لوہے کو انسان پر حکومت کرنے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ مگر جاگیردار کے جوتے کو بھی نہیں۔ انسانوں کو اللہ نے آزاد پیدا کیا تھا۔ کسی کو حق نہیں کہ انہیں غلام بنا لے۔
سندھ اسمبلی نے رینجرز کے اختیارات محدود کر دیئے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد، پیپلز پارٹی، زیادہ درست الفاظ میں زرداری صاحب نے ارادہ کر لیا تھا۔ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد یہ فیصلہ انہوں نے کر لیا تھا۔ نفاذ کا وقت اب آیا ہے۔
ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ ذمہ داری اختیارات کے ساتھ ہوتی ہے ۔ رینجرز کی قیادت اگر ان لوگوں کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی جن کی ناجائز دولت دہشت گردی میں مددگار ہو سکتی ہے تو بوریا بستر سمیٹ کر اسے واپس آ جانا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ سن گن پا کرکور کمانڈرز نے فیصلہ کر لیا اور وزیراعظم کو مطلع کر دیا جائے گا۔ اس ناچیز کی رائے مختلف ہے۔ میرا خیال ہے کہ کھل کر خواہ نہ بتایا گیا ہو مگر واضح اشارہ ضرور دے دیا گیا ہو گا۔ رینجرز کی قیادت کا یہ موقف شاید اسی پس منظر میں سامنے آیا کہ سندھ حکومت جو بھی فیصلہ کرے اسے منظور ہو گا۔ اس منظوری سے بہرحال یہ مراد نہیں ہو سکتی کہ وہ کم تنخواہ پر نوکری کے لیے تیار ہوں گے۔ اپنی ''تنخواہ‘‘ میں کمی کون گوارا کرتا ہے‘ جی ہاں‘ ایک بے بس و لاچار آدمی‘ جس کے پاس کوئی چارہ کار نہ ہو۔ کیا عسکری قیادت لاچار اور بے بس ہے؟ کیا ڈیڑھ سال کی شاندار کامیابیوں کے بعد کراچی کے شہری بلکہ پوری قوم ان کی پشت پر نہیں کھڑی؟
مجھ سے منسوب یہ بات میرے اپنے ہی اخبار میں چھپی کہ ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف استغاثہ اپنا موقف ثابت نہ کر سکے گا۔ ٹیلی ویژن پر بات کبھی ادھوری رہ جاتی ہے۔ ممکن ہے ٹی وی پروگرام میں اپنا موقف خاکسار واضح نہ کر سکا ہو۔ امکان یہ بھی ہے کہ ٹی وی مانیٹرنگ ڈیسک کی خبر بنانے والے نے کچھ زیادہ غور نہ کیا ہو۔ میری رائے یہ تھی کہ ڈاکٹر عاصم کے خلاف لکھی گئی ایف آئی آر میں نقائص ہیں۔ میرا ہی نہیں‘ اکثر قانونی ماہرین کا خیال بھی یہی ہے۔ اس سے مگر یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ڈاکٹر موصوف معصوم واقع ہوئے ہیں؟
یہ ایک کھلا راز ہے کہ انہوں نے کرپشن کا ارتکاب کیا ‘بڑے پیمانے پر کیا اور جناب زرداری کے ایماء پر۔
ایک چھوٹی سی کہانی یہ ہے: کراچی کے سب سے بہترین نجی ہسپتال کی مالکہ کو انہوں نے پیغام بھیجا کہ ''جائیداد‘‘ ان کے حوالے کر دی جائے۔ مالدار مگر بے بس خاتون نے دوسرے لوگوں کے علاوہ جنرل پرویز مشرف سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کراچی کے کور کمانڈر سے بات کی تو نجات ملی وگرنہ ڈاکٹر صاحب کے کارناموں میں ایک اور کارنامے کا اضافہ ہو گیا ہوتا، ان محترمہ کی حالت ایسی غیر تھی کہ شاید کوئی حادثہ ہو جاتا۔ ایسے کتنے ہی لوگ ہیں، جو روتے پھر رہے ہیں۔
