فارسی کا محاورہ یہ ہے‘ تن ہمہ داغ داغ شد‘ پنبہ کجا کجا نہم۔ اور فیض احمد فیض نے یہ کہا تھا ؎
یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیض کبھی بخیہ گری نے
یہ ابھی چند منٹ پہلے کی بات ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے پی آئی اے سٹیشن منیجر کو لاہور کے ہوائی اڈے پر وی وی آئی پی لائونج میں طلب کیا۔ اسلام آباد کے لیے پرواز پی کے 652 کی روانگی میں تاخیر تھی۔ خیر یہ تو معمول کی ایک بات ہے‘ مسافر جھلاّئے ہوئے اس پر تھے کہ تاخیر کا اعلان بھی نہ کیا گیا‘ حتیٰ کہ چار بج گئے۔ حسین نواز حیران تھے کہ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا‘ وزیر اعظم کے صاحبزادے کو بھی اطلاع نہیں دی۔ گھبرایا ہوا‘ غالباً زیر عتاب آ کر‘ تین ماہ قبل یورپ سے لاہور متعین کیا جانے والا منیجر منت سماجت کرتا رہا۔ اُدھر مسافروں کے لائونج میں پی آئی اے کا کوئی ملازم موجود نہ تھا‘ جس سے بات کی جائے۔ بہت دنوں سے ہوائی اڈے کا سائونڈ سسٹم خراب پڑا ہے۔ پی آئی اے والے مہربان ہوں تو ان میں سے کوئی چلاّ کر مسافروں کو بتا دیتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مسافر بھی اب ناراض نہیں ہوتے۔ پروازوں میں معمولی تاخیر ان میں سے ایک ہے‘ گھنٹے بھر کی کیا اہمیت۔ جس کا وقت اہم تھا‘ اس نے جتلا دیا۔ اب ظاہر ہے کہ منیجر صاحب آئندہ احتیاط سے کام لیں گے‘ نہ لیں گے تو نوکری سے جائیں گے۔
جواں سال اخبار نویس ارشاد محمود سے میں نے درخواست کی تھی کہ وہ ازراہِ کرم مجھے گھر کے راستے میں ملیں۔ ایک اہم موضوع پر ان سے مشورہ کرنا تھا۔ دوسری طرف عملے کے کسی شخص کی تلاش شروع کی کہ پرواز کا وقت معلوم کرکے انہیں اطلاع دے سکوں۔ دور دور تک کسی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اذیت ناک پہلو یہ تھا کہ ارشاد محمود قدرے عدیم الفرصت آدمی ہیں۔ بات ہوئی تو انہوں نے کہا‘ صاحبزادے کو مجھے اکیڈمی سے گھر پہنچانا ہے۔ مراد یہ تھی کہ وقت طے کر لیجیے اور اس کی پابندی کیجیے۔ یہی تو مسئلہ ہے‘ جب آپ دوسروں کے رحم و کرم پر ہوں تو اپنے وقت پر آپ کا اختیار کہاں ہوتا ہے۔ وہی جو شاعر نے کہا تھا؎
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
آخرکار ایک غیر متعلق آدمی نے پہچانا اور ترس کھا کر یہ کہا: فکر مت کیجئے‘ ابھی میں معلوم کرکے آپ کو بتاتا ہوں۔ پی آئی اے کا سٹاف تو بریفنگ روم میں ہے۔ ''ملتان سے آنے والا جہاز لاہور میں اتر چکا ہے‘‘ کچھ دیر میں ان صاحب نے کہا ''4:10 پر آپ اسلام آباد روانہ ہو جائیں گے‘‘۔ اس وقت تین بج کر چالیس منٹ ہوئے تھے۔ مسافروں نے مجھ سے کہا کہ اس موضوع پر اخبار نویسوں کو لکھنا چاہیے۔ عرض کیا: لکھتے ہیں‘ ٹی وی پر بھی واویلا کرتے ہیں۔ کنجی مگر حکومت کے ہاتھ میں ہے اور ان کا حال پتلا ہے۔ کل شب صدر ممنون حسین فریاد کر رہے تھے کہ پی آئی اے کے ایک جہاز پر 700 افراد کا عملہ مسلّط ہے۔ میں نے چینل بدل ڈالا۔ صدور اور وزرائے اعظم کو بھی اگر ماتم ہی کرنا ہے تو ان کے ارشادات کی سماعت سے کیا
حاصل۔ خدا کے بندو‘ نجکاری کیوں نہیں کرتے۔ ایسی جرأت نہیں تو کسی نیک نام ادارے کو منافع میں شریک کر لیا جائے۔ وہ بیڑی پار لگا دے گا۔ کاروبار حکومت کا نہیں‘ کاروباری منتظمین کا شیوہ ہوتا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے پوچھا جائے تو شاید وہ فرمائیں کہ اپوزیشن رکاوٹ ہے۔ زرداری صاحب کے فرزند ارجمند بلاول بھٹو نے فرمایا کہ نجکاری ماں کا زیور بیچنے کے مترادف ہے۔ ماں کو بھوکا رکھو‘ تن پر لباس بوسیدہ‘ بیمار ہو جائے تو دوادارو کی توفیق نہ ہو‘ دنیا بھر میں فرزندوں کی نالائقی اور بد کرداری کے قصے عام ہوں۔ ہاں! مگر ماں کے چہرے پر زیور کا نور لازماً جگمگائے۔ بلاول بھٹو کچھ بھی کہیں۔ ان سے کیا شکوہ۔ صرف اس لیے پی آئی اے کے کارکن نوجوان لیڈر کو عزیز نہیں کہ آدھے ان کی پارٹی سے بھرتی کیے‘ تمام سیاسی لیڈروں کا وتیرہ یہی ہے۔ ہوائی اڈوں پر انائوں کو وہ گنے کا رس پلاتے ہیں‘ ان کی آئو بھگت کرتے ہیں‘ حتیٰ کہ رحمن ملک ایسے آدمی کے لیے پرواز مؤخر کر دیتے ہیں۔ کچھ پیپلز پارٹی کے بھرتی کیے ہوئے‘ کچھ نون لیگ کے‘ تھوڑے سے ایم کیو ایم والے اور شاید کچھ جماعت اسلامی کے باقی ماندہ بھی۔
