بس یہی ایک نکتہ ہے۔ زندگی سب کے لیے ایک جیسی ہے۔ قدرت کا کوئی لاڈلا بچہ نہیں ہوتا۔ اس کی صفت رحم‘ اگرچہ صفت عدل پر غالب ہے مگر وہ تمام انسانوں کا رب ہے‘ صرف مسلمانوں کا نہیں۔
ذہنی طور پر میں کم از کم آدھ گھنٹہ انتظار کے لیے تیار تھا‘ جب پرواز کا اعلان ہوا‘ ایک خوشگوار حیرت! اسلام آباد سے لاہور کے لیے پی آئی اے کی یہ پرواز شاید ہی کبھی وقت پر روانہ ہوئی ہو۔ کچھ تاخیر لازماً ہوتی ہے‘ پچھلی بار ایک جواں سال تاجر نے کہا: 84 فیصد پروازیں بروقت روانہ ہو رہی ہیں‘ اس پر آپ شاد نہیں؟ یہاں کیا کیمرہ رکھا ہے کہ آپ حکومت کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ وہ تمسخر اڑانے پر آمادہ تھا۔ ایسے میں خاموشی ہی افضل ہے۔ ممکن ہے وہ نون لیگ کا حامی ہو۔ شاید اس لیے کہ اس کا تعلق کراچی سے ہے‘ جس کا ابھی ابھی اس نے حوالہ دیا تھا۔ صنعتی شہر میں کاروباری حالات بہتر ہوئے ہیں بلکہ بہت بہتر‘ ظاہر ہے کہ اس کا کچھ نہ کچھ کریڈٹ شریف حکومت کو جاتا ہے۔ ممکن ہے وہ محض شرارت پر تُلا ہو۔
حکومت نے کچھ اور اچھے کام بھی کیے ہیں۔ میاں صاحب نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کیا تو اعتراض کرنے والوں کو ہم نے بھی سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ اس سے بڑھ کر دھرنے پر مسلسل اور متواتر ان کے مؤقف کی تائید کی تھی اور ڈٹ کر۔ ریلوے میں خواجہ سعد رفیق کے موزوں فیصلوں کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں میں ہم بھی شامل ہیں۔ جہاں تک پی آئی اے اور بعض دوسرے سرکاری اداروں کا تعلق ہے‘ نجکاری کے سوا چارہ ہی نہیں۔
چودہ سو برس ہوتے ہیں‘ جب سرکارﷺ نے ارشاد کیا تھا کہ کاروبار حکومت کا کام نہیں۔ میٹرو جیسے منصوبوں پر اسی لیے ہم تنقید کرتے ہیں۔ بس ہمارا چلتا نہیں مگر کسی اچھے خیال سے محض اس لیے دستبردار نہیں ہوا جا سکتا کہ اسے قبول نہ کیا جائے گا۔ کوئی سنے یا نہ سنے‘ رائے اگر درست اور سوچی سمجھی ہے تو اظہار میں تامل نہ ہونا چاہئے۔ رہا کیمرہ تو اللہ کے فضل سے‘ ہماری زندگیوں میں اس کا وجود اور عدم وجود برابر ہو چکا۔ خیال فقط یہ رکھا جاتا ہے کہ قاری اور ناظر کو بور کرنے سے گریز کیا جائے۔ یہ کوشش کبھی کامیابی رہتی ہے اور کبھی ناکام۔ رائے تبدیل کرنے کی ضرورت الحمدللہ پیش نہیں آتی الا یہ کہ کوئی غالب دلیل پیش کرے۔ دلیل کے مقابل کھڑے ہونا‘ سچائی کے مقابل کھڑے ہونا ہے... اور یہ احمقوں کا شیوہ ہے۔
