
آدمی کو خطا و نسیان سے بنایا گیا ہے۔ ناکامی اچھی ہے‘ اگر اس سے سبق سیکھ لیا جائے۔ کامرانی تباہ کن ہوتی ہے‘ اگر وہ زعم پیدا کرے‘ طاقت کے نشے میں مبتلا کردے۔ سوات کی المناک ناکامی میں دو اور عوامل کا دخل بھی ہے۔ صوبائی اور قومی اسمبلی کے ٹکٹ ناکردہ کار اور ناپسندیدہ لوگوں کو دیئے گئے۔ اثرات ابھی تک باقی تھے کہ پھر وہی غلطی دہرائی گئی۔ ایک سبب یہ بھی ہے کہ صوبے میں طالبان جب قتل عام کرتے پھر رہے تھے تو کھل کر ان کی مذمت سے گریز کیا گیا۔ اس وقت بھی جب خود تحریک انصاف کے تین عدد ارکان اسمبلی کو انہوں نے مار ڈالا۔
سوات میں‘ جماعت اسلامی کے ساتھ بھی یہی المیہ رونما ہوا۔ علاقے میں اس کی جڑیں بہت گہری تھیں۔ قربانیوں کی ایک طویل تاریخ اس علاقے میں وہ رکھتی ہے۔ مگر طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھنے کی وجہ سے تقریباً مکمل طور پر اسے مسترد کر دیا گیا۔ جمعیت علماء اسلام کو بھی‘ جو طالبان سے اگر کبھی اختلاف کا اظہار بھی کرتی ہے تو برائے وزنِ بیت۔ بے پناہ عوامی پذیرائی جو‘ 3 اکتوبر 2011ء کو لاہور کے جلسۂ عام میں متشکل ہوئی‘ مقابل سیاسی جماعتوں اور مبصرین کو جس نے حیرت زدہ کردیا‘ شاید وہیں سے تحریک انصاف کے زوال کا آغاز بھی ہوا۔
میاں محمد نوازشریف اور ان کے رفقاء نے خطرے کو بروقت محسوس کر لیا۔ یہ اندازہ کر لینے کے بعد کہ ووٹر زرداری صاحب سے نالاں ہیں‘ میاں شہباز شریف نے ان کے خلاف ''اعلانِ جنگ‘‘ کردیا۔ دوسری طرف بڑے میاں صاحب نے نہایت انہماک اور پوری توجہ کے ساتھ تجزیے کا آغاز کیا۔ اگرچہ ہم خیال گروپ کے کرتا دھرتا ہمایوں اختر خان اور ان کے ساتھیوں کو بعدازاں انہوں نے چکمہ دیا‘ اس مرحلے پر مگر ان کے مشورے سے پورے ملک‘ خاص طور پر پنجاب کے ہر حلقۂ انتخاب کا سروے کرایا۔ نہایت تیزی سے بروئے کار آتے ہوئے‘ انہوں نے ہر اس شخص کو پارٹی میں شامل کر لیا‘ جو اچھا امیدوار ثابت ہو سکتا یا کسی ایک حلقے سے کامیابی حاصل کرنے میں مددگار ہو سکتا تھا۔
3 اکتوبر 2011ء کے بعد پندرہ ماہ کا پورا عرصہ خان صاحب اور ان کے ساتھیوں نے ضائع کردیا۔ آٹھ دس ماہ پارٹی کے الیکشن کرانے میں۔ اس وقت جب عام انتخابات سر پہ کھڑے تھے‘ مہم جوئی کا جواز کیا تھا؟ آج تک وہ بتا نہیں سکے۔ حماقت کی انتہا یہ ہے کہ مرکز اور صوبوں میں سیکرٹری جنرل کا چنائو بھی ووٹوں سے ہوا۔ جب یہ سوال کیا گیا کہ انتظامی عہدے پر الیکشن کا مطلب کیا ہے‘ تو کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
معلوم نہیں کس احمق نے پارٹی میں بالواسطہ الیکشن کا مشورہ دیا تھا۔ بڑے پیمانے پر ووٹ خریدے اور بیچے گئے۔ ایسی ایسی خوفناک کہانیاں ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ایسے ایسے پارسا کارِ خیر میں شریک تھے کہ نام لیتے حجاب آتا ہے۔ خان صاحب کے دو بنیادی مسائل ہیں۔ اوّل یہ کہ ان کا ذہن سیاسی نہیں‘ ثانیاً مشیروں کے انتخاب میں آخری درجے کی بے احتیاطی وہ روا رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ نشان دہی نہ کی گئی ہو۔ تعجب خیز یہ ہے کہ سنتے ہی نہیں‘ وہ مان بھی لیتے ہیں۔ عمل درآمد کا مرحلہ مگر کبھی نہیں آتا۔ پارٹی کے صدر دفتر میں مفاد پرستوں اور ابن الوقتوں کا ایک ایسا گروہ مسلط ہے‘ جو ڈھنگ کا کوئی فیصلہ ہونے نہیں دیتا۔ وہ لوگ‘ جن کی کوئی سیاسی شناخت اور کوئی کردار نہیں۔ ان میں سے بعض کے بارے میں یہ گمان پایا جاتا ہے کہ وہ خفیہ ایجنسیوں یا دوسری پارٹیوں کے لیے کام کرتے ہیں۔ ممکن ہے اس میں کچھ مبالغہ ہو مگر یہ ثابت شدہ ہے کہ پارٹی فنڈ میں ان میں سے بعض نے گھپلا کیا۔ پارٹی الیکشن کے ہنگام ووٹروں کی فہرستوں میں بھی۔
تازہ ترین واقعات ہولناک ہیں‘ بلدیاتی الیکشن پر اٹھنے والی بحث میں معاملہ اگرچہ پس منظر میں چلا گیا‘ کوئی دن میں مگر وہ بنیادی سوالات سنپولیوں کی طرح سامنے ہوں گے۔
شاہ محمود کو پارٹی کا چیف آرگنائزر مقرر کرنے کا فیصلہ ناقابلِ فہم ہے۔ کارکنوں اور حامیوں کی اکثریت اس پر ششدر رہ گئی۔ جیسا کہ عرض کیا تھا‘ یہ گویا خودکشی کا نسخہ ہے۔ اسی پر بس نہیں‘ چیف آرگنائزر کے ساتھ ایک عدد سنٹرل آرگنائزر بھی نامزد کیا گیا... جناب جہانگیر ترین‘ دوسری چیزوں کے علاوہ‘ جو ایک عدد ہوائی جہاز کے مالک ہیں۔
پنجاب میں چودھری سرور کو تنظیم نو کی ذمہ داری سونپی گئی تو عمومی طور پر اس کا خیرمقدم کیا گیا۔ پھر معلوم نہیں کیا ہوا کہ اس کا ایک حصہ کاٹ کر شاہ محمود کے حوالے کردیا گیا۔ اس آدمی کے پاس کون سی ''گدڑ سنگھی‘‘ ہے کہ انتہا درجے کی نامقبولیت کے باوجود‘ ہمیشہ ہر اہم ذمہ داری اسی کو سونپی جاتی ہے۔ چودھری سرور پر اظہار اعتماد کے بعد‘ جو نسبتاً زیادہ صلاحیت کے حامل اور نسبتاً زیادہ نیک نام ہیں‘ عدم اعتماد سے کیا نتیجہ اخذ کیا جائے۔
عمران خان بعض چیزوں کو اگر سمجھ نہیں سکتے تو اس میں کوئی تعجب نہیں۔ کوئی آدمی بھی کامل نہیں ہوتا۔ ملال کی بات یہ ہے کہ ادنیٰ لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے اور ان سے چھٹکارا پانے کی کوشش وہ نہیں کرتے۔ شاہ محمود پارٹی پر اگر مسلط رہے تو کسی حریف کو اس کے خلاف سازش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نہایت معمولی صلاحیت کے وہ ایک دھڑے باز آدمی ہیں۔ بخدا‘ اس موضوع پر ایک لفظ بھی میں لکھنے کا خواہش مند نہ تھا لیکن کارکن روتے ہوئے میرے پاس آتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا۔
قدرت کا قانون یہ ہے کہ وہ مہلت دیا کرتی ہے۔ بدقسمت لوگ وہ ہوتے ہیں جو مہلت کو نعمت سمجھ لیتے ہیں۔ خدا کے ہاں دیر ہے‘ اندھیر نہیں۔