اللہ کے پاک بندے کبھی رسوا نہیں ہوتے۔ اور جھوٹ کبھی پنپتا نہیں۔ جس نے جو بویا‘ وہ اسے کاٹنا ہے۔ جو کانٹے کاشت کرے گا، وہ کیا فصل گھر لے جائے گا۔
راولپنڈی سے گوجر خان جاتے ہوئے، بری طرح وہ تکان کا شکار تھے۔ بات سنتے سنتے سو گئے۔ چند منٹ کے بعد آنکھیں کھولیں تو عرض کیا: کیا آپ اپنے ساتھ زیادتی نہیں کر رہے کہ اس قدر خود کو تھکا دیتے ہیں۔ ''اب یہی میرا طرز زندگی ہے‘‘ انہوں نے کہا ''اور میں اس کے ساتھ آسودہ ہوں‘‘۔ آواز میں وہی دائمی اطمینان تھا اور وہی عزم و استقلال جو گونجتا گرجتا کبھی نہیں مگر برقرار ہمیشہ رہتا ہے۔
پروفیسر احمد رفیق اختر ایک حیران کن آدمی ہیں۔ میں ان کے سوا کسی دوسرے شخص کو نہیں جانتا‘ جو اس قدر اطمینان خاطر رکھتا ہو، اداسی اور غم جسے چھو کر نہیں گزرتا۔ اپنے آپ پر کبھی ترس نہیں آتا۔ غصہ تو کیا‘ لہجے میں کبھی ناراضی اور کوفت بھی پیدا نہیں ہوتی۔ صدمے کا وہ کبھی شکار نہیں ہوتے۔ ان کی زندگی میں مایوسی کا کوئی لمحہ نہیں آتا اور وہ کبھی کسی پر برہم نہیں ہوتے، حتیٰ کہ ان پر بھی جو چیخ چیخ کر اعتراض کریں یا الزام لگائیں۔ میرا ہی نہیں، یہ ان کے سب جاننے والوں کا مشاہدہ ہے۔ بحث کا وہ ہمیشہ خیر مقدم کرتے ہیں اور ان کی آواز کبھی بلند نہیں ہوتی۔ خطاب میں بھی نہیں، جو اکثر تین چار گھنٹے جاری رہتا ہے۔ اس کے سوا کہ کسی کو ضروری کام ہو، لوگ ان کی محفل سے اٹھ کر نہیں جاتے۔ دلیل کے بغیر وہ کبھی بات نہیں کرتے۔ تصحیح کی جائے تو اسے قبول کرتے ہیں۔ کج بحثی سے ہمیشہ گریزاں اور مباحثہ کرنے والوں کے ساتھ ہمیشہ نرم خو۔ ان کی 55 سالہ عملی زندگی میں گنتی کے چند لوگ ہی آئے، جن سے انہوں نے فاصلہ پیدا کیا۔ اگر ان میں سے بھی کوئی چلا
آئے تو اس کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں۔ طعنہ کبھی نہیں دیتے، مذاق کبھی نہیں اڑاتے، تضحیک کا تو سوال ہی نہیں۔ اس کے باوجود وہ پوری بات کہتے ہیں اور تجزیے میں ذرا سے انحراف پر بھی آمادہ نہیں ہوتے۔ کبھی کوئی ناخوش نہیں اٹھتا کہ اخلاق اور نرمی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اعلیٰ سرکاری افسر، دانشور، جنرل اور جج حضرات کی ایک بڑی تعداد ان کی خدمت میں حاضر ہوتی ہے۔ وہ ان سے کبھی کوئی کام نہیں کہتے الا یہ کہ وہ خود ہی اس پر آمادہ ہوں۔ ذاتی رعایت کے وہ کبھی طلب گار نہیں ہوتے بلکہ کسی مظلوم آدمی یا مشکلات میں گھرے کسی ادارے کی امداد کے لیے۔ کسی دیہاتی‘ ان پڑھ کسان یا مزدور کے ساتھ بھی وہ اسی طرح پیش آتے ہیں‘ جیسے کہ کھرب پتیوں کے ساتھ۔ وہ کسی سے بے زار ہوتے ہیں اور نہ مایوس۔ بچوں سے الفت زیادہ ہے۔ جلد ہی ان کے ساتھ وہ بے تکلف ہو جاتے ہیں۔ اکثر وہ ایک آدھ چھوٹی سی دعا تعلیم کرتے اور غیر معمولی شفقت سے پیش آتے ہیں۔ پوچھا جائے تو اس کا سبب بھی بتاتے ہیں۔ ان میں اصلاح قبول کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ بے پناہ مصروفیت کے باوجود خیر کے ہر کام کے لیے وہ وقت نکالتے ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب سا کوئی شخص آن ملے تو ہر طرح سے اس کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرتے ہیں۔ غصہ پی جانے والے‘ تنگ دستی میں بھی دوسروں کے مددگار۔
پروفیسر صاحب ایسا کریدنے والا شاید ہی کوئی دوسرا شخص ہو۔ اگر ایک سائنس دان‘ کوئی عظیم معالج‘ ریاضی دان موجود ہو تو اس کے فن پر تادیر بات کرتے رہتے ہیں، حتیٰ کہ اس کے علم کا ایک حصہ انہیں منتقل ہو جاتا ہے۔ وہ اسے یاد رکھتے ہیں۔ ان کی یادداشت حیران کن ہے۔ اکثر ملاقاتیوں کے نام ہی نہیں‘ احوال سے بھی واقف رہتے ہیں۔ یہاں کوئی فرقہ ہے نہ کوئی علاقائی‘ لسانی‘ قبائلی اور مذہبی تعصب۔ تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنما ان سے ملنے آتے ہیں اور سبھی کے ساتھ شگفتگی سے بات کرتے ہیں۔
غیر مسلم بھی آتے ہیں اور سلوک ان کے ساتھ بھی وہی اُجلا۔ ان میں سے بعض مسلمان ہو جاتے ہیں مگر وہ شاذ ہی اس کا ذکر کرتے ہیں اور اکثر تاخیر کے ساتھ۔ ان میں سے جس کسی نے اسلام قبول کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا‘ فوراً کھل اٹھے اور تعجیل کی بجائے‘ اپنے مضبوط دلائل وہ اس کے سامنے رکھتے اور یہ کہتے ہیں: سوچ لیجیے، غورکر لیجیے، اطمینان کے ساتھ فیصلہ کیجیے۔
سال گزشتہ لندن کے ایک مکان میں تھے کہ آخری روز مالک مکان اور اس کی اہلیہ ملنے آئے ۔''ذہنی طور پر میں اس کے لیے تیار تھا کہ ان سے معذرت کروں۔ بے شمار ملاقاتیوں کی آمد سے انہیں زحمت ہوئی ہو گی‘‘ واپسی کے کئی ماہ بعد انہوں نے بتایا ''مگر وہ سوالات کرنے لگے۔ انہوں نے پوچھا‘ اتنے بہت سے لوگ آپ کے پاس کیوں آتے ہیں۔ میں نے وضاحت کی تو استفسار کا سلسلہ دراز ہوتا گیا؛ حتیٰ کہ انہوں نے مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا‘‘۔
تین باتیں لازماً وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ ایک تو ہر شخص حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ وہ اسے ان لوگوں سے زیادہ جانتے ہیں، جن کے درمیان اس کی زندگی بسر ہوئی، ثانیاً وہ اس کے ہر سوال کا اطمینان بخش جواب دیتے ہیں، ثالثاً ‘اگر ذرا سی آمادگی اس میں موجود ہو تو رفتہ رفتہ اس کی ترجیحات بدلنے لگتی ہیں۔ پروفیسر صاحب کے ساتھ جو لوگ نسبتاً زیادہ وقت گزارتے ہیں، ان میں بخل رفتہ رفتہ اس طرح غائب ہو جاتا ہے جیسے دھوپ میں رکھی برف۔ جھوٹ بولنے کی عادت جاتی رہتی ہے، خیانت سے وہ گریز کرنے لگتا ہے اور ان میں سے اکثر نرم خو ہو جاتے ہیں، اپنے پڑوسیوں، دفتری ساتھیوں اور رشتہ داروں کے بارے ہی میں نہیں، سب کے لیے۔
سیمینار سے فارغ ہونے کے بعد ہم جنرل اشفاق پرویز کیانی کے کمرے میں جمع تھے، گپ شپ کے لیے۔ اچانک سید مشاہد حسین سے انہوں نے کہا: پروفیسر صاحب سے ملیے، ان کے 98 فیصد مشورے لازماً درست ہوتے ہیں۔ وہ آئے تو ان کے ساتھ چوہدری شجاعت حسین بھی تھے۔ چوہدری صاحب کا پیغام ملا تو میں نے ان سے پوچھا: 'کیا آپ تین منزلوں کی سیڑھیاں چڑھ سکیں گے‘‘۔ ان کا جواب یہ تھا کہ ''یار تو میرا کم کرا، میں پہاڑ تے چڑھ جاواں گا‘‘۔
آئرلینڈ کا ایک خاندان ہر سال ان سے ملنے آتا ہے۔ برسوں پہلے وہ سب مسلمان ہو گئے تھے۔ ایک بار ان صاحب نے شکایت کی کہ علمی اور اخلاقی طور پر آگے بڑھنے کا عمل رک گیا ہے ''ایک ناپسندیدہ عادت کی وجہ سے‘‘ انہوں نے دل سوزی سے کہا اور نشان دہی کی۔ وہ خوش بخت نکلا۔ اب ہم اسے آسودہ پاتے ہیں۔ سات برس ہوتے ہیں‘ ایک مشہور عالم، پنج ستارہ ہوٹل چین کے یورپی جنرل مینجر ملنے آئے۔ کہا: میرا خاندان فیتھ ہیلرز (Faith healers) کا ہے۔ ان میں سے کوئی میری مدد نہیں کر سکا۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ خوشبو اور بدبو کا احساس تک نہیں ہوتا ''ناک میں ایک رگ ہوتی ہے‘‘ انہوں نے کہا ''جو دماغ تک بو کا شعور لے جاتی ہے، وہ مردہ ہے‘‘ اس نے سر جھکا لیا اور رونے لگا۔ وہ کیوں رویا تھا؟ شاید اس درد مندی کے طفیل جو روا رکھی گئی، یا عقدہ کھل جانے کی وجہ سے۔ شاید کسی اور نے بھی بتایا ہو مگر جب درویش بات کرتا ہے تو یقین طلوع ہوتا ہے۔
Pleasure of knowing، وہ کہتے ہیں ''کاش لوگ ادراک کریں کہ حصول علم میں کیسی نشاط ہے۔ وہ علم جو عمل سے ہم آہنگ کرنے کی آرزو پیدا کرتا ہے۔ محفل شگفتہ رہتی ہے مگر روزانہ کچھ پرانے تو کچھ نئے سوالات۔ دریا بہتا ہے اور سیراب کرتا چلا جاتا ہے۔
ان کے باب میں کسی نے گستاخی کی تو محبت کرنے والوں کو دکھ پہنچا۔ فطری بات ہے مگر پریشانی کیسی۔ فرمایا: جو بندوں کے کام میں لگا رہتا ہے، اللہ اس کے کام میں لگا رہتا ہے۔ فرمایا: عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ارشاد کیا کہ عزت اللہ کے لیے ہے اور مومنوں کے لیے۔
اللہ کے پاک بندے کبھی رسوا نہیں ہوتے۔ اور جھوٹ کبھی پنپتا نہیں۔ جس نے جو بویا ‘وہ اسے کاٹنا ہے۔ جو کانٹے کاشت کرے گا، وہ کیا فصل گھر لے جائے گا۔