کب سے یہ ملک غیر ملکیوں کی چراگاہ بنا ہوا ہے۔ کب تک فوج تنہا ان کی مزاحمت کرے گی۔ اور سول ادارے بے نیاز رہیں گے؟ کب تک‘ آخر کب تک؟
پاکستانی تاریخ میں پہلی بار‘ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے بین الاقوامی این جی اوز کے لیے سرکاری پالیسی کا اعلان کیا ہے، مدتوں سے جو بے لگام تھیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ محض ایک خوش آئند اعلان ہے۔ قانون کب بنے گا؟ اس کے تحت ضابطے کب وجود میں آئیں گے۔ سب سے بڑھ کر ان لوگوں کا تقرر کب اور کیسے ہو گا جو یہ ذمہ داری نبھا سکیں‘ عملی طور پر جو بے حد نازک اور پیچیدہ ہے۔ دوسرا اور اتنا ہی اہم سوال یہ ہے کہ مقامی این جی اوز کے لیے کب پالیسی بنے گی‘ جن میں سے بعض اور بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ ان میں سے بعض کے منصب دار بھارتیوں سے مراسم رکھتے ہیں‘ مغربیوں سے بھی۔ انہی میں سے ایک نے پاکستان کا دورہ کرنے والے برطانوی جج سے کہا تھا : ہمارا ایجنڈا یہ ہے کہ اسلام کو پاکستان سے نکال باہر کیا جائے۔ متعلقہ جج کی تحریری شہادت موجود ہے۔ انہی میں سے ایک امریکی سفارت خانے کا باقاعدہ ملازم رہا۔ ''بلیک واٹر ‘‘ نے خطرناک سرگرمیوں کا آغاز کیا تو وہ واحد شخص تھا‘ جس نے اس کی مدافعت کی ‘ غصے اور غم سے بھرا ہوا۔ ایک جارحانہ انداز کے ساتھ اپنے آپ کو مد ّتوں‘ وہ ایک آزاد منش آدمی کے طور پر یہ پیش کرتا رہا۔ آٹھ برس ہوتے ہیں جب شوکت خانم ہسپتال کے لیے امریکہ سے کچھ مشینری بھیجی گئی۔ اسلام آباد میں انکل سام کے سفارت خانے سے رابطہ ہوا تو جواب میں انہوں نے لکھا: آپ ہمارے سکیورٹی ایڈوائزر فلاںبھائی سے رابطہ کریں۔ عمران خان کے ذاتی دوست راشد خان کے پاس یہ خط محفوظ ہے۔ انہی لوگوں میں سے ایک وہ ہے‘ جس نے انگریزی اخبار میں لکھا کہ آغاز ہی سے مسلمان علم دشمن واقع ہوئے ہیں۔ سیّدنا عمر فاروق اعظم کے دور میںانہوںنے سکندریہ کی عظیم لائبریری تباہ کر دی تھی۔ بہت دن میں تلاش و تحقیق میں لگا رہا۔ آخر کار معلوم یہ ہوا کہ سوا سو سال پہلے‘ یہ افسانہ ایک پادری نے تراشا تھا۔ مولانا شبلی نعمانی نے تفصیل کے ساتھ اس کا جواب لکھا۔ دلائل مضبوط تھے۔ ان کا موقف تسلیم کر لیا گیا اور اس کے ساتھ ہی بحث ختم ہو گئی۔ بعد میں یہ الزام کبھی نہ دہرایا گیا۔ ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد اس نام نہاد دانشور کو کیا سوجھی اور کیوں سوجھی؟