پانچ سات ہزار ملازم ہیں۔ ہر سال تیرہ چودہ ارب روپے کا خسارہ۔ ڈھنگ سے اتنی بڑی سرمایہ کاری ہو تو ہر سال پانچ ہزار سے زیادہ ملازمتیں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ زبیر عمر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ بولے: کیا آپ نجکاری کے قائل ہیں؟ عرض کیا‘ برسوں سے ہم چیخ رہے ہیں۔ فرمائش کی کہ میں ان کے سگے بھائی اسد عمر کو قائل کروں۔ اسد عمر سے کہا تو وہ ہنس پڑے۔ کہا: آپ نے فرمائش کر دی‘ آپ کا فرض پورا ہوا۔ اللہ جانے‘ پی آئی اے والوں کے پاس کون سی 'گدڑ سنگھی‘ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ہمیشہ بے روزگاری سے خوف زدہ ملازمین کی سرپرست ہو جاتی ہیں۔ کوئی انہیں سمجھانے کی کوشش نہیں کرتا کہ اللہ کے بندو‘ نجکاری خود تمہارے اپنے مفاد میں ہے۔ صرف یہ ہے کہ انہیں اپنے روزگار کے تحفظ کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ قومی خزانے کی بربادی پورے ملک کی بربادی ہے۔ عشروں سے دنیا بھر میں حکومتیں کاروبار سے دستبردار ہو رہی ہیں۔ اب وہ فضائی کمپنیوں کا بوجھ نہیں اٹھاتیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ کچھ ملازمین کو فارغ کر دیا جائے گا۔ اٹھارہ بیس مہینے کی زائد تنخواہ ملے گی۔ اس سے وہ کاروبار کر سکتے ہیں۔ اپنے بچوں کو پڑھا سکتے ہیں۔ خود پڑھے لکھے لوگ ہیں‘ دوسری کوئی ملازمت بھی پا سکتے ہیں۔ کوئی الہامی نسخہ پی آئی اے کے افسروں اور ملازمین کے پاس ہے کہ لیڈر لوگ جان توڑ کر ان کے لیے لڑتے ہیں‘ حتیٰ کہ پی آئی اے کو وطن کا متبادل بنا دیا۔ ماں بنا دیا۔
متاع دین و ایماں لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزہء خوں ریز ہے ساقی
لائونج میں ایک مسافر کہہ رہا تھا: بے ایمان لوگ‘ نون لیگ کے ایک لیڈر نے ہم دونوں بھائیوں کے پلاٹوں پہ قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کا دعویٰ مجھے مشکوک لگا لیکن پھر جس کا نام اس نے لیا‘ اس کی شہرت بُری ہے۔ ارشاد محمودکے ساتھ جہاں مُجھے پہنچنا ہے‘ وہاں بھی مسئلہ یہی ہے۔ حکمران پارٹی کے ایک ایم پی اے نے خلق خدا کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ جعلی ڈگری کا الزام ہے۔ تین برس سے مقدمہ چیونٹی کی رفتار سے رینگ رہا ہے۔ رکنیت اس کی معطل ہے۔ اس کے باوجود علاقے میں اپنی پسند کے پولیس افسر لگوانے میں وہ کامیاب رہتا ہے۔ نہایت ہی بدنام آدمی‘ ایک بار تو قصاص کے ایک لین دین میں پچھتر لاکھ روپے ہڑپ کر گیا۔
ایک گھنٹے کی تاخیر سے جہاز اسلام آباد پہنچا۔ فکر اب ملاقاتوں کی لاحق تھی۔ ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے آدمی سے التجا کرنا تھی۔ اتنے میں ایک صاحب میرے پاس آ کھڑے ہوئے۔ وہ حسین نواز تھے۔ تپاک سے ملے اور بچوں سے تعارف کرایا۔ موقع سے فائدہ اٹھا کر میں نے کہا: سنا ہے سٹیشن منیجر کو آپ نے ڈانٹ پلائی ہے۔ وہ مسکرائے‘ اور کہا: نہیں تو۔ خیال آیا‘ اب وہ سیاست دان بنتے جا رہے ہیں۔
فارسی کا محاورہ یہ ہے‘ تن ہمہ داغ داغ شد‘ پنبہ کجا کجا نہم۔ اور فیض احمد فیض نے یہ کہا تھا ؎
یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیض کبھی بخیہ گری نے