سرکارؐ کا فرمان یہ ہے کہ کاروبار حکومت کا کام نہیں۔ ہم ان پر درود پڑھتے ہیں‘ ہم انہیں مانتے ہیں مگر زبان سے‘ دل سے نہیں۔ پھر رسوائی اور ناکامی کے سوا‘ کیا حاصل ہو؟
غالباً یہ 2003ء تھا‘ راولپنڈی میں جب واران بس سروس کی بنیاد رکھی گئی۔ پنجاب حکومت کا منصوبہ تھا۔ شہر کی حدود میں سرکاری نگرانی میں نجی مگر معیاری ٹرانسپورٹ۔ ٹینڈر جاری کیا گیا۔ ایک کھلے مقابلے میں جنرل حمید گل کی صاحبزادی عظمیٰ گل اور ان کے شوہر یوسف گل کی پیشکش قبول کر لی گئی۔ منصوبے کے تحت راولپنڈی صدر سے سیکرٹریٹ تک منی بسوں کا سلسلہ موقوف کر کے‘ بڑے سائز کی بسیں چلانا تھیں۔ ان کے لیے الگ سے بس سٹاپ بننا تھے۔
سن گن ملی تو جنرل صاحب سے بات کی۔ بے تکلفی کے ساتھ ان سے عرض کیا کہ یہ فیصلہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اول یہ کہ کسی معقول آدمی کو وہ کاروبار نہ کرنا چاہیے‘ جس میں حکومت وقت کسی طرح بھی شامل و شریک ہو۔ ثانیاً سود پر لیا گیا روپیہ شریف لوگوں کو ہضم نہیں ہوا کرتا۔ جنرل صاحب نے اتفاق کیا اور کہا کہ ان کی رائے بھی یہی ہے اور یہ کہ مجھے ان سے بات کرنی چاہیے‘ عظمیٰ گل اور یوسف گل سے۔
ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے دلائل دہرائے۔ ان کا جواب یہ تھا: حکومت اعلان کر چکی‘ کسی نہ کسی کو یہ کام کرنا ہے۔ بہتر ہے کہ ہم ہی انجام دینے کی کوشش کریں اور بہترین طور پر۔ ٹرانسپورٹ کے کاروبار میں وہ کئی سالہ تجربے کے امین تھے۔ راولپنڈی سے سرگودھا تک ان کی بسیں چلا کرتیں‘ گنتی کی چند ایک بسیں۔ یاد دلایا کہ یہ تجربہ کئی اعتبار سے تلخ تھا۔ راولپنڈی کے اڈے پر شہبازشریف کی حکومت نے قبضہ کر لیا تھا۔ ایک عجیب عزم سے سرشار وہ اپنی رائے پر مصر تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ وہ بین الاقوامی معیار کی ایک بس سروس کا تجربہ کرنے کے آرزو مند ہیں۔ امید ان کی یہ تھی کہ جدید خطوط پر استوار اس ادارے کے قیام سے‘ ٹرانسپورٹ کے کاروبار کا ماحول تبدیل ہونے لگے گا۔ صحت مند روایات کا آغاز ہوگا۔
فوراً ہی حادثات کا آغاز ہو گیا۔ میاں بیوی ایک دن گرفتار کر کے سٹیشن کمانڈر کی خدمت میں پیش کیے گئے‘ جن کی خواہش تھی کہ وہ صدر میں واقع سمیٹ دی گئی جی ٹی ایس بس سروس کے وسیع و عریض اڈے سے واران والے دستبردار ہو جائیں‘ جہاں پانچ درجن سے زیادہ بسوں کو پارک کیا جانا تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ راولپنڈی کے کور کمانڈر منصوبے کے مخالف ہیں۔ شاید جنرل پرویز مشرف بھی جو جنرل حمید گل سے ناراض تھے کہ فوجی حکومت کی پالیسیوں پر وہ تنقید کیا کرتے۔ پرویز مشرف جنرل حمید گل کے سٹاف افسر رہ چکے تھے۔ سرگودھا میں دو کمروں پر مشتمل ان کے ''فارم ہائوس‘‘ میں شاید آج بھی وہ پینٹنگ آویزاں ہے‘ جو جنرل مشرف کی صاحبزادی نے اپنے والد کے باس کو نذر کی تھی۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد دوبار خاموشی سے وہ ان کے گھر پر تشریف لے گئے اور صلاح مشورہ کیا۔ اب بہرحال وہ ملک کے حاکم تھے اور اطاعت کا مطالبہ کرتے تھے۔
فوراً ہی ایک دوسرا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ راولپنڈی کی مری روڈ سے سیکرٹریٹ کے روٹ نمبر 1 پر چلنے والی ویگنیں سب سے زیادہ منافع بخش تھیں۔ پانچ ہزار سے زیادہ لوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔ انہوں نے احتجاجی مظاہرے کیے۔ سیاسی جماعتوں سے انہوں نے رابطہ کیا۔ جماعت اسلامی سمیت یکے بعد دیگرے وہ واران بس سروس کے خلاف قراردادیں منظور کرنے لگیں‘ جو اب بروئے کار آ چکی تھی۔ جنرل حمید گل کو ناپسند کرنے والے اخبار نویس انہیں بدنام کرنے کے لیے حرکت میں آ گئے۔ آئے روز خبریں چھپا کرتیں۔ اکثر مبالغہ آمیز یا من گھڑت۔ چھوٹا موٹا کبھی کوئی حادثہ ہو جاتا تو تاثر دیا جاتا‘ گویا واران بس سروس کے ڈرائیور کو منزل پر پہنچنے سے زیادہ راہگیروں کو کچلنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
مسافر شاد تھے اور سب سے زیادہ خواتین‘ جن کے لیے الگ سے ایک حصہ مخصوص کیا گیا تھا۔ ڈرائیور کو بڑی بڑی مونچھیں رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ کنڈکٹروں کو سکھایا گیا کہ مسافروں کے ساتھ شائستگی سے پیش آئیں۔ ویگنوں کے برعکس‘ جہاں انہیں گنواروں سے واسطہ پڑتا‘ یہ ایک نہایت ہی عمدہ ماحول تھا۔ پنجاب حکومت اور بعض فوجی افسر بہرحال اس نظام کو ناکام بنانے پر تلے تھے۔ ویگن مالکان‘ ان کے ڈرائیور اور کنڈکٹر‘ ان ہزاروں لوگوں سے ووٹ کی امید رکھنے والی سیاسی پارٹیاں اور وہ اخبار نویس‘ جنرل حمید گل کے نظریات کی وجہ سے‘ جو ان کے مخالف تھے۔
ایک دو بار میں نے اس بس میں سفر کیا۔ محض معیار جانچنے کے لیے۔ داد دیئے بغیر آدمی رہ نہ سکتا تھا۔ پہلی بار بہت شدت کے ساتھ احساس ہوا کہ اخلاقی اعتبار سے معاشرہ کس قدر پست ہو چکا۔ ایک بہترین بس سروس کو اس لیے ناکام بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ ادارے کے مالکان کا تعلق‘ جنرل حمید گل کے خاندان سے تھا۔ جنرل صاحب صدمے کا شکار تھے مگر وہ خاموش رہے‘ جنرل کیانی کی طرح‘ جن کے بارے میں پچھلے دنوں یہ ''انکشاف‘‘ کیا گیا کہ آسٹریلیا جانے کے لیے وہ ہوائی اڈے پر پہنچے تو انہیں روک دیا گیا۔ جنرل نے آسٹریلیا کے لیے کبھی ویزے کی درخواست تک نہ کی تھی۔ وہ تو خیر سبکدوش افسر ہیں۔ شریف آدمی اگر بادشاہ بھی ہو تو بدزبانوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
