اور اقبال نے یہ کہا تھا:
بتوں سے تجھ کو امیدیں‘ خدا سے نو میدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟
وزیر اعظم کو گیس کی قیمت میں اضافے سے صدمہ پہنچا ۔انہوں نے یہ اضافہ واپس لینے کا حکم صادر کیا۔ ثابت ہوا کہ وزیر اعظم قوم کے سچے ہمدرد ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ انہیں اگر صدمہ نہ پہنچتا؟۔ ایک چھوٹا سا سوال اور بھی ہے۔ آنجناب نے معاملات اس طرح کی سفاک سپاہ کو کیوں سونپ رکھے ہیں، خلقِ خدا پہ کبھی جنہیں ترس نہیں آتا؟۔
انحصار اب اس پر ہے کہ اگر وزیر اعظم کو خبر ہو جائے اور صدمہ پہنچے تو قوم بچ نکلے گی، وگرنہ بھیڑیوں کے رحم و کرم پر۔ گیس اور بجلی کی قیمت میں اضافہ فقط اضافہ نہیں ہوتا۔ صرف یہ نہیں ہوتا کہ دس، بیس ہزار روپے ماہوار کمانے والوں کی حیات اور بھی بوجھل ہو جائے بلکہ اس کے سوا بھی۔ چند سو مزید خودکشیاں۔ لاکھوں کروڑوں گھروں میں ایک مسلسل اور ایک خاموش صف ماتم۔ اس قوم پر خدا رحم کرے، جس کا انحصار ایک آدمی کے ترس کھانے پہ ہے۔
ایک سندھی جاگیردار سے پوچھا کہ دیہی سندھ میں اس قدر ظلم و ستم کے باوجود، پیپلز پارٹی جیت کیوں جاتی ہے۔ فقیہہِ مصلحت بیں وہ نہیں تھا۔ بولا: اس لیے کہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے، ہم لوگ کسی معجزے کے منتظر ہیں۔ Waiting for Allah ۔ حیرت زدہ، اس سے سوال کیا کہ کیا آپ کو کچھ خبر بھی ہے کہ سندھ کے بعض اضلاع میں مزدور کو ایک ڈیڑھ سو روپے اُجرت ملتی ہے، مثلاً بیڑی کے پتے چننے والوں کو۔ سستے چاول ابال کر نمک مرچ ڈال کر وہ بسر کرتے ہیں۔ ملک کی 30 فیصد آبادی کم خوراکی کا شکار ہے۔ سسک سسک کر جی رہی ہے۔ کہا، ''خبر؟ اخبار نویس صاحب! مجھے یہ بھی پتہ نہیں کہ میرے گھر کے دروازے پر کیا ہوتا ہے‘‘ ع
تیرے فقیر کھال مست، تیرے امیر مال مست
کوئی دن نہیں گزرتا جب ٹیلی ویژن اور اخبار اذیت نہ دیتا ہو۔ جن کی کھال موٹی ہے اور جن کے دل پتھر ہو گئے، ان کی بات دوسری ہے۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے، بے شرم اپنی مرضی کرے ؎
بہ زیر شاخِ گل افعی گزید بلبل را
نواگرانِ نہ خوردہ گزند راچہ خبر
(شاخِ گل کے نیچے سانپ نے بلبل کو ڈس لیا، جنہیں کبھی گزند نہیں پہنچا، انہیں اس سے کیا)
ہر روز ایک بسمہ مرتی ہے، ایک نہیں سینکڑوں۔ 2000ء میں انسدادِ غربت کے لیے اقوام متحدہ نے ممبر ممالک کے لیے جو اہداف مقرر کیے تھے، ان پر عمل درآمد میں پاکستان کا غالباً نمبر 138 واں ہے۔ دس میں صرف سات ہدف پورے ہوئے۔وزیر اعظم کا ارشاد مگر یہ ہے کہ ترقی کا واپس نہ مڑنے والا پہیہ گردش میں آ چکا ۔دن دگنی رات چوگنی ترقی۔چھپ جائے اور وزیر اعظم کے کسی حاضر باش سے ملاقات ہو تو کہے گا: ذاتی تنقید آپ کو زیب نہیں دیتی۔
