سرکارؐ کا فرمان یہ ہے: کلّکم راعٍ و کلّکم مسئول۔ تم میں سے ہر شخص حکمران ہے اور تم میں سے ہر ایک جواب دہ۔ فرمایا: تمہارے اعمال ہی تمہارے عمّال ہیں۔
کس طرح کے لوگوں کو ہم نے اقتدار سونپ دیا۔ وزیر اعظم کا اعلان یہ ہے کہ اب وہ کراچی شہر کو میٹرو کا تحفہ دیں گے۔ پھر شاید فیصل آباد‘ پشاور اور کوئٹہ کی باری آئے۔ چار پانچ سو ارب روپے برباد ہوں گے۔ بڑھتے بڑھتے زر اعانت تیس چالیس ارب روپے سالانہ تک جا پہنچے گا۔ ایک اور واپڈا‘ ایک اور سٹیل مل‘ ایک اور پی آئی اے! آج ہم ماضی کے فیصلوں کو روتے ہیں‘ پھر ان کو رویا کریں گے۔ وہ شاید کہیں لندن میں پڑے ہوں گے... اور ان کے مصاحب کسی اور فوجی‘ کسی اور سول ڈکٹیٹر کا ترانہ گا رہے ہوں گے۔
چین سے نعمت اللہ خان نے کراچی کے لیے زیر زمین ریلوے کا معاہدہ کر لیا تھا۔ 1.2 ارب ڈالر میں۔ B.O.T یعنی بنائو‘ چلائو اور سپرد کرو کی بنیاد پر۔ پوری کی پوری سرمایہ کاری غیر ملکی ہوتی۔ شوکت عزیز کو اعتراض ہوا۔ کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی سے اجازت لینا ہو گی... یہ اجازت کبھی نہ مل سکی۔
لاہور کے لیے چودھری پرویز الٰہی کے دور میں ایسا ہی ایک منصوبہ بنا۔ 2008ء کا الیکشن اگر وہ ہار نہ گئے ہوتے تو 2012ء میں لاہور کی لوکل ریلوے رواں ہو گئی ہوتی۔ شہباز شریف آئے تو انہوں نے اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ 80 ارب روپے جنگلہ بس پر لگا دیے۔ دو سو ارب اب لاہور میں ریل پہ صرف ہوں گے۔ لاہور کی میٹرو کو بھی کابینہ کی اس کمیٹی سے اجازت حاصل کرنا تھی‘ مگر انہوں نے پروا ہی نہ کی۔ ٹکڑوں میں منصوبے کو بانٹا۔ الیکشن سر پہ کھڑے تھے۔ زرداری صاحب شریف خاندان کی ناراضی کے متحمل نہ تھے۔ معاہدہ یہ تھا کہ ایک دوسرے پر وہ صرف دکھاوے کو معترض ہوں گے۔ بے قاعدگی اور لوٹ مار پہ نہیں۔ دو چار بار خلاف ورزی ہوئی لیکن ہر بار بروکر حضرات نے مصالحت کرا دی۔ کاروباری لوگ اس ملک کے اصل حاکم ہیں۔
میو ہسپتال کے پہلو سے گزر کر ایبک کے مزار تک جانا تھا۔ وہ بادشاہ جو چوگان کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گرا اور چھ سو برس تک کچی قبر میں سویا رہا‘ تاآنکہ ایک چھوٹا سا مزار تعمیر کر دیا گیا۔ تجاوزات ہیں‘ کئی درجن دکانیں‘ سامنے لیڈی ولنگٹن ہے‘ خواتین کے لیے انگریزی عہد کا زچہ بچہ ہسپتال۔ عدنان عادل نے کہا: ایک ایک بستر پر چار چار خواتین پڑی ہیں‘ اللہ کی بے بس و لاچار مخلوق۔ گلگت بلتستان کا الیکشن جیتنے کے لیے 70 ارب کے منصوبے۔ اگلے برس آزاد کشمیر میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ راولپنڈی سے مظفر آباد تک‘ ریلوے پر 250 ارب روپے مختص کرنے کا ارادہ ہے۔ ہسپتالوں میں تڑپتے مریضوں کے لیے میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف کا دل کیوں نہیں دکھتا؟ دل پتھر ہو جاتے ہیں‘ قرآن کریم کہتا ہے: بلکہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت۔ ان میں تو ایسے ہیں‘ جن سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں۔
ترقیاتی منصوبوں بلکہ تمام سرکاری اخراجات کا بڑا حصہ رائیگاں ہوتا ہے۔ ہسپتالوں میں‘ سکولوں میں‘ سرکاری دفاتر میں۔ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کو کس نے حق دیا ہے کہ وہ ترقیاتی ترجیحات طے کریں؟ پھر احسان جتلائیں؟ یہ ماہرین کا کام ہے‘ افسر شاہی کا جو برباد کر دی گئی اور پولیس بھی۔ ہمارے نصیب میں بادشاہ لکھے گئے‘ بھٹو خاندان اور شریف خانوادہ۔ فوجی بیرکوں سے وہ ابھرے اور ظل الٰہی ہو گئے۔ سیاسی کارکنوں اور دانشوروں کا کام یہ رہ گیا ہے کہ ان میں سے کسی ایک کی خوشامد کرتے رہیں۔ اشرف سوہنا آنسوئوں کے ساتھ رو پڑے: جیالوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ پارٹی پر وٹو کے رشتہ دار مسلط ہو گئے۔ خدا حافظ‘ اب میں کپتان کا پیروکار ہوں۔ پھر بولے: اللہ نہ کرے‘ وہ بھی مایوس کرے‘ پھر ملک کا کیا ہو گا؟
بتوں سے تجھ کو امیدیں‘ خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
افراد نہیں‘ اصول زندہ قوموں کے رہنما ہوتے ہیں۔ شخصیت نہیں‘ آئین پرستی ان کا شعار ہوتا ہے۔ غیر معمولی شخصیات گاہے فیصلہ کن ہو جاتی ہیں مگر وہی کہ جو خود اپنے آپ کی نفی کر سکیں۔ دیوتائوں نے کبھی کسی سماج کو کچھ نہیں دیا۔ سٹالن کا روس اور مائوزے تنگ کا چین بھوکا تھا۔ اتاترک کے سائے میں جب تک اس کا وطن رہا‘ خوشحالی تو دور کی بات ہے‘ شناخت تک سے محروم رہا۔
بھٹو فخر ایشیا تھے۔ جب تک ایوب خان کے وزیر تھے انہیں ایشیا کا ڈیگال کہا کرتے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے بعض مداح انہیں صلاح الدین ایوبی کہا کرتے۔ نواز شریف کو قائد اعظم ثانی کا لقب دیا گیا۔ کراچی میں مہاجرین کے ایک طبقے کا نعرہ یہ تھا ''منزل نہیں‘ ہمیں قائد چاہیے‘‘۔ چاند میں انہیں الطاف حسین کی تصویر نظر آتی اور کبھی درخت کے پتوں پر۔ انجام کیا ہے؟
نئی نسل کی غیر معمولی تائید کے باوجود کپتان نے نابکار ان پر مسلّط کیے۔ سوتا‘ کاتا اور اب اسے ادھیڑ رہا ہے۔ خود مانتا ہے کہ لاہور شہر میں پارٹی کے پانچ دھڑے ہیں۔ اس کے باوجود تنظیم سازی کی بجائے چند ماہ میں الیکشن چاہتا ہے۔ اللہ کے بندے تمہیں اس سے ملے گا کیا۔ ایسے میں تو پھر وہی جیتیں گے۔ بالفرض جیت بھی جائو تو وہی پختون خوا ایسی حکومت بنائو گے؟ پرویز خٹک ایسے لوگ مسلط کر دیئے گئے... شاہ محمود وزیر خارجہ‘ جہانگیر ترین وزیر داخلہ‘ علیم خان وزیر خزانہ‘ الامان والحفیظ‘ الامان والحفیظ۔
