تصادم اور نفرت اسلام نہیں۔ اگر کوئی غور کرے تو جان لے کہ نفرت کے مبلغ کون ہیں۔ وہی، جو پاکستان کے مخالف تھے اور قائد اعظم کو انگریزوں کا ایجنٹ قرار دیتے۔ مگر افسوس کہ کم ہی لوگ غور کرتے ہیں۔
اچھی خبر یہ ہے کہ چار سدّہ اور پٹھانکوٹ کے باوجود پاک بھارت خارجہ سیکرٹریوں کی بات چیت ہو سکتی ہے ۔ بھارت اور پاکستان کے سیاسی اور انتظامی حلقوں میں، دونوں میں ہمیشہ دو نقطۂ نظر رہے ۔ فوج میں ، دفترِ خارجہ میں ، سیاسی پارٹیوں میں ،صدور یا وزرائے اعظم کے دفاتر میں ۔ ایک یہ کہ بھارت پاکستان کو ختم کرنے پہ تلا ہے ؛چنانچہ دروازہ بند کر دیا جائے ۔ برہمن کے ساتھ بات کرنے، اس کی شکل دیکھنے سے انکا رکر دیا جائے ۔ بھارت کا رویہ بھی یہی رہا۔ پاکستان کو وہ دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ۔
سبرامنیم قماش کے لیڈر تبلیغ کرتے رہے کہ پاکستان کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے ۔ چہرے مہرے سے یہ صاحب نہایت معقول نظر آتے ہیں ۔ جب بھی مگر بولتے ہیں ، کفن پھاڑ کر بولتے ہیں، حال ہی میں یہ کہا : پاکستان کے ہم نے دو ٹکڑے کیے تھے، اب چار کریں گے ، پھر آٹھ کریں گے ۔ پھر اس کا نام و نشان مٹا دیں گے ۔ جنون اسی کا نام ہے ۔ پاگل پن اسی کو کہتے ہیں...اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ خدا کی اس دنیا میں ہر پاگل اور جنونی خاک چاٹتا ہے۔ آدمی کی جو بھی کمائی ہے ، محنت اور ریاضت کے ساتھ، حکمت کی مرہونِ منت ہوتی ہے ۔ نفرت کی آگ اگلنے والا دوسروں کو جلائے یا نہ جلائے ، خود کو بھسم کر کے رہتاہے ۔
ایک ہزار برس کے بعد بھارتیوں کو آزادی ملی ۔ غور انہیں اس پر کرنا چاہیے تھا کہ غلامی کی تاریک رات ان پہ کیوں مسلّط ہوئی ۔ بالکل برعکس ، آزادی ملتے ہی انتقام کا بھوت ان پر سوارہو گیا ۔ سبرا منیم کو چھوڑیے، وہ معاشرے کا کچہرا ہے ۔ سستے جذبات ابھارنے اور ان سے کھیلنے والے اس طرح کے سیاستدان ساری دنیا میں ہوتے ہیں ۔ اب تو ریاست ہائے متحدہ میں بھی ایک ایسا لیڈر جنم لے چکا، ڈونلڈ ٹرمپ۔ تعصب بیچ کر جو دنیا کا سب سے اہم عہدہ حاصل کرنے کا آرزومند ہے ۔ برطانیہ میں اس کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے ۔ انگریزی قانون کی رو سے نسلی اور مذہبی نفرت پھیلانا جرم ہے۔
تحریکِ آزادی کے عظیم ہیرو موتی لعل نہرو کے فرزندِ ارجمند برطانوی یو نیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ ، تاریخِ عالم پر نگاہ رکھنے والے پنڈت جواہر لعل نہرو کے اندر بھی ایک سبرا منیم تھا۔ پاکستان بنا تو انہوں نے اعلان کیا کہ شبنم کے قطرے کی طرح ، سورج کی اوّلین کرنیں جسے تحلیل کر دیتی ہیں ، پاکستان موت کے گھاٹ اتر جائے گا ۔ کشمیر پہ وہ چڑھ دوڑے اور اس مناقشے کی بنیاد رکھی ، جس کے بطن سے تین خون ریز جنگوں نے جنم لیا ۔ 1948ء میں کشمیر کا ایک حصہ پاکستان سے آملا ۔ دوسرے پر بھارت نے قبضہ جما لیا ۔ یہ جنگ ایک طرح سے برابر رہی ۔ 1965ء میں بھی کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ کشمیر میں چھاپہ مار کارروائی سے ابتدا ہم نے کی تھی ۔ بین الاقوامی سرحدوں پر یلغار ہندوستان نے کی ۔ اس قدر وہ پر اعتماد تھے کہ بھارتی سینا کے سربراہ نے چھ ستمبرکی شام، لاہور کے جم خانہ میں جام اچھالنے کا اعلان کر دیا تھا۔ مغرب کو بھارتی بالا دستی پر اعتماد اس قدر تھا کہ امریکی سفیر راولپنڈی کے ایوانِ صدر پہنچے اور ایوب خان سے انہوں نے یہ کہا: ''تو جنابِ صدر انہوں نے آپ کی گردن پکڑ لی۔‘‘ انتہا یہ ہے کہ بی بی سی نے ، جسے آج بھی دنیا کے معتبر ترین اداروں میں سے ایک مانا جاتاہے ، لاہور پر بھارتی قبضے کی خبر نشر کر دی۔ مغرب میں کسی کو اندازہ ہی نہ تھا کہ پاکستانی سپاہی کیا ہے ۔ انہیں معلوم نہ تھا ڈھیلے ڈھالے، اناج خور معاشرے کا یہ فرزند میدانِ جنگ میں اپنی جون ہی بدل لیتاہے ۔ دشمن کے مقابل زبانِ حال سے وہ پکارتاہے ؎
