"HRC" (space) message & send to 7575

ظفر آدمی اسے نہ جانیے

کامیابی برباد کرتی ہے، اگر فریب، زعم اور تکبّر میں مبتلا کرے۔ عاجزی ہی اچھی ہے‘ حقیقت پسندی ہی اچھی۔ مگر افسوس کہ اکثر لوگ غور نہیں کرتے ؎ 
ظفر آدمی اسے نہ جانیے گا، ہو وہ کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا 
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی‘ جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا 
تو ایک نیا آغاز کس طرح ممکن ہے‘ اگر ہم واقعی آرزومند ہوں؟ شاید اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کے ساتھ۔ اس کی ابتدا اپنے آپ سے کرنی چاہیے۔ نجم سیٹھی سے معافی مانگ کر کہ 35 پنکچروں کے دعوے پر اعتبار کرنے والوں میں شامل ہوں۔ جی ہاں الیکشن میں پرلے درجے کی بے قاعدگیاں ہوئیں‘ سب سے بڑھ کر دو پارٹیوں کی سازباز سے تشکیل پانے والا الیکشن کمیشن مگر 35 پنکچروں والی بات افسانہ ہی نکلی۔ Willingness to believe۔ اُن کے باب میں ہر الزام پر یقین کر لینے کی آمادگی‘ جو ہمیں ناپسند ہیں۔ خود فریبی کا عمل تاآنکہ سچائی کا سورج نصف النہار پر آ جائے... حقائق کی دھوپ میں کوئی چھتری نہ کوئی سایہ۔ 
جب ہم فقط دوسروں کی غلطیاں ہی تلاش کرتے رہیں‘ تو عیب جوئی کا یہ عمل‘ خود فریبی میں مبتلا کرتا ہے۔ کپتان نے اگر اپنی فرد عمل کا جائزہ لیا ہوتا۔ حلقہ ہائے انتخاب اور امیدواروں کے بارے میں بنیادی معلومات جمع کیے بغیر‘ فکر و نظر کے ایک خلا میں ٹکٹوں کی احمقانہ تقسیم۔ ایک پورا سال پارٹی الیکشن میں ضائع کر دیا گیا‘ جس نے بدترین کو جماعت پر مسلط کر دیا۔ انتخابی عمل کی نگرانی کے لیے دس لاکھ رضاکاروں کی فوج مرتب کرنے کا عزم۔ نتیجہ یہ کہ اسی فیصد مقامات پر پولنگ ایجنٹ ہی موجود نہ تھے۔ اپنے پچاس فیصد ووٹ کم کر لیے۔ 
اس وقت میاں محمد نواز شریف انتخابی حلقوں کا سروے کرانے میں جتے تھے۔ نوجوانوں میں کمپیوٹر بانٹ رہے تھے‘ کارگر ہونے والے امیدواروں کی تلاش میں دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ برطانیہ‘ امریکہ اور سعودی عرب کے علاوہ کاروباری طبقات کو مطمئن کرنے میں لگے تھے۔ ایک بڑے میڈیا گروپ کے علاوہ‘ درجنوں اہم اخبار نویسوں کو آسودہ کر چکے تھے۔ خان صاحب خوابوں کی دنیا میں محوِ پرواز تھے۔ خون پسینہ ایک کرنے اور حکمت عملی تشکیل دینے کی بجائے‘ جنون کو ہوا دینے اور ''سونامی‘‘ سے ڈرانے پر تلے ہوئے۔ مستقل طور پر خوف پھیلانے کی کاوش کا ارتکاب احمق ہی کیا کرتے ہیں۔ یہ وہ ہتھیار ہے، جو غیر معمولی احتیاط سے استعمال کرنا چاہئے۔ 
ایجی ٹیشن میں جتنی توانائی آنجناب نے برباد کی‘ اس کا دسواں حصہ بھی دھاندلی کے شواہد جمع کرنے پر صرف کیا ہوتا‘ تو نتیجہ تھوڑا سا مختلف ضرور ہوتا۔ پارٹی کی اگر تنظیم کی ہوتی‘ کارکنوں کی تربیت فرماتے‘ بہترین نہ سہی‘ پارٹی کے لیے موزوں لیڈر تلاش کرتے۔ سیف اللہ نیازی اب بھی ان کا سب سے بڑا معتمد ہے، یا خدا، یا خدا! 
اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کے ذمہ دار ہمیشہ ہم خود ہی ہوا کرتے ہیں۔ لیس للانسان الا ماسعیٰ۔ یہ قرآن کہتا ہے مگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم تو بالکل معصوم واقع ہوئے ہیں‘ فقط دوسرے ہی مرتکب ہوتے ہیں۔ خدا کے قانون سے ہم انحراف کرتے ہیں۔ خواب دیکھتے ہیں‘ آرزو پالتے ہیں‘ ریاضت نہیں کرتے خود احتسابی کا تو سوال ہی نہیں۔ 30 اکتوبر 2011ء عمران خان کی مقبولیت کا نقطہء عروج تھا اور زوال کا آغاز بھی... شاید یہ دن ان کی زندگی میں اب دوبارہ کبھی نہ آئے۔ یہ تاثر البتہ غلط ہے کہ ان 
سے امیدیں وابستہ کرنے والی نئی نسل اب مایوسی کے گہرے سمندر میں ڈوب جائے گی۔ اگر اپنی اصلاح عمران خان نہیں کرتے‘ اپنا انداز فکر وہ تبدیل نہیں کرتے تو دوسرا کوئی لیڈر ابھرے گا‘ دوسری کوئی جماعت... ایک در بند تو سو در کھلے ؎ 
جس سمت میں چاہے صفت سیل رواں چل 
وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا 
ایک ممتاز اور محترم خاتون رہنما‘ دیر تک جنرل صاحبان کی مذمت کرتی رہیں۔ بعض نکات ان کے درست تھے‘ بعض مفروضے۔ مودبانہ جب میں وضاحت کر چکا تو اچانک وہ بولیں: تو پھر موزوں لیڈروں کی وہ سرپرستی کیوں نہیں کرتے؟ مطلب یہ کہ ان پر عنایت کی ہو گی۔ میرے محترم دوست جاوید ہاشمی نے سال بھر طوفان میں جی کر کچھ نہیں سیکھا۔ بددعا کے انداز میں عمران خان کو انہوں نے ناکامی کی نوید دی اور شجاع پاشا کے علاوہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ پاشا صاحب تو خیر، کیا یہ جنرل کیانی تھے جن کی وجہ سے‘ کپتان نے ایک کے بعد حکمت عملی کی دوسری حماقت کا ارتکاب کیا‘ خوشامد کرنے والے مشیر چنے؟ جاوید صاحب! جنرل سے یہ ناچیز ملتا رہا۔ خدا کو حاضر ناظر جان کر وہ کہتا ہے کہ عملاً وہ کسی کے پشت پناہ تھے اور نہ مخالف۔ برسر تذکرہ یہ کہ جس جسارت سے عالی جناب نے خود کو رسوا کیا‘ کیا اس کے ذمہ دار بھی جنرل کیانی ہیں؟ نزلہ بر عضوِ ضعیف۔ جنرل کا جرم یہ ہے کہ گالی کھا کر وہ خاموش رہتا ہے۔ اگر اس نے زبان کھولنے کا فیصلہ کیا‘ تو کس تن پر لباس باقی رہے گا؟ خاطر جمع رکھیے‘ وہ بلیک میل نہیں کیا جا سکتا۔ نیب یا چھوٹی بڑی کوئی عدالت‘ سیاست دان یا میڈیا‘ کوئی بھی بروئے کار ہو‘ خیانت کا الزام اس پہ ثابت نہ ہو گا۔ ناچیز نے تحقیق کر لی ہے‘ کوئی دن میں روداد لکھے گا۔ ناخدا جن کا نہ ہو‘ ان کا خدا ہوتا ہے۔ اپنی گواہی اور تحقیق پر ناز نہیں۔ اہمیت افراد کی نہیں صداقت کی ہوتی ہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ در و دیوار بھی اس کے حق میں شہادت دیں گے۔ فرمایا: اس دنیا سے کوئی اٹھے گا نہیں‘ جب تک اس کا باطن آشکار نہ کر دیا جائے۔ اپنی فکر کیجیے جاوید ہاشمی صاحب‘ اپنی فکر! 
میاں محمد نواز شریف کے لیے مضمون واحد ہے۔ عدالتی کمیشن کی بے عیب فتح انہیں مبارک ہو۔ مگر کیا یہ فتح ان کے سب کارناموں اور سارے ماضی کو ڈھانپ سکتی ہے‘ اگر ان کا مستقبل بھی اسی انداز پر استوار ہوا؟ اگر اپنی غلطیوں کا وہ اعتراف نہیں کرتے تو کوئی دن آسودہ رہیں گے اور اس کے بعد ع 
جشنِ طرب منائیں گے کہرام کی طرح 
جو مضمون دانشور بیان نہ کر سکے‘ اسے ایک کارٹونسٹ نے آشکار کیا۔ اپنی ڈور الطاف حسین نے اس طرح الجھا لی ہے کہ تکّل اڑانا تو کجا‘ اپنی پتنگ وہ فضا میں بلند ہی نہیں کر سکتے۔ کتنی بار پارٹی سے استعفیٰ؟ کتنی بار رابطہ اور تنظیمی کمیٹی میں ردوبدل؟ کتنی بار فوج کی مخاصمت؟ کتنی بار اس سے سازباز کی خواہش؟ اب اعتبار کیا رہا؟ امکان کیا رہا؟ 
میاں محمد نواز شریف فاتح بن کر ابھرے ہیں مگر کس طرح کے فاتح؟ سیاست سے زیادہ کاروبار میں مگن ہیں‘ اولاد اور تجارت کے فروغ میں۔ دولت ان کی بیرون ملک پڑی ہے۔ بھارت کے سامنے سرنگوں ہیں۔ پالیسیوں کی تشکیل عسکری قیادت کے ہاتھ میں جا چکی۔ آج اگر سروے ہو تو جنرل راحیل شریف کے مقابلے میں شاید ایک تہائی ووٹ ہی وہ حاصل کر سکیں۔ کیا اسی کا نام کامیابی ہے؟ نون لیگ کیا اسی کا جشن منا رہی ہے؟ 
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا 
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا 
آج ایک فیصلہ عمران خان کے خلاف آیا ہے... اور اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ خوشامدیوں کے سوا کوئی انہیں خوش نہیں آتا۔ کل ایک فیصلہ میاں محمد نواز شریف کے خلاف آ سکتا ہے، منی لانڈرنگ پر۔ خفیہ کو چھوڑیے‘ اگر ان کی آشکار دولت کا میزانیہ مرتب کیا جائے تو اس کا حساب وہ کیسے دیں گے۔ دو ارب کے کل اثاثے ہیں۔ پچھلے ماہ اتفاق فائونڈری کے عوض پانچ ارب کی ادائیگی کہاں سے کی ہے‘ جناب والا؟ 
آدمی کے سب سے بڑے المیوں میں سے ایک‘ شاید وہ خود فریبی ہے‘ جس کا عمر بھر وہ شکار رہتا ہے‘ خاص طور پر کامیاب آدمی۔ تکلیف دہ ہونے کے باوجود ناکامی ایک شاندار چیز ہے‘ اس سے اگر سبق سیکھ لیا جائے۔ کامیابی برباد کرتی ہے‘ اگر فریب‘ زعم اور تکبّر میں مبتلا کرے۔ عاجزی ہی اچھی ہے‘ حقیقت پسندی ہی اچھی۔ مگر افسوس کہ اکثر لوگ غور نہیں کرتے ؎ 
ظفر آدمی اسے نہ جانیے گا، ہو وہ کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا 
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی‘ جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں