بربادی یا آبادی ۔ فیصلے کا وقت آپہنچا ۔ پانی سر سے گزر چکا۔ جنرل راحیل شریف، میاں محمد نواز شریف اور ان کے رفقا تاریخ کی فیصلہ کن ساعت میں کھڑے ہیں ۔ مزید اب کوئی مہلت نہیں ۔
آخری سوال بہت سادہ ہے ۔ عسکری قیادت کیایکسو ہے؟ اگر ایسا ہے تو اسے فقط ایک چیز ملحوظ رکھنی چاہیے : اپنے ضمیر کو جوابدہی ۔ قوم اس کی پشت پر کھڑی ہوگی اگر وہ انصاف کی راہ اختیار کرے ۔ قوم کیا، خودپروردگارِ عالم کہ انسانوں کے دل اُس کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتے ہیں ۔
ظاہرہے کہ عسکری قیادت سے صرف جنرل راحیل شریف مراد نہیں ۔ کور کمانڈرز، آئی ایس آئی اور رینجرز ، میدان میں جو بروئے کار ہیں ۔ واقعات کھلے تو انکشاف یہ ہوا کہ فقط کرپشن ہی مسئلہ نہیں ، ملک کی سلامتی خطرے میں ہے ، خود ریاست کا وجودہی۔ ثابت ہو اکہ لوٹ کھسوٹ کا مال بیرونِ ملک ہی منتقل نہیں ہوتا بلکہ دہشت گردوں کو مہیا ہے ۔ بدقسمتی کی انتہا ہے کہ سندھ حکومت اس میں ملوّـث ہے اور ایک دوسری بڑی سیاسی جماعت بھی ۔ طالبان ، فرقہ پرست اور دوسری مافیاز ان کے سوا ہیں ۔ ان کے لیے فضا یوں سازگار ہے کہ صوبائی انتظامیہ ''کارِ دگر‘‘ میں مصروف رہتی ہے ۔
دو راستے ہیں ۔ صوبائی حکومت خود کو محدود کر لے ۔ ضروری اور متعلق فیصلے اپیکس کمیٹی میں صادر ہوں ورنہ گورنر راج ۔ وقت آ پڑے تو فیصلے صادر کرنا پڑتے ہیں ۔ حکومت کا سب سے بنیادی فرض امن و امان اور نظامِ عدل کی تشکیل ہوتا ہے ۔ اگر وہ خود ہی امن برباد کرنے لگے ۔ اگر وہ خود انصاف کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جائے تو اس کے وجود کا جواز ہی کیا؟
بڑی ہی پیچیدہ صورتِ حال ہے۔ امید کی کرن یہ ہے کہ شریف حکومت نے آصف علی زرداری کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے ، جو فوج ہی نہیں پورے ملک کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ایک اعتبار سے خطرناک بات وہ ہے جو پرویز رشید نے کہی... اور ان کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں ... ایک ممتاز اخبار نویس کو یہ تبایا کہ وہ شیری رحمٰن کی توجیہ قبول فرماتے ہیں ۔
شیری رحمن نے یہ کہا: زرداری صاحب نے ماضی کے ڈکٹیٹروں کا ذکر کیا تھا۔ جنرل راحیل شریف ایک سچے سپاہی اور بہادر سپہ سالار ہیں ۔پھر زرداری صاحب نے یہ تاثر کیوں دیا کہ کراچی میں احتساب جنرل کا ذاتی فیصلہ ہے ۔ تین سال مکمل ہونے پر 2016ء کے اختتام پر وہ چلے جائیں گے۔ انہوں نے یہ کیوں ارشاد کیا کہ (جنرلوں کی)اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی ۔یعنی لوٹ مار جاری رکھنے کی اجازت دی جائے ورنہ وہ فوج کے خلا ف میدان میں اتریں گے ۔ کراچی سے پشاور تک سب کچھ بند کر دیں گے ۔
کیا یہ دیوانے کی بڑ تھی ، محض فرسٹریشن کا اظہار یا اس کے لیے انہوں نے منصوبہ بندی کی ؟ـ ایک قابلِ اعتماد ذریعے کا کہنا ہے کہ الطاف حسین کو ٹیلی فون کیا تو ان سے یہ کہا : آپ اسمبلیوں سے مستعفی ہو جائیے اور ہم بھی ۔ معلوم نہیں ،الطاف حسین کا جواب کیا تھا۔ اس سے پہلے جو میاں نواز شریف اور زرداری صاحب سے اعلانیہ کہہ چکے کہ اگر وہ تینوں متحد ہو جائیں تو جمہوریت کو خطرہ لاحق نہ رہے گا۔
ذمہ داری اب وزیرِ اعظم پر ہے ۔ ایک فیصلہ عسکری قیادت کو کرنا ہے ، دوسرا میاں صاحب کو ۔ دھوپ میں رکھی برف کی طرح ریاست تحلیل ہوتی جا رہی ہے ۔کوئی شبہ نہیں کہ ماضی میں عسکری قیادت نے بھی پہاڑ ایسی غلطیاں کیں ۔ سیاستدانوں نے مگر لوٹ مار کو وتیرہ بنا لیا اور غیر ملکیوں سے رہ و رسم رکھنے لگے ۔ اس قدر لوٹ مار کہ بیرونِ ملک اربوں کے اثاثے وہ رکھتے ہیں ۔ غیر ملکیوں سے ایسے مراسم کہ قومی مفادات یکسر نظر انداز ۔ لاکھ شیری رحمٰن تردید کریں ، قابلِ اعتماد ذرائع کے مطابق کابل کے دورے میں زرداری صاحب نے افغان قیادت کو پاکستان کے خلاف اکسایا ۔ حسین حقانی ایسے لوگ سفیر بنائے گئے۔ سینکڑوں مشکوک غیر ملکیوں کو انہوں نے پاکستان کے ویزے جاری کیے ۔ بلیک واٹر ملک میں دندناتی رہی ۔ رحمٰن ملک ایسے لوگوں کو وزارتیں سونپی گئیں ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ لانچوں میں روپیہ دبئی پہنچایا جاتا رہا۔ اگر یہ ملک سے بے وفائی نہیں تو بے وفائی ہوتی کیا ہے ؟