مسلسل اور متواتر یہ لوگ بھارت اور دوسرے ممالک کے دورے کرتے ہیں۔ خوشدلی اور اہتمام سے‘ جہاں ان کی میزبانی کی جاتی ہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف پیہم وہ پروپیگنڈہ کرتے رہے تاآنکہ ایسا کرنا مشکل ہو گیا۔ پاکستانی فوج ان کا سب سے بڑا ہدف ہے۔ بظاہر دہشت گردی کی وہ مذمت کرتے ہیں مگر پاک فوج ہی کو وہ اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، تخریب کاروں کا میدان جنگ میں جس نے سامنا کیا اور ہزاروں زندگیاں قربان کیں۔ بھارت کو کبھی نہیں‘ اس کے زیر اثر راہ گم کردہ ''نظریاتی‘‘ گروپوں کوبھی نہیں۔ ''را‘‘ کے اہتمام سے تخریب کاری کی تربیت حاصل کرنے والوں اور بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی کبھی وہ مذمت نہیں کرتے۔ بلوچستان پہ ان کی مہم دو عشروں سے جاری ہے ۔ اس کے لیے بھی وہ عسکری قیادت ہی کو بدنام کرتے ہیں‘ علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی اور کشمیریوں کا قتل عام کرنے والے بھارت کی سہولت کے لیے ۔اس مہم کا بنیادی مقصد دہلی کو یہ موقع فراہم کرناہے کہ کشمیر کی بجائے‘ پاکستان کو کراچی اور بلوچستان کی فکر لاحق ہو۔ ان میں سے بعض تنظیموں نے بلوچستان کے دور دراز ساحلی قصبات میں اپنے دفاتر قائم کر رکھے ہیں‘ بظاہر جاسوسی کے سوا ان کا کوئی مقصد نہیں۔ چند ماہ قبل خفیہ ایجنسیوں نے نگرانی کا سلسلہ شروع کیا ۔ جلد ہی کچھ انکشافات کی امید کی جاسکتی ہے۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ ملک بھر میں ''را‘‘ کے ایجنٹوں اور دہشت گردوں سے الجھی ہوئی قیادت کیا ان کے خلاف اقدام کر سکے گی، جن کا شمار معززین میں ہوتا ہے۔ جن کے خلاف کارروائی ایک سیاسی مسئلہ ہو گی۔
پاکستانی سب سے زیادہ عطیّات دینے والی قوم ہے۔ باقی دنیا کے مقابلے میں اوسطاً دوگنا۔ جمعہ کے انگریزی اخبار میں معروف فلاحی ادارے اخوت کا اشتہار چھپا ہے۔ عالمی معیار کی مفت سائنسی تعلیم کے لیے ایک یونیورسٹی کا قیام۔آٹھ لاکھ پاکستانیوں کو غیر سودی قرضے دے کر وہ برسر روزگار کر چکی۔ کسی بھی پیمانے سے یہ کارنامہ بنگلہ دیش کے گرامین بنک سے بڑا ہے‘ جس کے بانی کو نوبل پرائز دیا گیا ۔ شہرہ آفاق ایدھی فائونڈیشن۔ دنیا بھر میں پاکستان کا سر فخر سے بلند کرنے والا شوکت خانم ہسپتال ‘ تعمیر ملت فائونڈیشن ‘غزالی فائونڈیشن ‘ چھیپا... کتنے ہی نام ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا کردار مثالی ہے۔ ڈاکٹرادیب رضوی کا ادارہ ۔ کراچی کا صرف ایک مخیر آدمی روزانہ ڈیڑھ لاکھ احتیاج مندوں کو بہترین کھانا مفت مہیا کرتا ہے۔ لاہور کے تقریباً تمام بڑے ہسپتالوں میں ایسے لوگ یہ اہتمام کرتے ہیں جو اپنا ذکر پسند نہیں کرتے۔
انسانیت کی مثالی خدمات انجام دینے والے انسانوں کا چرچا کوئی نہیں کرتا۔ بھاڑے کے ان اداروں سے ہم کوئی بڑی امید وابستہ کر سکتے ہیں؟ وہ بلوچستان کا مسئلہ اجاگر کرنے میں لگے رہتے ہیں کہ عالمی مداخلت کی راہ ہموار کی جا سکے۔ نسلی اورلسانی اختلافات کو وہ ہوا دیتے ہیں اور صوبوں کے اختلافات بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں؟