عشاق بے رحم ہوتے ہیں اور کبھی کبھی تو نیم پاگل۔ نشہ تو زُہد اور علم کا بھی تباہ کن ہے۔ دولت اور اقتدار کا نشہ؟ نتائج و عواقب کی پروا نہیں رہتی، احساس اور ادراک بھی نہیں رہتا۔ انسان کی پوری تاریخ یہی ہے۔ آٹھ سو برس سے زیادہ ہوتے ہیں،صلاح الدین ایوبی کا پیغام بر شیخ الجبال کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا، جب ان پہ چار قاتلانہ حملے ہو چکے تھے۔ یہ لبنان کا وہی دشوار گزار علاقہ تھا، جہاں سے حسن نصراللہ کی ملیشیا اسرائیل کو زچ کرتی رہتی ہے۔ پہاڑ کی چوٹی پر ایک محافظ نگراں تھا۔ شیخ نے اشارہ کیا تو بلندی سے
اس نے چھلانگ لگا دی۔ سفیر سے اس نے پوچھا: کیا تمہارے آقا کے پاس ایسے جانثار موجود ہیں؟ پاگل پن پر تلے اہل اقتدار کا تو ذکر ہی کیا، جس کے پاس بھی وفادار لشکر اور وسائل موجود ہیں، اگر اقتدار کا نشہ اس کا ذہن مسخ کر دے تو نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ غور کرنے والے طالبان پر کیوں غور نہیں کرتے؟ کرایے کے ایک قاتل نے بھکر کے زمینداروں کا مہمان خانہ اڑا دیا تھا۔ ذہنی غسل سے گزرا ہوا آدمی، جنت کی تلاش میں تھا۔
زرداری صاحب آگ سے کھیل رہے ہیں، اس لیے کھیل رہے ہیں کہ اس سے پہلے کئی بار وہ بچ نکلے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اب کی بار بھی وہ بچ نکلیں گے۔ انحصار ان کا وزیر اعظم کی کمزوری پر ہے کہ عسکری قیادت کے مقابلے میں، وہ انہیں ترجیح دیں گے۔زیریں لہریں کئی ایک ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ایک ذمہ دار لیڈر نے ناچیز سے کہا: میاں صاحب کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی اگر اسٹیبلشمنٹ سے متصادم ہوتی ہے تو فائدہ انہیں پہنچے گا۔ میاں صاحب ممکن ہے یہ سوچتے ہوں گے کہ میری بلا سے۔ ان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان تو رینجرز کی پشت پر تن کر کھڑے ہیں۔ ان پر تو کوئی الزام آنے سے رہا۔
میرے موبائل میں ایک ویڈیو موجود ہے‘ اوروں کے پاس بھی ہو گی۔منگل کی شام، اس کا ذکر میں نے کامران شاہد کے پروگرام میں کیا۔ بلدیاتی الیکشن میں خیرہ کن کامیابی کے بعد جناب الطاف حسین نے جنوبی افریقہ میں اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ''اب نیا صوبہ بنے گا یا نیا وطن‘‘ وہی کامیابی کا پاگل کر دینے والا نشہ۔ ان کے خیالات نئے نہیں۔ برسوں پہلے کے ہیں، وہ کہہ چکے کہ پاکستان کا قیام انسانی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ اپنی ایسی ہی تقریروں کی بدولت جو کبھی یرغمالی چینلوں پر گھنٹوں چلا کرتیں، ان پر پابندی عائد ہوئی۔ ان کی سیاسی قوت مگر برقرار ہے۔ اس لئے کہ مہاجروں کے مسائل برقرار ہیں۔ یکسر بدلے ہوئے حالات کے تقاضوں سے ناآشنا پنجاب اور سندھ کے حکمران بلدیاتی اداروں کو اختیار دینے پر آمادہ نہیں۔ سیاسی مخالف ان کے کمزور ہیں؟ لہٰذا الطاف حسین اپنی پسند کا گانا گا سکتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف اور سپہ سالار راحیل شریف،برطانوی وزیراعظم گارڈن برائون سے کہہ چکے کہ ایم آئی سکس ان کی سرپرستی بند کرے۔ ایم آئی سکس کے سربراہ یقین دلا چکے کہ انہوں نے ہاتھ اٹھا لیا ہے مگر بعض اشارے برعکس ہیں۔ برطانوی انٹیلی جنس کے لئے وعدہ کرکے مکر جانا، ہرگز اچنبھے کی بات نہیں۔ ہر انٹیلی جنس ایجنسی کا ایک مزاج اور ماضی ہوتا ہے۔بھارت کے اپنے مفادات ہیں اور یہ مفادات کراچی میں بدامنی برقرار رکھ کر ہی پورے کیے جاسکتے ہیں۔
الطاف حسین کا اپنا کھیل ہے، زرداری صاحب کا اپنا اور میاں صاحب کی اپنی ترجیحات۔ ہر کوئی اپنا مقدمہ لڑ رہا ہے اور ہر طرح سے ۔''افسوس کہ پاکستان کا مقدمہ لڑنے والا کوئی نہیں‘‘۔ ڈاکٹر سید عبداللہ مرحوم نے یہ جملہ1969ء میں لکھا تھا۔ مشرقی اور
مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتیں جب یہ سمجھنے میں ناکام رہیں کہ اس طرز عمل کا نتیجہ کیا ہوگا؟ ایک خیال یہ بھی ہے کہ دونوں بڑے کھلاڑی شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو یہ بات سمجھ رہے تھے۔ اسی لئے شیخ مجیب چھ نکات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھے اور بھٹو صاحب سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں پر اکتفا کرنے کی بجائے وفاق میں حصہ مانگ رہے تھے۔ ایوان صدر میں یحییٰ خان متمکن تھے اور سب جانتے ہیں کہ ان کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کیا تھی، ترجیح اول کیا۔ مارشل لاء کی مخالفت کے لیے یہی ایک دور‘یہی ایک نکتہ کافی ہونا چاہیے۔اقتدار کے اس کھیل میں پاکستان ٹوٹ گیا تھا۔ اقتدار کے اسی کھیل میں بھارت اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
سندھ حکومت کا مطالبہ یکسر غلط نہیں کہ اداروں کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے۔ سوال دوسرا ہے۔ یہ بات تو مذاکرات میں طے ہونی چاہیے اور ظاہر ہے کہ اپیکس کمیٹی میں جو اسی غرض سے بنائی گئی۔ گندے کپڑے برسر بازار کیوں دھوئے جا رہے ہیں؟
فیصلہ ہو رہے گا، آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں، مگر ایک بات بالکل واضح ہے کہ ذمہ داری اختیار کے بغیر نہیں ہوتی۔ یہ بھی اداروں کے درمیان اختیار کا تعین، بات چیت سے ہوگا، بلیک میلنگ سے نہیں۔
فیصلہ دلیل سے ہونا چاہیے، طاقت سے نہیں۔ سول حکومتیں اس لئے بھی خاک چاٹتی رہیں کہ اقتدار انہوں نے ووٹوں سے حاصل کیا مگر حکومت ہر بار طاقت اور چالاکی کے بل پر چلانا چاہی۔ جی نہیں!اب یہ ممکن نہیں۔ حالات بدل گئے،تقاضے بدل گئے۔
لوہے کو انسان پر حکومت کرنے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ مگر جاگیردار کے جوتے کو بھی نہیں۔ انسانوں کو اللہ نے آزاد پیدا کیا تھا۔ کسی کو حق نہیں کہ انہیں غلام بنا لے۔