ظاہر ہے کہ تمام کے تمام سیاستدان کرپٹ نہیں ۔ پھر ظاہرہے کہ ان میں سے ہر ایک کے جرم کی نوعیت مختلف ہے ۔ جنرل پرویز مشرف اور متحدہ مجلس عمل سمیت ایک کارنامہ تو سبھی نے انجام دیا ۔ دہشت گرد پھلتے پھولتے رہے ۔ پوری قوت سے انہیں تباہ کرنے کی بجائے ان کے ساتھ سمجھوتے کر لیے گئے ۔ رہی لوٹ مار تو اس کے شواہد ہر خبرنامے میں پیش کیے جارہے ہیں ۔ ابھی ابھی ایک نہایت قابلِ اعتماد ذریعے نے بتایا کہ اسمٰعیل ڈاہری نام کے ایک شخص نے کچھ انکشافات کیے ہیں ، جلد جو سامنے آئیں گے ۔ کچھ ثبوت سپیکر سندھ اسمبلی سراج درّانی کے خلاف ملے ہیں ۔ رہ گئیں محترمہ فریال تالپور تو ان کے کارنامے سندھ سے لے کر گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر تک پھیلے ہیں ۔ چوہدری عبد المجید سے ''فرمائش‘‘ کی جائے ، ان کے سر پہ مسلّط چوہدری ریاض یا مہدی شاہ سے تو ایک طلسمِ ہوشربا وجود میں آ سکتی ہے ۔ کیا فش ہاربر والوں نے یہ نہیں بتایا کہ 70فیصد بلاول ہائوس پہنچتا تھا ۔
پرویز رشید کا بیان اگر وزیرِ اعظم کے ایما پر ہے تو اس پر غور کرنا چاہیے ۔ کیا وہ زرداری صاحب اور عسکری قیادت میں مفاہمت کے آرزومند ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو کن خطوط پر ؟ کیا سندھ زرداری صاحب ، ان کے خاندان اور ساتھیوں کی چراگاہ رہے گا یا وہ باز آنا پسند فرمائیں گے ؟ جو لوٹ مار وہ کر چکے ، اس کا کیا ہوگا؟ جیساکہ چار دن سے عرض کررہا ہوں ، حکمت او ر مصلحت سے کام لیا جا سکتاہے مگر کس حد تک ؟ برسوں سے سٹیل مل ، واپڈا، ریلوے اور پی آئی اے میں چار پانچ سو ارب روپے سالانہ برباد ہو رہے ہیں ۔ پنجاب کے تین شہروں میں میٹرو بس پر دو سو ارب روپے ۔ انکم سپورٹ پروگرام ، وزیرِ اعظم یوتھ پروگرام اس کے علاوہ ۔ ٹیکس وصول ہی نہیں کیا جاتا ۔ سکول اور ہسپتال برباد ہیں۔ ملک آئی ایم ایف کے پاس رہن ہے ۔
تین ماہ ہوتے ہیں ، صدر ممنون حسین نے ٹشوپیپر کی طرف ہاتھ بڑھایا اور رک گئے ۔ کہا: چالیس پیسے ضائع کرتے شرم آتی ہے ۔ وزیرِ اعظم اور وزراء اعلیٰ کی شاہ خرچیوں پر پوری قوم حیران ہے ۔ قوم پوچھ رہی ہے کہ ایل این جی کس بھائو خریدی گئی ؟ کوئی بتا کر نہیں دیتا۔ پولیس اور پٹوار ، عدالتی نظام کو اپاہج رکھا گیاہے کہ حکمران من مانی فرماتے رہیں ۔ جی ہاں ، اس طرح نہیں چلے گا۔ ریاست کا وجود خطرے میں ہے ۔
ڈاکٹر عاصم بولے : پاکستان قائم نہ رہے گا۔ جی وہی ، راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی کی طرح چراگاہوں میں زرداری صاحب کے ہم نفس ،ڈاکٹر عاصم ۔ اس پر ایک شریف آدمی ان سے الجھ پڑا۔ حد ہو گئی ، ملک کے سب ادارے برباد کر ڈالے ۔ سرکاری ملازمین کے نام پر ذاتی افواج بنا لی گئیں۔ سرمایہ دھڑا دھڑ ملک سے باہر بھاگ رہاہے اور اس کے ساتھ ہی مردانِ کار بھی ۔ حکمرانوں کاخیال یہ ہے کہ قوم فقط اقتصادی راہداری سے بہل جائے۔ نظامِ حکومت بہرحال درست کرنا ہوگا۔ سرمایہ واپس لانا ہوگا ۔ مجرموں کو سزا دینا ہوگی ... بڑے بڑے مجرموں کو۔
یہ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان ہے : برباد ہوئیں وہ قومیں ، جو کمزوروں کو سزا دیتیں اور طاقتوروں کو بخش دیتیں ۔ بربادی یا آبادی ۔ فیصلے کا وقت آپہنچا۔ پانی سر سے گزر چکا۔ جنرل راحیل شریف، میاں محمد نواز شریف اور ان کے رفقا تاریخ کی فیصلہ کن ساعت میں کھڑے ہیں ۔ مزید اب کوئی مہلت نہیں ۔