احساس کمتری اور تعصبات کی ماری‘ ہم پرلے درجے کی ایک زود رنج قوم بنتے جا رہے ہیں۔ اپنی سمت کا ہم کبھی تعین نہ کر سکے۔ قانون کی عمل داری کبھی قائم نہ ہو سکی۔ این جی اوز والوں سمیت میڈیا میں بھاڑے کے ٹٹو بھی بہت ہیں اور تعصبات کے مارے ہوئے بھی بے شمار۔ ایک محترمہ نے تو کمال ہی کر دیا۔ فوجی اداروں کی کاروباری سرگرمیوں پر ایک کتاب انہوں نے لکھی تو دعویٰ کیا کہ جنرل حمید گل کے رسوخ کی بنا پر واران بس سروس کو بینک سے قرضہ ملا۔ (ایسی کوئی کتاب شریف یا زرداری خاندان کے کاروبار پر کیوں نہیں لکھی جاتی؟ اس لیے کہ کوئی تائید اور پشت پناہی نہ کرے گا) جنرل صاحب تو سرے سے منصوبے ہی کے مخالف تھے۔ اپنے بچوں کی سفارش وہ کبھی کرتے ہی نہیں۔ بینک نے جائیداد کی ضمانت کے عوض قرض دیا تھا... اور یا للعجب‘ باقاعدگی سے قسطوں کی ادائیگی کے باوجود ایک دن پورے کا پورا قرض بیک مشت واپس کرنے کا مطالبہ کر دیا گیا۔ اونے پونے خاندان کی جائیداد بیچ کر ادائیگی کردی گئی۔ کروڑوں کا نقصان ہو چکا تھا۔
اس خونچکاں کہانی کا آخری باب بہت ہی تلخ ہے۔ اس قدر اذیت ناک کہ موزوں الفاظ نہیں ملتے۔ حکومت کے وحشیانہ طرز عمل کے طفیل‘ بس سروس بند ہوئی تو گاڑیاں بیچنے کی کوشش کی گئی۔ ایسے ہر گاہک کا تعاقب کیا جاتا اور یہ نیک کام بعض فوجی افسروں کو سونپا گیا۔
راولپنڈی کی میٹرو‘ واران بس سروس کے ملبے پر تعمیر کی گئی۔ نہ ماننا چاہے تو کوئی کوے کو کالا تسلیم نہ کرے۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف خوب جانتے ہیں کہ جڑواں شہروں میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کرنے کے لیے‘ فقط واران بس سروس کو اذنِ عمل کی ضرورت تھی۔ اسّی ارب روپے ضائع ہوتے اور نہ سالانہ دس بارہ ارب روپے کی سبسڈی دینے کی ضرورت پڑتی۔ لاہور‘ راولپنڈی اور ملتان کی سالانہ سبسڈی جلد ہی تیس چالیس ارب تک جا پہنچے گی۔ ایک اور سٹیل مل‘ ایک اور واپڈا‘ ایک اور پی آئی اے‘ ایک اور ریلوے۔ مال گاڑیاں چلا کر ریلوے کا خسارہ تو ختم کیا جا سکتا ہے اور سعد رفیق اس پر تلے ہیں مگر باقی اداروں کی نجکاری‘ ایک نہ ایک دن کرنا ہی ہوگی۔
یونان کے ایک فلسفی سے کسی نے کہا: سمندر پار پیغمبروں کے پیغام کی بازگشت ہے۔ اس نے جواب دیا: میں ان سے زیادہ جانتا ہوں۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے کہ کاروبار حکومت کا کام نہیں۔ ہم ان پر درود پڑھتے ہیں‘ ہم انہیں مانتے ہیں مگر زبان سے‘ دل سے نہیں۔ پھر رسوائی اور ناکامی کے سوا‘ کیا حاصل ہو؟