پی آئی اے کا دوسرا رخ آج دیکھنے کو ملا۔ رحیم یار خان پہنچنا ہے۔ بدھ کی سیٹ ریزرو کرا رکھی تھی۔ مقررہ وقت پر لاہور کے صدر دفتر گئے تو تین مختلف کائونٹروں پر جانا پڑا۔ پہلے نے دوسرے اور دوسرے نے تیسرے کے پاس بھیجا۔ وہاں ایک محترم خاتون تشریف فرما تھیں۔ انہوں نے کہا: یہ بین الاقوامی پروازوں کا کائونٹر ہے۔ مقامی ٹکٹیں جاری کرنے والوں میں سے ایک نماز پڑھنے گیا ہے اور دوسرا لنچ کرنے۔ انتظار کرنے کا مشورہ انہوں نے دیا۔ جتنی دیر ممکن تھا‘ انتظار کیا۔ اب اور ایک ضروری کام درپیش تھا۔ سوچا: قسمت یاور ہوئی تو واپسی پر ٹکٹ خرید لیں گے۔ اگر نہیں تو ریل سہی۔ ہوائی جہاز تو ایک اڑتا ہوا قید خانہ ہے۔ ٹرین بہتر ہو گئی ہے۔ کم ہی تاخیر ہوتی ہے۔ ہو بھی جائے تو کیا۔ دو تین گھنٹے کا کام ہے۔ پورا ایک دن میسر ہو گا۔ رحیم یار خان ایک
خوبصورت شہر ہے۔ تین نہریں اس میں بہتی ہیں۔ ان میں ایک کے کنارے شام بتانے کا اپنا ہی لطف ہے‘ پھر پرانے دوست۔
کمال یہ ہوا کہ تاخیر کے باوجود سیٹ مل گئی۔ اس پر اللہ کا شکر ادا کیا‘ لیکن پھر اخبار اٹھایا تو اس میں الجھا دینے والی خبر تھی۔ نجکاری کا فیصلہ ہو چکا مگر پیپلز پارٹی کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ اس لیے کہ پانچ ہزار ملازم اس کے دور میں بھرتی ہوئے تھے۔ اس کی ناراضی کا احتمال ہے۔ سبحان اللہ۔ ملک کی معاشی بربادی کی کوئی پروا نہیں‘ زرداری صاحب کو کوئی بات ناگوار نہ ہو۔ سامنے کا سوال یہ ہے کہ ملازمین کی تعداد تو پہلے ہی زیادہ تھی۔ مزید پانچ ہزار آدمی کس لیے بھرتی فرمائے گئے؟ یونین کا ایک لیڈر یاد آیا۔ سات برس ہوتے ہیں‘ لاہور کے ہوائی اڈے پر اتفاق سے ملاقات ہوئی۔ کہا: زرداری صاحب نے وہ مطالبات بھی مان لیے جو ہم نے پیش ہی نہ کئے تھے۔ حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ۔
قائد اعظم کے بعد شاذ ہی کسی حکمران نے اس ملک کو اپنا گھر سمجھا۔ بڑھتے بڑھتے سرکاری اداروں کا خسارہ 300 ارب سے 800 ارب تک جا پہنچا ہے۔ ٹیکس وصولی ایک تہائی سے کم ہے۔ کتنا بھی رو پیٹ لیجئے‘ جناب اسحاق ڈار کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ افسر شاہی مسلسل موٹی اور بدوضع ہوتی جا رہی ہے۔ ساری دنیا میں اب یہ ماہرین کا دور ہے۔ تعلیمی اور تربیتی ادارے ہیں جو ہر شعبے کے لیے وہ لوگ تیار کرتے ہیں‘ جو ہر روز بدلتی دنیا کے تقاضوں کا ادراک کر سکیں۔ یہاں وہی سی ایس ایس افسر ہے۔ Jack of All Trades, Master of None۔
