مطلع پر طوفان کے آثار ہیں۔ کارِ دیگر میں مصروف حکمران مگر بے نیاز ہیں اور شعبدہ بازیوں میں مگن۔ کاش کوئی انہیں بتا سکتا‘ کاش کوئی انہیں سمجھا سکتا۔
دو تین گھنٹے کی مشق کے بعد آخرکار اب میں ایک سوال سے الجھ رہا ہوں کہ ہم اپنی توانائی کن چیزوں میں برباد کرتے ہیں۔ ملک تاریخ کے ایک نازک موڑ پہ کھڑا ہے۔ ہم اخبار نویسوں کا موضوع یہ ہے کہ عمران خان اور ان کی بیگم میں کیا جدائی ہونے والی ہے۔
دفتر سے فون آیا کہ واقعہ شاید رونما ہو چکا‘ تصدیق کرکے اطلاع دو۔ بار بار کوشش کی مگر اس کا موبائل خاموش تھا۔ اتنے میں بتایا گیا کہ حادثہ جمعرات کو ہوا اور یہ کہ اسد عمر اور جہانگیر ترین موقع پر موجود تھے۔ دونوں مصروف آدمی۔ دونوں نے سن کر نہ دیا۔ خیال آیا کہ خدانخواستہ ایسا اگر ہو چکا تو بیچارہ علیم خان تو مارا گیا۔ دونوں کے لیے پیغام چھوڑا۔ اب عمران خان کے گھریلو ملازمین کے نمبر تلاش کرنا شروع کیے۔ موبائل سیٹ کچھ دن قبل جل گیا اور بہت سا ڈیٹا ضائع ہو چکا تھا؛ چنانچہ ایک بھی مل نہ سکا۔ اتنے میں عون محمد یاد آئے۔ بولے‘ میں دفتر میں ہوں‘ خان گھر پہ ہے اور ورزش میں مصروف۔ فارغ ہو تو آپ کی بات کرائوں۔ اب تک میرا صبر جواب دے چکا تھا۔ اصرار کے ساتھ میں نے کہا: بھاگ کر جائو اور کہو کہ مجھ سے بات کرے۔ ہانپتا ہوا بیچارہ واپس آیا اور کہا خان بگڑ رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سفید جھوٹ ہے، خود تمہی نے وضاحت کر دی ہوتی۔ اتنے میں اسد عمر کا فون آ گیا۔ کیسی اچھی بات کہی: اس طرح کی چیزیں میں کرید نہیں سکتا۔ قیاس اور گمان کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ میاں بیوی میں بحث ہوئی ہو گی‘ جو اکثر گھروں میں ہوا کرتی ہے۔ خبر میرے پاس کوئی نہیں۔ عرض کیا۔ حضور! اپنا حال بھی یہی
ہے۔ بہترین اور بے تکلف دوستوں کے ساتھ بھی ان کے گھریلو معاملات پر کبھی بات نہیں کی۔ اخبار نویس کی مجبوری یہ ہے کہ سوال کا جواب دینا ہے۔ کچھ دیر میں خان کا پیغام ملا: طلاق کا دعویٰ محض بکواس ہے‘ ہرگز ہرگز ایسی کوئی بات نہیں‘ تم سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر تمہارا فون مصروف ہے۔ بار دگر اب میں‘ مہم میں مصروف ہو گیا‘ بنی گالا میں مگر سگنل اکثر کمزور ہوتے ہیں۔ بالآخر بات ہوئی۔ وہ حیران تھا کہ ماجرا کیا ہے۔ تین دن پہلے ایک معروف ٹی وی چینل کے ساتھ طویل انٹرویو میں اس نے کہا تھا: کون سا گھر ہے‘ میاں بیوی میں کبھی کبھار جہاں بحث مباحثہ برپا نہ ہوتا ہو۔ بس‘ اتنی سی بات ہے۔ اخبار نویس اگر پر سے کوّا بنا لیں تو وہ کیا کرے۔ اگرچہ دل چاہتا نہ تھا مگر میں نے بے تکلفی کا مظاہرہ کیا اور کچھ سوالات دریافت کیے۔ خاندان سے متعلق کچھ ضروری اور کچھ غیر ضروری تفصیلات۔ اسی رسان کے ساتھ‘ جو ہمیشہ ہمارے درمیان کارفرما رہی‘ بلا تامّل ہر چیز کی اس نے وضاحت کر دی۔ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا۔
