دائمی اور ابدی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ خلوص کا ایک ذرّہ بھی پروردگار ضائع ہونے نہیں دیتا۔
پاکستان کی صحافتی تاریخ پر الطاف حسن قریشی نے انمٹ نقوش چھوڑے؛ اگرچہ ماضی کا وہ شان و شکوہ باقی نہیں مگر اب بھی ان کا جریدہ اہتمام اور محبت سے پڑھا جاتا ہے۔ اس منفرد ادارے سے جو لوگ آشنا ہیں، انہیں خبر ہے کہ اس ادارے کی قوت متحرکہ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی ہیں، ان کے بڑے بھائی۔ چند سال قبل کاروانِ علم فائونڈیشن کے نام سے ایک ادارہ انہوں نے قائم کیا۔ ہزاروں مستحق طلبہ کو جس سے فیض پہنچا۔ جناب خالد ارشاد کے قلم سے یہ ان میں سے ایک کی داستان ہے۔ اختصار کے لیے میں نے اسے دوبارہ لکھا۔
''علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور کے ہاسٹل کی پہلی منزل پر بائیں ہاتھ کے کمرے میں صبح سے وہ سوچوں میں مگن ہے۔ وہ تھک گیا ہے۔ اس کی جیب میں صرف دس روپے رکھے ہیں۔ وہ اپنے مقروض باپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتا۔ مالی وسائل کی عدم دستیابی میں اپنی برسوں کی ریاضت اسے بے ثمر ہوتی نظر آرہی ہے۔
ایک دوست نے اسے کاروانِ علم فائونڈیشن کے متعلق بتایا۔ اسی دوست سے رکشے کا کرایہ لے کر سمن آباد میں وہ اس کے دفتر کی طرف روانہ ہو گیا۔ کمرے میں داخل ہوا تو وہ پسینے میں شرابور تھا۔ میں نے اسے سہارا دے کر کرسی پر بٹھا دیا۔ اس نے ٹانگوں کو سہارا دینے والی دھاتی چھڑیاں دائیں بائیں رکھیں اور کہا ''میرا نام محمد جواد بھٹی ہے۔ میں علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور میں ایم بی بی ایس سالِ اوّل کا طالب علم ہوں۔ میں ہاسٹل میں رہائش پذیر ہوں۔ والدین کے لیے میرے تعلیمی اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں۔‘‘ اسے لباس، طعام، سالانہ فیس اور ہاسٹل کا کرایہ فراہم کرنے کی نوید دی گئی۔ مسرّت کے آنسوئوں سے اس کی آنکھیں تر تھیں۔
جواد سے اپنی کہانی سنانے کی درخواست کی تو اس نے یہ کہا ''میں نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو خود کو کبھی کسی ڈاکٹر کبھی کسی حکیم کے زیرِ علاج پایا۔ گھر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کا سفر بھی میں دوسروں کی مدد کے بغیر طے نہیں کر سکتا تھا۔ سات سال کا ہوا تو والدہ نے مجھے ہاتھوں کی مدد سے رینگ رینگ کر چلنا سکھایا تھا۔ رفتہ رفتہ میں اپنے کام خود کرنے لگا۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے ٹانگوں کا کام بھی لیا۔
سرکاری سکول گھر سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ سکول لانے لے جانے کی ذمہ داری اٹھانے والا کوئی نہ تھا؛ چنانچہ مجھے ایک کلومیٹر دور شاہین ماڈل سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ والد مجھے کسی ساتھی مزدور کی سائیکل پر سکول چھوڑ آتے اور واپسی پر گھر لے آتے۔ اساتذہ اور پرنسپل میرا حوصلہ بلند نہ رکھتے تو شاید میں میٹرک بھی پاس نہ کر پاتا۔ آٹھویں کے امتحان میں امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوا اور نویں جماعت میں گورنمنٹ ہائی سکول شجاع آباد میں داخل کرا دیا گیا۔
میٹرک میں 658 نمبر آئے۔ دوستوں نے مجھے گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان میں داخل ہونے کا مشورہ دیا۔ والدین پریشان تھے کہ میں ہاسٹل میں تنہا کیسے رہوں گا۔ سوچ بچار کے بعد بالآخر دوستوں کے ہمراہ میں کالج کے قریب ایک نجی ہاسٹل میں رہائش پذیر ہو گیا۔ وہ مددگار تھے مگر میں زیادہ تر اپنے معمولات، رینگ رینگ کر خود ہی انجام دیا کرتا۔ مہینے دو مہینے بعد گھر آتا اور تمام وقت پڑھائی میں مصروف رہتا۔ میں اپنے کپڑے خود دھوتا، استری کرتا، کھانا پکاتا اور اسی طرح تمام کام خود کرتا؛ حتیٰ کہ سیڑھیاں بھی خود چڑھتا۔ جی ہاں، رینگ رینگ کر!