اگرچہ دھڑ کا لگا تھا،اگرچہ افواہ گردش میں تھی، مگر اب خبر آ گئی اور ایسی ہے کہ یقین ہی نہیں آتا۔ حکومت وقت کتنی ہی گئی گزری ہو، کیا یہ بھی کر سکتی ہے؟ ہم سمجھتے تھے کہ زرداری صاحب کا عہد تمام ہوا۔ شاید نہیں ہوا۔ زاہد و متقی وزیر خزانہ اسحق ڈار جب تک جیتے ہیں، ایسی امید خود فریبی کے سوا کیا ہے؟۔ وہی جمہوریت، وہی نقب زنی۔ تازہ ترین فیصلہ ان کا یہ ہے کہ کالی کمائی کو سفید کرنے والوں کے تمام مطالبات مان لیے جائیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ رزقِ حرام کے چوپٹ کھلے دروازے اور بھی کشادہ کر دیئے جائیں۔ حلال کھانے کے آرزو مندوں کو ایک اور کوڑا رسید کیا جائے۔ٹیکس دینے والے مجرم ہیں ۔نہ دینے والے رعایت کے مستحق۔چھ بار یہ تماشہ پہلے بھی ہو چکا۔ اب ساتویں بار ہو گا۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے عہد میں کالی کمائی کو سفید کرنے پر دس فیصد ٹیکس لگا تھا۔ اب 0.1 فی صد سے 0.3 فی صد ہو گا۔ ؎
نادک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
قوم کو مبارک ہو۔نون لیگ اور اس کے ووٹر تاجروں کے مذاکرات کامیاب رہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ آرڈی ننس جاری ہو جائے گا۔ برائے نام ٹیکس دے کر وہ اپنی غیر قانونی آمدن کو جائز کر سکیں گے۔ چوری کا مال ان کا اپنا ہو جائے گا۔ نہ صرف یہ کہ ریاست ان سے تعرض نہ کرے گی بلکہ تین سال تک ان کے گوشواروں کا معائنہ تک کرنے کی اجازت نہ ہو گی۔ ملک میں کالی، یعنی ٹیکس ادا نہ کرنے والی معیشت کا حجم کیا ہے؟ ایک اندازہ یہ ہے کہ پچاس فیصد۔ بعض ماہرین اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ کم از کم65 فیصد۔ فرض کر لیجیے 50 فی صد ہی ہو تو اس کا مطلب کیا ہے؟ بیس ارب ڈالر سالانہ کی چوری اور وہ بھی دیدہ دلیری کے ساتھ۔ وزیر اعظم کے پسندیدہ اخبار نویسوں میں سے ایک کی بیرون ملک جائیداد کا اندازہ بیس کروڑ ہے۔ نگران حکومت کے دور میں عالی جناب کو ایک کروڑ روپے ٹیکس ادا کرنے کا نوٹس دیا گیا۔ انہوں نے اسے ایف بی آر کے منہ پر دے مارا کہ منصب سنبھالنے کے بعد میاں صاحب نے ایک بڑا عہدہ اسے سونپ دیا تھا۔ اپنے ٹی وی پروگرام میںاب وہ اس شخص کی کردار کشی کرتا ہے، جو سرکاری ذمہ داری سے سبکدوش ہو چکا اور جو اس کے خیال میں نوٹس بھیجنے کا ذمہ دار ہے۔
جنوری کے پہلے ہفتے میں وزیر خزانہ ٹیکس چوروں کی سہولت کے لیے نئی سکیم کا اعلان کریں گے۔ گوشوارے داخل کرنے اور نہ کرنے والوں پر اس کا یکساں اطلاق ہو گا۔ لاہور کی ایک ممتاز کاروباری شخصیت نے بتایا: لندن سے میں نے چارٹرڈ اکائونٹنٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ چار عدد چارٹرڈ اکائونٹنٹ میرے ادارے میں کام کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ٹیکس کا گوشوارہ داخل کرانے کے لیے مجھے ایک ماہر کی ضرورت پڑی۔ سرکاری کاغذات اس قدر پیچیدہ کیوں ہوتے ہیں؟۔ اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے: نالائق اور بے حس بیورو کریسی کے طفیل، سوال یہ ہے کہ اس نالائق اور بے حس بیورو کریسی کا احتساب اور اس کی تربیت کس کی ذمہ داری ہے؟ وزیر خزانہ کو کیا معلوم نہیں؟ کیا خود ان کے حامی تاجروں تک نے بار بار اس پر فریاد نہیں کی؟۔ ٹیکس چوری الگ، کیا اس مسئلے کا حل یہ نہیں کہ گوشوارے کو آسان کر دیا جائے۔ دنیا کے سب دوسرے ملکوں کی طرح۔ بھارت کی طرح جہاں ٹیکس وصولی کی شرح 16 فی صد ہے۔ نون لیگ کی حکومت نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں شرح 8 فی صد سے بڑھ کر گیارہ فیصد ہو چکی۔ ایف بی آر کے ایک سبکدوش افسر سے بات ہوئی۔ اخبار نویس نے مسرت کا اظہار کیا تو اس نے کہا: آپ بھی بھولے بادشاہ ہی نکلے۔ آپ اسحق ڈار صاحب کی باتوں میں آ گئے۔ مشتاق یوسفی کا وہی جملہ: جھوٹ کی تین اقسام ہیں۔ جھوٹ، سفید جھوٹ اور اعداد و شمار۔
افسر شاہی کا حال معلوم ہے۔ مذمت اس کی بہت کی جاتی ہے مگر فی الواقع وہ کتنے قصوروار ہیں۔ لاہور اور اسلام آباد میں دس برس جونیئر افسر، اپنے سینئر پر حکم چلاتا ہے۔ موقع ملے تو احساس کمتری کو آسودہ کرنے کے لیے اس کی تحقیر بھی کرتا ہے۔ سندھ میں حالت اس سے بھی بدتر ہے۔ پختون خوا میں لائق افسر نالائق وزراء کے رحم و کرم پر ہیں۔
جب عرض کیا جاتا ہے کہ جمہوری معاشرے کا بنیادی ادارہ پارلیمان نہیں بلکہ سیاسی جماعت ہے تو سیاستدان چپ سادھ لیتے ہیں۔ کس قماش کی سیاسی پارٹیوں کو 22کروڑانسانوں کا مستقبل سونپ دیا گیا؟ایک پارٹی پاکستانی نیلسن منڈیلا جناب آصف علی زرداری کی جیب میں ہے۔ بسمہ کی موت پر ان کا وزیر اعلان کرتا ہے کہ بلاول بھٹو ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہیں۔ دوسرا فرماتا ہے کہ موت و حیات تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ باتدبیر وزیر اعلیٰ بچی کے مجبور باپ کو ملازمت قبول کرنے پر آمادہ کر لیتے ہیں ۔ ع
کہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
دوسری پارٹی قائد اعظم ثانی میاں محمد نواز شریف کی منکوحہ ہے۔ غریب منکوحہ، جس کے ساتھ جو سلوک وہ کرنا چاہیں، اسے ہرگز کوئی اعتراض نہیں۔ تیسری کپتان کا حرم۔ ایک باچہ خان کے خاندان کی وراثت ہے، دوسری مفتی محمود مرحوم کے صاحبزادوں کی، تیسری عبدالصمد اچکزئی کے فرزندِ ارجمند جناب محمود اچکزئی کی مِلک۔ پندرھویں صدی کے لشکر 21 ویں صدی کے میدان میں دادِ شجاعت دے رہے ہیں۔
کالی کمائی کو سفید کرنے کا قانون پارلیمان میں کیوں نہیں لایا جاتا۔ آرڈی ننس کے ذریعے کیوں نافذ ہو گا۔ یہ کیسی پارلیمنٹ اور کس طرح کی جمہوریت ہے؟
عجیب قوم ہے، تاریخ کے چوراہے پر سوئی پڑی ہے اور عظمتِ رفتہ کے خواب دیکھتی ہے۔ کوئی نہیں جو چیخ کر کہے کہ سارے بادشاہ ننگے ہیں ؎
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے
اور اقبال نے یہ کہا تھا:
بتوں سے تجھ کو امیدیں ‘ خدا سے نو میدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