کپتان نے شادی کا فیصلہ کیا تو خاندان کے بعض افراد کو اختلاف تھا۔ اس نے کہا: وقت گزرنے کے ساتھ بتدریج اور بھی بہتری آتی چلی جائے گی۔ تلخی بہرحال کبھی نہیں ہوئی اور طلاق کا تو سوال ہی نہیں۔ میں نے اندازہ لگایا کہ توانائی سے بھرپور میاں بیوی میں مباحثہ جاری رہتا ہے۔ ریحام خان کی آرزو غالباً یہ ہو گی کہ میاں کی سرگرمیوں میں اس کا ہاتھ بٹائے۔ خان اب ضرورت سے زیادہ محتاط ہے کہ اخبار نویس بال کی کھال اتارتے اور اعتراض اٹھانے والے زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔ اس کی ترجیح چنانچہ یہ ہے کہ بیگم پارٹی اور سیاست سے الگ تھلگ رہیں۔ گمان یہ بھی ہے کہ جو بحث برپا رہتی ہے‘ میاں بیوی میں سے کوئی ایک اپنے کسی ذاتی دوست سے اس پر تبادلہ خیال کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مشورہ کرنے کی غرض سے۔ اس ذریعے تک بعض اخبار نویسوںکی رسائی ہے؛ چنانچہ وہ دُم سے ہاتھی بناتے ہیں۔
سامنے کا سوال یہ ہے کہ کیا نجی معاملات میں اس طرح کی مداخلت روا ہے؟ واضح طور پر اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ کسی لیڈر کے ذاتی معاملات‘ اگر قومی زندگی پہ اثر انداز نہ ہوں تو ان کے ذکر سے گریز ہی اولیٰ اور افضل ہے۔ میدانِ صحافت کے شہسواروں کو یہ بات مگر کون سمجھائے؟
اب حلقہ 122 پر بات ہونے لگی۔ عرض کیا: علیم خان کی پوزیشن اب بہت بہتر ہو چکی۔ تحریک انصاف کے کارکنوں‘ خاص طور پر خواتین نے کمال کر دکھایا ہے۔ ووٹروں کی اکثریت سے وہ گھروں پہ جا کر ملے ہیں۔ کم از کم 80 فیصد سے ذاتی طور پر رابطہ کیا گیا۔ علیم خان نے مجھے بتایا کہ ہزاروں لوگوں سے خود اس نے ملاقات کی۔ مقابلہ اگرچہ ربع صدی کا تجربہ رکھنے والے شریف خاندان سے ہے مگر تحریک انصاف کے امیدوار کی مہم بدرجہا بہتر نظر آتی ہے۔ ایاز صادق کا رنگ زرد ہے اور اس کا اعتماد رخصت ہو چکا۔ اسی کمزوری نے وزیر اعظم کو کسان پیکیج جاری کرنے پر آمادہ کیا‘ تاہم الیکشن کمیشن نے بعض شقوں پر عمل درآمد روک دیا۔ شریف خاندان مگر اس ہنر میں یکتا ہے۔ خادم اعلیٰ پنجاب نے موقع پا کر غریب طلبہ کے وظائف دو ارب سے بڑھا کر چار ارب کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ کسانوں اور طالب علموں سے ایسی ہی شدید ہمدردی تھی تو بجٹ سے امداد کی ہوتی۔ کب سے کسان فریاد کر رہے تھے‘ کسی نے ان کی بات تک نہ سنی۔ طالب علم بھی عین اس وقت یاد آئے۔ توانائی پر بریفنگ کے لیے ٹی وی میزبانوں کو بھی انہی دنوں یاد فرمایا گیا۔
