"HRC" (space) message & send to 7575

حیران کن

میڈیا نے البتہ حیرت زدہ کر دیا۔ ایاز صادق کی خیرہ کن کامیابی کے ساتھ 21 ہزار مشکوک ووٹوں کا ذکر کیوں نہیں؟ کیا وہ سب ہوشمند ہیں اور میں ہی بیگانہ؟ کیا اب مجھے پیشۂ صحافت سے دستبردار ہو جانا چاہیے؟ 
کیا دوسری بار ایاز صادق کے انتخاب نے، جو قومی اسمبلی کے مشکوک ممبر ہیں، 9 نومبر کو پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کے بدترین دنوں میں سے ایک نہیں بنا دیا؟ تحریکِ انصاف کے سوا ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں نے بے دلی یا پسِ پردہ مفاہمت کے نتیجے میں ان کی حمایت کی۔ قاف لیگ کا شمار اب قابلِ اعتماد اپوزیشن پارٹیوں میں نہیں کیا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں پہلے ہی مفاہمت ہے۔ پنجاب اور مرکز میں نواز شریف جو چاہیں کریں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی انڈا دے، بچّہ یا بانجھ بیٹھی رہے، نواز شریف کو ہرگز کوئی اعتراض نہیں۔ دہشت گردی پر عسکری قیادت کو ذرا سا مطمئن رکھنا ہوتا ہے۔ ایم کیو ایم کی ترجیحات مقامی ہیں یا الطاف حسین سے متعلق سراسر ذاتی۔ وزیرِ اعظم نواز شریف اور سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی ذاتی درخواست کے باوجود برطانوی حکومت الطاف حسین کی سرپرستی پر آمادہ ہے۔ سب سے زیادہ خسارے کا سودا جماعتِ اسلامی نے کیا ہے۔ نتائج بھگتنے کا وقت آئے گا تو اس کے رہنما ایک بار پھر ہاتھ ملیں گے۔ مستقل طور پر اب ان کا یہی مشغلہ ہے۔ مصلحت آمیزی کی دلدل سے اوپر اٹھنے کا ولولہ جب ختم ہو جائے تو موت ہی کسی گروہ کا مقدر ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آخر کار وہ سماجی تنظیم رہ جائے گی، ایدھی فائونڈیشن کی طرح!
پرواز چار گھنٹے کی تاخیر سے روانہ ہوئی۔ خوبصورتی سے سنوارے گئے بالوں والا ایک شخص گم سم سا بیٹھا تھا۔ شاید کسی 
کتاب کے مطالعے میں محو۔ میں نے سوچا: اگر اس آدمی کی خواہش ہوتی تو فلم اور ٹی وی کی دنیا میں جگمگاتا۔ پھر خود اپنے خیال میں منہمک ہو گیا۔ تین دن سے جس نے مجھے حیران کر رکھا تھا۔ عمران خان کے پیش کردہ اعداد و شمار اگر یکسر جھوٹ نہیں تو میرا تجزیہ دوسرے لوگوں سے اتنا مختلف کیوں ہے؟ دوسری صورت یہ ہے کہ مزاحمت کرنے والے معاشرے کے فعال طبقات اب تکان کا شکار ہیں، جس طرح آخر کار ہو جایا کرتے ہیں، جس کے بعد ایک نئے عہد کا آغاز ہو تا ہے۔ 
جہاندیدہ سینیٹر کامل علی آغا کو کریدنے کی کوشش کہ قاف لیگی فیصلے کے عوامل کیا ہیں۔ وہ پھوٹ کر نہ دیے۔ الٹا یہ کہا: ہم تو ایاز صادق کو ووٹ دے ہی نہیں رہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ذاتی طور پر چوہدری پرویز الٰہی نے ووٹ ڈالنے سے گریز کیا ہے۔ پھر ان سے پوچھا کہ الیکشن میں دھاندلی کے کارگر طریقے کون کون سے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نئے ووٹوں کا اندراج اور پولنگ سکیم میں آخری وقت پر تبدیلی۔ یہ دونوں کام الیکشن کمیشن کے افسر انجام دیتے ہیں۔ بتایا کہ لاہور کے الیکشن کمیشن میں ایسے افسر موجود ہیں، جو نقد ادائیگی پر کوئی بھی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ ایسے دو افسروں کے نام بھی انہوں نے بتائے۔
اتنے میں جہاز رکا اور وجیہہ آدمی اٹھ کھڑا ہوا۔ ارے یہ تو اپنے اعتزاز احسن ہیں۔ موقعہ غنیمت تھا۔ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے میں ان کی طرف لپکا، جو پیہم پریشان کیے ہوئے تھا۔ کیا یہ بات درست ہے کہ 21 ہزار ووٹ دوسرے حلقوں سے این اے 122 منتقل کیے گئے؟ ''بالکل‘‘ انہوں نے کہا‘ اور ہمیشہ کی طرح اپنی اکسا دینے والی ہنسی ہنسے۔ پھر بولے: ''علیم خان میرے پاس آئے تھے۔ معاملے پر میں نے غور کیا ہے اور کاغذات کا پوری طرح سے جائزہ لیا ہے‘‘ عمران خان کے بیان کردہ نکات کی انہوں نے تائید کی۔ وہ یہ ہیں۔ اوّل 21ہزار ووٹ این اے 122 میں لا ڈالے گئے۔ ان میں سے اکثر کا تعلق لاہور سے ہے اور ان میں سے 80 فیصد نے پولنگ میں حصہ لیا۔ ثانیاً، یہ سب کچھ الیکشن کمیشن کے افسروں اور نادرا کی شمولیت سے ہوا۔ ''لکھو‘‘ اعتزاز احسن نے کہا: ''میرا نام لے کر لکھو کہ نادرا اس کا ذمہ دار ہے اور اس نے ہولناک خیانت کی ہے‘‘ پھر ایک کامیاب وکیل کی طرح، اپنے موقف پر جسے یقین ہو، انہوں نے اپنی نگاہیں میرے چہرے پر گاڑ دیں اور اضافہ کیا ''اس خیانت کی المناک نوعیت کا ادراک ابھی قوم کو نہیں۔ 20 کروڑ لوگوں کا ڈیٹا‘ اس ادارے کے پاس غیر محفوظ ہے۔ نام، دستخط، انگوٹھوں کے نشان، جائے رہائش، ان کے پتے، ان کی اولادیں اور ان کے فرائض کی نوعیت۔ نادرا اگر فریب دہی پر تل جائے تو دشمن کو پاکستان پر حملہ کرنے کی ضرورت نہ رہے گی۔ اپنے دستخطوں اور انگوٹھوں کی تصدیق کے لیے ہم فقط انہی پر انحصار کرتے ہیں... اور انہوں نے یہ گل کھلایا ہے‘‘۔
میری سمجھ میں یہ بات کبھی نہ آ سکی کہ ایاز صادق عمران خان کو شکست کیسے دے سکتے ہیں۔ 2002ء اور 2008ء میں انہوں نے قاف لیگ کو ہرایا تھا، جو شہر کے اکثر انتخابی حلقوںمیں کھیت رہی تھی۔ وسائل کے باوجود تحریکِ انصاف کی ناقص انتخابی مہم اور سرکاری سرپرستی کے وسیع اور عمیق جال کے بل پر ممکن ہے، وہ ظفر مند ہی رہے ہوں؟ اب کھلا کہ یہ سراسر فریب دہی کی ایک واردات ہے۔ ووٹوں کی تبدیلی ایسی مسلّمہ حقیقت ہے کہ اب تک الیکشن کمیشن، نادرا، نون لیگ، ایاز صادق اور سرکاری اخبار نویسوں میں سے کسی ایک نے بھی تردید نہیں کی۔ 
عمران خان سے کہا گیا تھا کہ وہ بائیکاٹ کر دیں۔ نون لیگ سے ضمنی الیکشن نہیں جیتا جا سکتا۔ الیکشن سے چند روز قبل انہوں نے کہا تھا: کوئی پاگل ہی ایسے مقابلے پر آمادہ ہو گا۔ پھر دوسروں کے علاوہ شفقت محمود اور شاہ محمود قریشی نے انہیں قائل کر لیا۔ اوّل الذکر انتخابی سیاست کی حرکیات کا شناور نہیں۔ دوسرے کے بارے میں کہا نہیں جا سکتا کہ وہ اپنے فیصلے کس بنیاد پہ صادر کرتا ہے۔ 
عمران خان اب لودھراں کے الیکشن میں کیوں جا کودے ہیں؟ پچاس ہزار ووٹ دوسرے حلقوں سے اڑا لائے گئے ہیں۔ کیا وہ ایک اور عبرتناک شکست کے آرزومند ہیں؟ پارٹی کے ایک رہنما سے میں نے پوچھا تو اس کا جواب یہ تھا: میں نے انہیں بائیکاٹ پر قائل کرنے کی کوشش کی۔ عرض کیا کہ قومی سطح پر اس سے آپ کا موقف کمزور ہو گا‘ مگر شاہ محمود اور نعیم الحق نے انہیں قائل کر لیا۔ لیجیے وہی شاہ محمود اور وہی ایک سادہ لوح۔ 
جون 2013ء میں تین تلوار چوک کراچی میں تحریکِ انصاف کی احتجاجی ریلی میں فائرنگ کرنے و الے دو نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان کی جیبوں سے تحریکِ انصاف کے ممبرشپ کارڈ برآمد ہوئے۔ دراصل ان کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا۔ ہوائی فائرنگ کر کے وہ پولیس کو دھاوا بولنے کی ترغیب دے رہے تھے۔ پولیس کی بجائے وہ رینجرز کے ہتھے چڑھ گئے۔ اس وقت عرض کیا تھا کہ ان کے نام معلوم کیے جا سکتے ہیں۔ یاللعجب کسی نے مجھ سے رابطہ نہ کیا۔ ملک کی سب سے کم حیثیت پارٹی بھی شاید ایسا نہ کرتی۔ تحریکِ انصاف سب کچھ گوارا کر سکتی ہے؛ حتٰی کہ شاہ محمود کی قیادت اور سیف اللہ نیازی کا تسلّط بھی۔ ان کا بس چلے تو ڈھنگ کے کسی آدمی کو عمران خان کے پاس نہ پھٹکنے دیں۔
تحریکِ انصاف کی حماقت پر مجھے کوئی تعجب نہیں۔ ہمیشہ اس طر ح کا کوئی کارنامہ انجام دینے پر وہ مائل رہتی ہے۔ میڈیا نے البتہ حیرت زدہ کر دیا۔ ایاز صادق کی خیرہ کن کامیابی کے ساتھ 21 ہزار مشکوک ووٹوں کا ذکر کیوں نہیں؟ کیا وہ سب ہوشمند ہیں اور میں ہی بیگانہ؟ کیا اب مجھے پیشۂ صحافت سے دستبردار ہو جانا چاہیے؟ 
پسِ تحریر: وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا اصرار ہے کہ نادرا نہیں، یہ الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ تو اس سے چھٹکارا کیوں نہیں پایا جاتا؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں