سرکارؐ کے ایک ارشاد کا مفہوم یہ ہے: کوئی اس دنیا سے اٹھے گا نہیں، جب تک اس کا باطن آشکار نہ ہو جائے۔ واقعات تیزی سے رونما ہونے لگے ہیں۔ کوئی دن میں فیصلہ ہوا چاہتا ہے۔
ایم کیو ایم کے دو وجود ہیں۔ ایک اس کی سیاسی شخصیت ہے، جس میں وہ شہری سندھ کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ کیا وہ شفاف انداز میں الیکشن لڑتی ہے یا نہیں، اس کی حمایت موجود ہے اور بعض حلقوں میں غیر معمولی۔ سیاست پر تو کیا اعتراض، دوسرا اس کا عسکری شعبہ ہے۔ جیسا کہ سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی، پیپلز پارٹی، اے این پی اور سنّی تحریک کا بھی۔ فرق یہ ہے کہ ایم کیو ایم کا مسلّح گروہ بہت بڑا اور تجربہ کار ہے۔ اس میں اجمل پہاڑی اور صولت مرزا ایسے ''شہسوار‘‘ پائے جاتے ہیں۔
کیسی ریاست ہے، جس میں سیاسی پارٹیاں مسلّح گروہ تشکیل دیتی اور انہیں برقرار رکھتی ہیں؟ اس لیے کہ وہ کمزور ہے اور بے ہمت۔ صرف وہی نہیں، طالبان ہیں، فرقہ پرست پارٹیاں ہیں، مجلس وحدت المسلمین جس میں نیا اضافہ ہے۔ طالبان کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ انہیں بھارت سے مدد ملتی ہے۔ بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کو بھی۔ ایک الزام زیرِ لب دہرایا جاتا رہا کہ عرب اور ایرانی، فرقہ پرست گروہوں کو مالی مدد فراہم کرتے ہیں۔ اب یہ بات علی الاعلان کہی جاتی ہے اور کوئی تردید نہیں کرتا۔
پاکستان ایک ریاست ہے مگر بعض اعتبار سے نہیں ہے۔ لاہور کی این جی اوز کے بعض عہدیدار ہر ہفتے کراچی جاتے ہیں۔ کس لیے؟ کہا جاتا ہے بھارت کے زیرِ زمین جال سے رابطے کے لیے۔ اسی قماش کے کچھ لوگ اس رسان سے بھارت کا سفر کرتے ہیں، جیسے ہم اور آپ راولپنڈی سے لاہور۔ پاکستانی میڈیا میں بھارت کے وکیل موجود ہیں اور کاروباری حلقوں میں بھی۔ ان کا
ذکر نہیں، جو ہمسایہ ممالک میں مفاہمت اور امن کے قیام پر زور دیتے ہیں۔ وہ نیک نیت بھی ہو سکتے ہیں مگر وہ این جی اوز، جن میں سے بعض کے دفاتر ایسے شاندار ہیں کہ نگاہ خیرہ ہو جائے۔ جن کے کرتا دھرتا قیمتی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض اخبار نویس ہیں۔ اخبار اور این جی او؟ کیا یہ تماشا دنیا کے کسی اور ملک میں بھی ہوتا ہے؟ ایک انگریزی اخبار تو ایسا ہے کہ اس کے آدھے سے زیادہ لکھنے والے این جی اوز کے ''مالکان‘‘ ہیں۔ سات آٹھ برس ہوتے ہیں، امداد فراہم کرنے والے ممالک کے سفارت کاروں کے ساتھ ایک مشہور اخبار نویس کی چار کالمی رنگین تصویر چھپی۔ وہ گویا ان کی صدارت فرما رہا تھا۔ اب اس کے لہجے میں کچھ شائستگی آ گئی ہے وگرنہ مدتوں وہ یہ تاثر دیتا رہا کہ پاکستانی فوج ایک مافیا ہے۔ لاہور کے ایک اور بزرگ اخبار نویس کے بارے میں وثوق سے بتایا جاتا ہے کہ وہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا کارندہ ہے۔ بظاہر وہ انسانی حقوق کا پاسبان ہے۔ لوگ پاکستان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ خود حکمران پارٹی میں ان کے حامی اور ہمدرد موجود ہیں۔ دو سال ہوتے ہیں، ایک کے بارے میں عرض کیا کہ نون لیگ کا لیڈر ہونے کے باوجود چار عشروں میں کبھی ایک بار بھی اس نے قائد اعظمؒ یا تحریکِ پاکستان کی حمایت میں ایک لفظ نہ کہا۔
دو برس ہوتے ہیں، جب لاہور کے ایک اخبار میں یہ جملے چھپے ''پھر (1947ء میں) برّصغیر میں ایک عجیب الخلقت بچّے نے جنم لیا، جس کا نام پاکستان ہے‘‘۔ یہ ایک ادبی کانفرنس کی روداد تھی، جو اس اخبار کے اہتمام سے برپا ہوئی اور یہ ارشاد ایک بھارتی دانشور کا تھا۔ اسی اخبار میں ایک پاکستانی (منجّم) کے کالم میں بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا گیا۔ اس کے مدیر سے، جو ایک قابلِ احترام رفیقِ کار ہے، میں نے عرض کیا: اگر آپ کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے؟
لاہور میں بھارتی اداکار، شاعر، اخبار نویس اور گلوکار تشریف فرما ہوتے ہیں۔ بعض لوگ ان کی میزبانی کے لیے مرے جاتے ہیں۔ ان تقریبات میں بھارتی مہمان پاک بھارت سرحد کو ''لکیر‘‘ کہتے ہیں۔ بعض پاکستانی میزبان بھی۔
کئی سال اس سوال پر غور کرنے میں صرف کیے کہ ایسا کیوں ہے؟ کئی ایک وجوہ ہیں اور ان پر الگ سے بات کرنی چاہیے۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ پنڈت جواہر لعل نہرو سے نریندر مودی تک، بھارتی حکمرانوں نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ نریندر مودی نے علی الاعلان کہا: پاکستان کو دو لخت کرنے کے لیے بھارتیوں کا خون مکتی باہنی کے ساتھ بہا۔ مستقل مزاجی کے ساتھ وہ پاکستان کو تباہ کرنے کے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں۔
میں دہراتا ہوں کہ قیامِ امن کی کوشش کرنے والوں پر شک نہیں کرنا چاہیے۔ کشیدگی جنگ کی طرف لے جاتی ہے اور جنگ ایسی چیز نہیں کہ کوئی صحیح الدماغ آدمی جس کی آرزو کرے۔ خود قائد اعظمؒ نے یہ کہا تھا کہ بھارت اور پاکستان میں وہ امریکہ اور کینیڈا ایسے تعلقات کے خواہش مند ہیں۔ ان لوگوں کے بارے میں مگر کیا عرض کیا جائے، جو پاکستان کے وجود ہی کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ میں ایم کیو ایم کی قیادت پر عائد کردہ الزامات کو الگ رکھیے۔ 2006ء کا واقعہ انٹرنیٹ پر موجود ہے، جب جناب الطاف حسین نے دہلی میں کہا تھا کہ برّصغیر کی تقسیم انسانی تاریخ کی سب سے بڑی حماقت تھی۔ غلطی ہو جائے تو اس کی اصلاح کی جاتی ہے۔ کیا دوسرے الفاظ میں انہوں نے یہ نہ کہا کہ پاکستان کو ختم ہو جانا چاہیے؟ مان لیجیے، یہ تشریح غلط ہے۔ مان لیجیے، اس کے باوجود جناب الطاف حسین دل و جان سے پاکستان کے قائل ہیں۔