خواجہ سعد رفیق نے بیان کیا کہ سب کچھ کر گزرے مگر ریل کے بعض ڈبوں کے بلب نہ جل سکے‘ پنکھے نہ چل سکے۔ آخرکار ایک بوڑھے کاریگر نے بتایا کہ باہر اور اندر لگائی گئی تاروں میں فرق ہے۔ ریل کو‘ سٹیل مل کو‘ پی آئی اے کو‘ واپڈا کو‘ مزدور لیڈروں نے برباد کیا اور افسر شاہی نے۔ سب سے زیادہ ذمہ داری مگر لیڈروں کی ہے۔ دنیا ازل سے ایسی ہی تھی اور ابد تک ایسی ہی رہے گی۔ کچھ لوگ مسائل پیدا کرتے ہیں اور ان معاشروں میں بہت زیادہ‘ جہاں احتساب کا نظام نہ ہو۔ یہ ایک مسلسل جدوجہد ہے۔ مایوس ہو کر بیٹھ جانے‘ کڑھنے اور خود ترحمی کا شکار ہونے سے کچھ حاصل نہیں۔ زرداری حکومت کے خلاف واویلا نہ کیا جاتا تو شاید شریف حکومت اس سے بھی بدتر ہوتی۔ ان سے بہرحال بہتر ہے۔ فریاد جاری رہے‘ دبائو برقرار رہے تو ممکن ہے کہ کچھ اور بہتر ہو جائے۔ یہ بھی نہیں تو نئی قیادت ابھرے اور گاڑی پٹڑی پر چڑھ جائے۔ نئی اقوام کا مقدر یہی ہے۔اوّل اوّل غیر ذمہ دار اور احمق لوگ ہی اس کی گردن پر سوار ہوتے ہیں۔ قائد اعظم کا خیال یہ تھا کہ ایک نئی ریاست کو حقیقی ریاست بننے میں ایک صدی کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ بہت وقت رائیگاں ہوا؛ ... کم از کم دفاعی اعتبار سے اب یہ ایک محفوظ ملک ہے۔ سلامتی کو اگر خطرہ ہے تو درون سے ہے۔ مذہبی اور لسانی انتہاپسندوں سے‘ این جی اوز سے۔ بھارتی خطرے کا بڑی حد تک سدباب ہو چکا۔ حکمت عملی اچھی ہو تو نہ صرف دفاعی بلکہ معاشی طور پربھی ملک کا مستقبل منور ہو سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ جانے کے لیے چین کے پاس یہی ایک رستہ ہے۔ بھارت کو وسطی ایشیا سے اگر تجارت کرنی ہے‘ اور ظاہر ہے کہ کرنی ہے تو ایک دن اسے پاکستان کے ساتھ صلح کرنی ہو گی۔ مغرب کے لیے مضمونِ واحد ہے۔ عربوں کی سرزمین جب سے بحران کا شکار ہے‘ پاکستان کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہو چکا۔ کسی کے غم پر مسرت تو ایک منفی جذبہ ہے اور استحصال تو ہرگز نہ کرنا چاہیے۔ اس بحران نے مگر پاکستان کے لیے مواقع پیدا کر دیئے ہیں۔ حکمرانوں کے لیے عقل سلیم کی دعا کرنی چاہیے اور پورے خلوص کے ساتھ۔
اسحاق ڈار اگر محض ایک اکائونٹنٹ نہ ہوتے اور جناب نواز شریف کو اگر زرداری صاحب کی بجائے ملک کی فکر ہوتی تو پی آئی اے کی نجکاری اب تک ہو جانی چاہیے تھی۔ اب تک نہیں تو آئندہ چند ماہ میں۔ سرکاری شعبے میں اس کی نمود کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ساری دنیا میں سرکاری فضائی کمپنیاں سمیٹی جا چکیں۔ پاکستان کے لیے قدرت کا قانون بدل نہیں سکتا۔
بس یہی ایک نکتہ ہے۔ زندگی سب کے لیے ایک جیسی ہے۔ قدرت کا کوئی لاڈلا بچہ نہیں ہوتا۔ اس کی صفت رحم‘ اگرچہ صفت عدل پر غالب ہے مگر وہ تمام انسانوں کا رب ہے‘ صرف مسلمانوں کا نہیں۔