''راہ محبت میں سب سے پہلا قدم ہی شہادت کا قدم ہوتا ہے‘‘ ہمارے عہد کے عارف نے کہا تھا۔ چوہدری نثار کے اقدام کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ بعض موثر سرکاری شخصیات ان کی حوصلہ شکنی کرتی رہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان کے عزائم متشکل ہو پائیں گے؟ اقوام متحدہ کے ہم پابند ہیں کہ بعض بین الاقوامی این جی اوز کو کام کرنے کی اجازت دیں۔ یہ ایک بہت ہی نازک معاملہ ہے۔ دنیا سے الگ تھلگ ہو کرہم فروغ نہیں پا سکتے ۔ متعلقہ قانون کی اسمبلی سے منظوری کے بعد نگرانی اورضابطے نافذ کرنے کے لیے ایسا ادارہ تشکیل دینا ہو گا‘ جس میں ترقیاتی معیشت (Development Economy)کے ماہرین شامل ہوں۔ معاملے کی نزاکت سے جو آشنا ہوں ۔قانون وہ نافذ کر یں لیکن غیر ضروری رکاوٹیں کھڑی نہ کریں ۔
بھارت اور روس میں بھی این جی اوز قائم ہیں۔ روس میں انہیں غیر ملکی ادارے (Forgion agents)کہا جاتا ہے۔ بھارت میں سختی سے ان کی نگرانی کی جاتی ہے۔ عسکری ماہرین اور خفیہ ایجنسیوں نے جنرل پرویز مشرف کو یہی مشورہ دیا تھا۔ مگر فوجی حکمرانی کو عالمی برادری کے سامنے خود کو ایک معقول حکمران کے طور پر اجاگر کرنے کی فکر لاحق تھی۔ پیپلز پارٹی کا زمانہ اور بھی بدتر تھا ‘ حسین حقانی ایسے لوگ جب پالیسیوں پر اثر انداز ہونے لگے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اخبار نویسوں نے این جی اوز ہی نہیں تھنک ٹینک بھی بنائے ۔ انہی میں سے ایک اخبار نویس اب پیمرا کی سربراہی کے آرزو مند ہیں۔ جارج سوراس کے وہ کام کرتے ہیں‘ جس نے ملائشیا کی معیشت برباد کرنے کی کوشش کی تھی۔ ٹیلی ویژن پر وہ سرکاری پالیسیوں کا دفاع کرتے ہیں۔ دو سال پیشتر نیو یارک میں جارج سوراس سے وزیر اعظم کی ملاقات انہی کے ایما پر ہوئی تھی۔ ایسے میڈیا گروپ ملک میں موجود ہیں‘ جنہوں نے این جی اوز بنا رکھی ہیں اور ان کے لیے غیر ملکی امداد وصول فرماتے ہیں۔ یہ رقم اشتہارات پر لٹا دی جاتی ہے۔ بین الاقوامی این جی اوز کے لیے جو ادارہ قائم کیا جائے‘ ان میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذمہ دار افسر شامل ہونے چاہئیں، تاہم بیرون ملک ان کی تربیت کا اہتمام کیا جائے ۔
ایسی این جی اوز بھی ہیں، مشکوک غیر ملکیو ں کے لیے جو ویزے حاصل کرتی رہیں۔ مذہبی اقدار کی جو تضحیک کرتی ہیں۔ صوبوں میں پانی کی تقسیم ایسے اختلافات کو سنگین تنازعوں میں ڈھالنے کے لیے جن کے کارندے بروئے کار آتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں وہ پیش پیش رہے۔ پانی ذخیرہ کرنے‘ سیلاب سے حفاظت اور پن بجلی پیدا کرنے کے لیے جو ایک شاندار منصوبہ تھا۔ اردو کا محاورہ یہ ہے کہ منہ کھائے اور آنکھ شرمائے۔
کب سے یہ ملک غیر ملکیوں کی چراگاہ بنا ہوا ہے۔ کب تک فوج تنہا ان کی مزاحمت کرے گی۔ اور سول ادارے بے نیاز رہیں گے؟ کب تک ‘آخر کب تک؟