تب ایک اور سوال سر اٹھاتا ہے۔ پاکستانی ریاست کی اہم ترین ترجیحات کے بارے میں ان کا روّیہ منفی کیوں ہے؟ اہلِ کشمیرکے حقِ رائے دہی کی حمایت وہ کیوں نہیں کرتے؟ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر وہ فخر کیوں نہیں کرتے؟ کشمیر میں ایک لاکھ مسلمان قتل کر دیے گئے، اس پر ان کا دل کبھی دکھتا کیوں نہیں؟
کتنے ہی مواقع پر پاک فوج کی توہین اور تحقیر کے وہ مرتکب ہوئے؟ حال ہی میں انہوں نے اپنے کارکنوں سے یہ کہا کہ کلفٹن کے ساحل پر روزانہ ایک گھنٹہ فائرنگ کی مشق کیا کریں۔ ظاہر ہے کہ اس جملے کے مضمرات سے وہ خوب واقف تھے۔ یہ بغاوت کا اعلان تھا۔
اسی سانس میں انہوں نے فوجی قیادت کی مذمت کی اور یہ کہا: پھر پتہ چلے گا کہ ظالموں کا خون بہتا ہے یا مظلوموں کا۔ یہ بھی ارشاد کیا کہ تمہاری چھڑیاں، تمہارے بَیج اور بلّے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ ٹارگٹ کلنگ اس وقت کیوں تھم جاتی یا کم ہو جاتی ہے، جب رینجرز پوری قوت سے بروئے کار آئیں؟ اس وقت کیوں بڑھ جاتی ہے، جب سری نگر میں حریت پسند طاقت کا مظاہرہ کریں؟
کراچی میں قتل و غارت گری کرنے والوں کی قوت کا راز بھارتی پشت پناہی میں نہیں، پاکستانی معاشرے اور ریاستی اداروں کی کمزوری میں پوشیدہ ہے۔ مجرم بے خوف ہو جاتے ہیں، جب سزا کا اندیشہ نہ رہے۔ میڈیا خوف زدہ رہا کہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں اس کی نشریات جاری و ساری رہیں اور ہر قیمت پر۔ دونوں بڑی قومی جماعتوں اور پاک فوج کے سربراہ پرویز مشرف نے ان کے ساتھ سمجھوتہ کیا۔ ان کی خونخواری سے نظریں چرائے رکھیں۔ ایسے سمجھوتے کہ جن کی حدود بے حسی اور خود غرضی نہیں بلکہ بے حمیتی سے جا ملتی ہیں۔ 1995ء کے آپریشن میں شریک 200 پولیس افسروں کے قتل کی تفتیش کیوں نہیں کی جاتی؟ 1996ء سے اب تک کی حکومتوں کے پاس اس سوال کا جواب کیا ہے؟
واپسی کی راہ مسدود ہے۔ عسکری قیادت اور وفاقی حکومت دونوں کے لیے۔ پیپلز پارٹی کے لیے متحدہ کو شریکِ اقتدار کرنا آسان نہ ہو گا۔ آخری نتیجے کا انحصار بہرحال قوم کے اجتماعی ردّعمل پر ہے۔ صرف ایم کیو ایم نہیں، تمام مسلّح گروہوں کے بارے میں وہ قانون کی بالادستی پر اصرار کرتی ہے یا نہیں؟ وہ زندہ رہنے کی آرزومند ہے یا نہیں۔ جنرل راحیل شریف اور وزیرِ اعظم نواز شریف اب ترازو میں تولے جائیں گے، فیصلہ ہو گا کہ وہ کم نکلے یا پورے!
سرکارؐ کے ایک ارشاد کا مفہوم یہ ہے: کوئی اس دنیا سے اٹھے گا نہیں، جب تک اس کا باطن آشکار نہ ہو جائے۔ واقعات تیزی سے رونما ہونے لگے ہیں۔ کوئی دن میں فیصلہ ہوا چاہتا ہے۔