میرے ہم مکتب طلبہ حیران ہوا کرتے۔ میں ان سے یہ کہتا تھا کہ معاشرے میں، میں ایک مثال بن کر زندہ رہنا چاہتا ہوں۔ 2006ء میں ایف ایس سی کا نتیجہ نکلا، 1100 میں سے 830 نمبر۔ ایم بی بی ایس میں داخلے کی تیاری شروع کر دی۔ اس عرصے میں اٹھارہ گھنٹے روزانہ پڑھتا رہتا۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور میں سلیکشن بورڈ کے سامنے پیش ہوا تو مجھے کہا گیا: خواہ بیساکھیوں کے سہارے، اگر تم اپنی ٹانگوں پرکھڑے ہو جائو تو تمہیں داخلہ دے دیا جائے گا۔ آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ میں نے اپنی جہدوجہد کی کہانی سنائی مگر بورڈ کا کہنا یہ تھا: اگر تم کھڑے نہیں ہو سکتے تو مریض کا معائنہ کس طرح کیا کرو گے؟
نشتر ہسپتال ملتان میں صدر شعبہ آرتھوپیڈک پروفیسر ڈاکٹر کامران سالک کے بارے میں کسی نے بتایا۔ والد نے گائوں میں چند کنال پر مشتمل اپنا کل اثاثہ فروخت کر دیا۔ ان کے ہمراہ میں ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے نشتر ہسپتال میں میرے تمام آپریشن بلامعاوضہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مجھ سے پوچھا: کتنے ماہ بعد تمہیں ایم بی بی ایس کے داخلے کے لیے میڈیکل بور ڈ کے سامنے پیش ہونا ہے؟ میں نے انہیں بتایا ''چھ ماہ بعد‘‘۔ ڈاکٹر نے کہا: آپ کے چھ آپریشن ہوں گے۔ اتنی اذیت کیا آپ برداشت کر لیں گے؟ مسلسل چھ ماہ ہسپتال میں پڑ ارہا۔ امتحان کی تیاری بھی کرتا رہا۔ آخری آپریشن کے بعد میں گھر منتقل ہو گیا۔ ابھی تانگوں پر پلستر تھا لیکن میں شاد تھا۔
مسلسل چھ ماہ تک والد صاحب میرے ساتھ ہسپتال رہے تھے۔ زمین فروخت کر کے جو روپے حاصل ہوئے تھے، ان میں سے بیشتر خرچ ہو چکے تھے۔ میرے والد میری بہنوں کی شادی کرنا چاہتے تھے مگر میرے مستقبل کی خاطر اتنی بڑی قربانی دی۔
اسی حالت میں، داخلے کا امتحان دیا۔ نتیجہ آیا تو میرے نمبر پچھلی بار سے زیادہ تھے۔ چھ روز بعد پلستر اتر گیا اور میں دو بیساکھیوں کی مدد سے چلنے لگا۔ میں دوبارہ لاہور میں میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہوا۔ مجھے دیکھ کر وہ حیران ہوئے۔ انہوں نے پوچھا: کیا تم ایک بیساکھی کے سہارے چل سکتے ہو۔ میرا جواب نفی میں تھا۔ میڈیکل بورڈ نے کہا: تم مزید ایک ماہ لے لو اور ایک بیساکھی کے ساتھ چل کر دکھا دو، ہم تمہیں داخلہ دے دیں گے۔ میں نے آپریشن اور داخلہ امتحان تک کے مراحل کی جدوجہد کا حال بتایا مگر انہوں نے فوری طور پر مجھے داخلہ دینے سے انکار کر دیا۔
میں نے مشق شروع کر دی اور ایک ہفتے بعد ڈاکٹر سعید احمد اویس کو فون پر اطلاع دی کہ اب میں ایک بیساکھی کے سہارے چل سکتا ہوں۔ ایک ماہ بعد بورڈ کے سامنے دوبارہ پیش ہونے کو کہا گیا۔ اس بار پھر مجھ سے بے شمار سوالات کیے گئے لیکن بالآخر داخلہ دے دیا گیا۔ یہ میری زندگی کا سب سے خوبصورت دن تھا‘‘۔
ڈاکٹر کامران سالک سے پوچھا گیا ''آپ نے محمد جواد کا آپریشن کرنے کا مشکل فیصلہ کیونکر کیا‘‘ ڈاکٹر صاحب کا جواب یہ تھا: اس کی مدد کی جاتی ہے، جو اس کا طلب گار ہو۔ یہ نوجوان اپنے والد کے ساتھ میرے پاس اسی کلینک پر آیا تھا۔ رینگتا ہوا وہ میرے کمرے میں داخل ہوا۔ یہ منظر دیکھ کر میں غم زدہ ہو گیا۔ پھر اس نے مجھے اپنی کہانی سنائی۔ ٹانگوں اور کولہوں کے نہایت پیچیدہ آپریشن ہوئے مگر اصل چیز اس باہمت نوجوان کا جذبہ ہے۔ وہ عزم و ہمت کا عظیم پیکر ہے۔ اس کے جذبے نے اسے کامیاب بنایا ہے ورنہ وہ ایک اپاہج کی ز ندگی جی رہا ہوتا۔ محمد جواد بھٹی ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کر کے ان دنوں جناح ہسپتال لاہور میں خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ یہ اس سے پہلے کی کہانی ہے۔
''گاڑی لاہور کی طرف روانہ ہے۔ ریڈیو سے حمد کا مصرع روشنی بکھیر رہا ہے ''کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے‘‘۔ اگر کاروانِ علم فائونڈیشن جیسے ادارے نہ ہوں تو محمد جواد احمد بھٹی جیسے باہمت اور پُرعزم نوجوانوں کا سفر رائگاں رہے۔ مگر کیوں رائگاں رہے؟‘‘
دائمی اور ابدی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ خلوص کا ایک ذرّہ بھی پروردگار ضائع ہونے نہیں دیتا۔