اس بریفنگ کا مقصد نیپرا کی سالانہ رپورٹ کا تاثر زائل کرنا تھا۔ پانی و بجلی کے وفاقی سیکرٹری یونس ڈاگہ کا اعتراض یہ ہے کہ نیپرا نے وزارت کو اعتماد میں لیا ہوتا۔ رپورٹ میں اخذ کردہ نتائج کو انہوں نے سطحی اور غیر تسلی بخش قرار دینے کی کوشش کی۔ ادارے کے سربراہ طارق سدوزئی نے ڈنکے کی چوٹ پر آج ان اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے نیپرا کی رپورٹ ان کے بہترین ماہرین کی طویل ریاضت کا ثمر ہے۔ ایک ایک چیز کا میدان میں جا کر انہوں نے جائزہ لیا ہے۔ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ نیپرا نے وزارت کے باب میں دو نتائج اخذ کیے ہیں۔ اول یہ کہ لوڈ شیڈنگ جعلی ہے۔ بہت سی مشینیں خراب پڑی ہیں۔ بنیادی سبب بدانتظامی ہے۔ حکومت کو پروا ہی نہیں۔ توانائی کا بحران ختم کرنے میں حکمران اگر سنجیدہ ہوتے تو خواجہ آصف پر پہلے‘ عابد شیر علی اور پھر جناب شہباز شریف کو لاد نہ دیا جاتا۔ حماقت کی حد ہے کہ باغبانی کے ایک ماہر کو ایسے اہم منصوبے کا سربراہ بنا دیا گیا۔ عالی جناب کا حال یہ ہے کہ نازک اور پیچیدہ مشینوں سے نمٹنے کے لیے کسی بڑے انجینئر کو بھجوانے کی بجائے تربیت حاصل کرنے کے لیے ذاتی طور پر امریکہ تشریف لے گئے۔ جن انجینئرز نے تربیت پائی‘ ان سے کام لینے کی بجائے پورے کا پورا منصوبہ اب چین کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ قبل ازیں کچھ دوسرے ممالک کو سونپنے پر غور ہوتا رہا۔ اس پر بھی سوچ بچار ہے کہ نندی پور پروجیکٹ سے جان چھڑا لی جائے۔ بیچ ڈالا جائے۔ رپورٹ کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ 70 فیصد بل جعلی یا مبالغہ آمیز ہیں۔ معافی مانگنے اور اپنی اصلاح کرنے کی بجائے‘ وضاحت طلب کی جا رہی ہے۔
ایوان وزیر اعظم میں قائم محترمہ کلثوم نواز کے دفتر نے اس بریفنگ کا اہتمام کیا جو بے نتیجہ رہی۔ بنیادی سوالات زیر بحث ہی نہ آ سکے۔ قائد اعظم سولر پارک سے اگر 18 میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے تو سو میگاواٹ کا دعویٰ کیوں ہوا؟ نندی پور کے اخراجات اگر 49 ارب ہیں تو نرخوں کا تعین کرنے کے لیے نیپرا کو دی گئی درخواست میں 81 ارب کیوں بتائے گئے؟ درآمد کی جانے والی ایل این جی گیس کے نرخوں سے قوم کو کیوں مطلع نہیں کیا جا رہا؟ جناح ہائیڈرو پروجیکٹ پر نیپرا کے اعتراض کا جواب کیا ہے؟
این اے 122 میں تحریک انصاف دھاندلی روکنے میں اگر کامیاب رہی‘ اگر اس کے کارکن ذاتی گاڑیوں میں ووٹروں کو پولنگ سٹیشنوں پر پہنچا سکے تو بساط الٹ جائے گی۔
مطلع پر طوفان کے آثار ہیں۔ کارِ دیگر میں مصروف حکمران مگر بے نیاز ہیں اور شعبدہ بازیوں میں مگن، کاش کوئی انہیں بتا سکتا۔ کاش کوئی انہیں سمجھا سکتا۔