سکول اور ہسپتال ضرور کچھ بہتر ہوئے‘ پٹوار بھی لیکن کوئی یہ دعویٰ کرے کہ پختون خوا میں کرپشن نہیں تو بخدا وہ جھوٹا ہے۔ آج بھی نوکریاں بکتی ہیں۔ عمران خان کی ذاتی دیانت کو لوگ کیا کریں‘ اگر اس کے بیشتر رفیق بدعنوان ہوں۔ کیا اس پارٹی کے الیکشن میں پرلے درجے کی دھاندلی نہ ہوئی؟ کیا مرکزی دفتر میں کروڑوں روپے ہڑپ نہ کر لیے گئے؟ تسنیم نورانی کمیشن کی رپورٹ میں کیا لکھا ہے؟ کتاب پوچھتی ہے: تم وہ بات کیوں کہتے ہو‘ جو کرتے نہیں۔
تحریک انصاف کے ایک ممتاز لیڈر میرے پاس تشریف لائے۔ کہا: فلاں شہر کے لیے آرگنائزر مقرر کرنا ہے‘ مشورہ دیجیے۔ گزارش کی: اگر وہاں جا سکوں۔ ضروری معلومات حاصل کر سکوں تو عرض کروں گا۔ پندرہ دن گزرنے کے بعد انہیں مطلع کیا۔ بولے: میں شکرگزار ہوں کہ تم نے بہترین مشورہ دیا۔ وہ بڑا ہی مخلص آدمی ہے۔ اکثریت اس کی مداح ہے۔ پھر جہانگیر ترین ایک ارب پتی خاندان کے فرزند کے لیے بیچ میں کود پڑے۔ اب ایک یدھ ہے۔
اتنی سی بات کپتان کی سمجھ میں نہیں آتی کہ شاہ محمود‘ جہانگیر ترین اور پرویز خٹک سمیت سینکڑوں لیڈروں نے چھوٹے بڑے گروپ بنا رکھے ہیں۔ ملک کیا‘ پارٹی کیا‘ وہ خود اس کے بھی وفادار نہیں۔ اسی لیے دن رات خوشامد میں لگے رہتے ہیں۔ شاہ محمود اور جہانگیر ترین کے سائے میں تنظیم نو جب مکمل ہو چکے گی تو ایک منصوبہ بروئے کار آئے گا۔ ہر روز ایک ضلع سے کچھ لوگ چودھری سرور کے خلاف مظاہرہ فرمایا کریں گے‘ ہر روز ایک عدد۔ یہ مخالف گروپ کا منصوبہ ہے! ایک سازشی گروپ کا۔
عارف نے کہا: اس قوم کا حال عجیب ہے۔ لوگ یہ کہتے ہیں۔ چلو اللہ بھی تو ہے۔ ارے بھائی‘ صرف اللہ ہے۔ آخری چارۂ کار نہیں بلکہ وہی اول و آخر ہے۔ وہی قادر مطلق ہے۔ کسی نے پوچھا۔ اللہ کس طرح مل سکتا ہے۔ جواب ملا: عشروں اور برسوں میں نہیں خدا کی قسم‘ فوراً مل سکتا ہے‘ اگر تم تہیہ کر لو کہ وہ تمہاری ترجیح اول ہے ع
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
شعبدہ باز اور جعل ساز لیڈروں سے اگر نجات درکار ہے تو اپنے مالک پہ بھروسہ کرنا ہو گا اور اپنے آپ پر۔ غیرملکی امداد سے کبھی کوئی قوم تعمیر ہوئی اور نہ فقط لیڈروں پر انحصار کر کے۔ لیڈر نہ بدلے تو وہی کچھ ہوتا رہے گا جو قائد اعظم کی وفات کے بعد سے برپا ہے۔
سرکارؐ کا فرمان یہ ہے: کلّکم راعٍ و کلّکم مسئول۔ تم میں سے ہر شخص حکمران ہے اور تم میں سے ہر ایک جواب دہ۔ فرمایا: تمہارے اعمال ہی تمہارے عمّال ہیں۔