مفاہمت نہ سکھا جبرِ ناروا سے مجھے
میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے
ایمان کی ایک رمق بھی اگر کسی مسلمان کے سینے میں باقی ہو تو جہاد پر اس کا ایمان ہوتاہے ۔ جو لوگ ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیںکہ اللہ اور ا س کے رسولؐ کو خیر باد کہہ کر ملک کو سیکولر خطوط پر استوار کیا جائے، وہ اس قوم کو سمجھ نہیں سکے۔ پاکستان اللہ کے نام پر وجود میں آیااور اسی نام پر قائم رہے گا۔
مذہبی جنونیوں کی بات دوسری ہے ۔ ان کی مٹی نفرت کے زہر میں بجھی ہے ۔ بھارتی انتہا پسندوں کی طرح وہ بھی پاگل پن کا شکار ہیں۔ انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں ۔ وہ اپنے مکاتبِ فکر اور اپنے اساتذہ کے اسیر ہیں ۔ ان کا کوئی تعلق سرکارؐ سے نہیں ۔جہاد کی شرائط ہیں اور ہر حال میں پابندی لازم ہے ۔ اس لیے کہ اللہ کا قانون کبھی نہیں بدلتا ۔
یومِ بدر کی سویر سیدنا بلالؓ نے وہ فرمان پڑھ کر سنایا تھا جوابدالآباد تک نافذ رہے گا : درخت نہیں کاٹا جائے گا۔ فصل نہیں جلائی جائے گی ۔ کھیت میں کام کرتے کسان اور کارخانے میں مصروف مزدور کو امان ہے ۔ بوڑھوں ، بچّوں اور عورتوں کو قتل نہ کیا جائے گا۔ پاگلوں اور جنونیوں کے یہ ٹولے اسلام کی روحانی روایات سے کوئی رشتہ نہیں رکھتے ۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ دشمنوں کی نسبت اپنے ہم وطنوں کو وہ زیادہ قتل کرتے ہیں ۔ پاکستان کے ساٹھ ہزار شہریوں اور پانچ ہزار عساکر کو وہ شہید کر چکے ۔ ان پر تین حرف بھیجنے چاہئیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دشمن کو دوست سمجھ لیا جائے ۔ مصالحت کی کوشش جاری رہنی چاہیے مگر مرعوبیت اور خوف کے ساتھ نہیں ۔ اصحابِ رسولؓ میں ایسے تھے ، جن کا ایقان تھا کہ فتح مکّہ کی بنیاد صلحِ حدیبیہ کے دن رکھی گئی ۔ اس دن کا معاہدہ لکھتے ہوئے عالی جنابؐ نے گوارا فرمایا کہ آپ کے نام کے ساتھ ''رسول اللہ ‘‘کے الفاظ حذف کر دئیے جائیں ۔ عمر ابنِ خطابؓ مضطرب تھے۔ ان کا یہ اضطراب بہت دیر باقی رہا؛حتیٰ کہ مدینہ جاتے ہوئے عالی جنابؐ سے گزارش کی ۔ دل کھول کر رکھ دیا ۔ آپؐ نے روشنی ڈالی تو گرہ کھل گئی ۔ پھر بہت دیر اس خیال میں مبتلا رہے کہ کہیں ان کا ایمان مجروح نہ ہو گیا ہو، ایسے تھے وہ ۔ قرآنِ کریم یہ کہتاہے کہ ناقص خیال ان کے ذہن میں پیدا ہو تو چونک اٹھتے تھے ۔ ادھر ہمارے یہ مذہبی لیڈر ہیں کہ ناقص سوچتے اور ناقص کی تبلیغ کرتے ہیں ۔ اپنے تعصبات کے اسیر، روشنی سے تہی ، اجالے سے محروم ع
ہمیں ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں
رحمتہ للعالمینؐ کے روشن مضامین میں سے ایک ہے: الدّینُ النَصِیحہ۔ دین خیر خواہی ہے۔ عام مخلوقات اور شجر و حجر تک کی۔ ایک شدید آندھی کے دن آپؐ نے ابو جہل کے دروازے پر دستک دی تھی۔ ایمان لانے کی اسے دعوت دی۔ وہی بدقسمت نکلا، وگرنہ دنیا اور آخرت کی سب سعادتوں کے سب دروازے اس پر کھل جاتے۔
نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملاّ خطرہ ایمان۔ قدامت پسند اور نیم خواندہ مذہبی طبقات نے ملک کو اِس حال میں پہنچا دیا کہ غیر مسلم خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ خدا کی پناہ، یوم آخرت، اللہ کے رسولؐ کا سامنا وہ کیسے کریں گے؟ دمِ رخصت کن چیزوں پر آپؐ نے زور دیا تھا؟ نماز پر، غلاموں کے ساتھ حسن سلوک پر اور غیر مسلموں کے ساتھ۔
تصادم اور نفرت اسلام نہیں۔ اگر کوئی غور کرے تو جان لے کہ نفرت کے مبلغ کون ہیں۔ وہی، جو پاکستان کے مخالف تھے اور قائد اعظم کو انگریزوں کا ایجنٹ قرار دیتے۔ مگر افسوس کہ کم ہی لوگ غور کرتے ہیں۔