ہر انحراف بنیادی طور پر علمی ہوتا ہے۔ اگر تجزیہ ہی بے بنیاد ہو تو ڈھنگ کی منصوبہ بندی کیونکر ممکن ہو گی؟ ع
جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا؟
جنرل محمد ضیاء الحق جب ایک جونیئر فوجی افسر تھے تو گاہے مذہبی اجتماعات میں شریک ہوا کرتے۔ وہ بھرپور جلسے جو ساٹھ اور ستر کے عشرے میں اکثر منعقد ہوا کرتے اور جن میں واعظ سامعین کا لہو گرماتے۔ وہ راولپنڈی کی مری روڈ پر مقیم تھے۔ عام شہریوں کا لباس پہنے اکثر وہ بائیسکل یا تانگے پر سوار ہو کر ان جلسوں میں شریک ہوتے۔ ایسے ہی ایک اجتماع میں، جب مقرر کے متنازعہ جملوں پر ہنگامہ برپا ہوا، دوسروں کی طرح وہ سر پہ پائوں رکھ کر بھاگے اور احتراز کا فیصلہ کیا۔
17 اگست 1988ء کا حادثہ رونما ہونے کے چند دن بعد یہ داستان مجھے ان کے اردلی پیر محمد نے سنائی، جو عمر بھر ان کے ساتھ رہا۔ جنرل کی شہادت کے بعد، میں اپنے بڑے بھائی میاں محمد یٰسین کے ساتھ ان کے ہاں تعزیت کے لیے گیا تو خاندان سے میرا تعارف کرایا گیا۔ یٰسین صاحب جنرل کے گہرے ذاتی دوست تھے۔ میاں محمد یٰسین میرا تعارف کرا چکے تو کچھ دیر سناٹا رہا، پھر اعجازالحق نے کہا: حیرت ہے، اقتدار کے اس طویل عرصے میں، آپ نے کبھی نہ بتایا کہ اس خاندان سے آپ کا تعلق ہے۔
ان کے پورے عہد میں کبھی ایک لفظ ان کی حمایت میں نہ لکھا۔ اب البتہ کبھی کبھار مجھے مرحوم سے ہمدردی محسوس ہوتی ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب معاشرے کی تمام خرابیوں کے لیے اس شخص کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ حیرت کے ساتھ آدمی یہ سوچتا ہے کہ کیا اس سے پہلے کا پاکستان جنت کا نمونہ تھا؟ جنرل محمد ضیاء الحق سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ جی ہاں! وہ مقبول عوام تھے۔ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی جو آج ملک کے دفاع کی سب سے بڑی اور بنیادی ضمانت ہے۔ 1973ء کا دستور ان کا کارنامہ ہے اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ افتادگانِ خاک کو انہوں نے آواز عطا کی۔ سیاست میں عام آدمی کا کردار ان کے طفیل بڑھا کہ ملک کی پہلی اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی انہوں نے قائم کی۔ مسلم ممالک سے تعلقات میں انہوں نے گہرائی پیدا کی۔ عامی اور ادنیٰ کی پاسپورٹ کے دفتر تک رسائی ممکن ہوئی۔ لاکھوں پاکستانیوں کو سمندر پار روزگار نصیب ہوا، جن کے طفیل پندرہ ملین ڈالر کا زرمبادلہ ہر سال پاکستانی گھروں اور بنکوں تک پہنچتا ہے۔
مگر کیا وہی صاحب نہ تھے جو آٹھ برس تک فیلڈ مارشل ایوب خان کے گن گاتے رہے۔ دوسرے کاسہ لیسوں کی طرح نہیں بلکہ ان سے بہت بڑھ کر۔ ایوب خان کو وہ کبھی ایشیا کا ڈیگال قرار دیتے اور کبھی عصر حاضر کا صلاح الدین ایوبی۔ وہ سرکاری پارٹی، کنونشن مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف صدارتی امیدوار، فیلڈ مارشل کے متبادل امیدوار۔
1966ء میں جمہوریت انہیں تب یاد آئی جب وہ کابینہ سے برطرف کر دیئے گئے، ورنہ وہ یک جماعتی نظام کے حامی تھے۔ ان کا یہ ارشاد تاریخ کا حصہ ہے کہ ہر ضلع کے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو سرکاری پارٹی کا سیکرٹری اور ڈپٹی کمشنر کو صدر ہونا چاہیے۔ مائوزے تنگ اور کم ال سنگ ایسے لیڈر اُن کے رول ماڈل تھے۔ اس حد تک کہ اپنے وزراء کے لیے انہوں نے ایک وردی متعارف کرائی۔ ولی خان اسی بنا پر انہیں بینڈ ماسٹروں کا ٹولہ کہا کرتے۔
جنرل محمد ضیاء الحق نے پہاڑ سی غلطیاں کیں۔ انہیں ادراک نہ تھا کہ مذہبی طبقہ کن خرابیوں کا حامل ہے۔ وہ اتنی سی بات نہ سمجھ سکے کہ یہ طبقہ تب وجود میں آتا ہے، مذہب جب عملی طور پر نافذ نہیں رہتا۔ ان میں سے اکثر فرقہ پرست ہوتے ہیں۔ اپنے مکاتب فکر سے غیر فطری حد تک غیر معمولی وابستگی کی بنا پر تنگ نظر۔ ان کی سرپرستی ایک عظیم حماقت تھی اور وہ بھی اس حد تک کہ غیر سرکاری لشکروں میں ڈھال دیئے جائیں۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی کے نتیجے میں، ذات برادری کی سیاست ان کے دور میں پروان چڑھی اور میاں محمد نواز شریف ایسے لیڈروں کو وہ مسلط کر کے چلے گئے۔ وہ لوگ جنہیں ذاتی کاروبار اور مفاد ملک سے زیادہ عزیز ہے۔ بہت سی اور غلطیاں بھی گنوائی جا سکتی ہیں۔ ان پر تنقید کا جواز ہے اور پورا جواز مگر ذوالفقار علی بھٹو؟
مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ان کا کردار ہے اور کوئی ایسا شخص ہی اس سے انکار کر سکتا ہے، جو پرلے درجے کا بے خبر یا مرحوم کی محبت میں اندھا ہو۔ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کو اکثریت حاصل تھی مگر جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے ساتھ مل کر انہوں نے انتقالِ اقتدار کو ناممکن بنا دیا۔ مجیب اگر من مانی کرتے تو خود بنگالی ان سے نمٹ لیتے۔ بھٹو نے مگر سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں پر اکتفا کرنے سے انکار کر دیا؛ حتیٰ کہ فساد پھوٹ پڑا اور ملک دولخت ہو گیا۔ خورشید شاہ نے بالکل ٹھیک کہا، عوامی سیاست سے، عوام کے ووٹوں سے اس ملک نے وجود پایا تھا مگر بھٹو کی عوامی سیاست نے اسے توڑ ڈالا؛ اگرچہ عسکری قیادت بھی اتنی ہی بلکہ شاید ان سے زیادہ ذمہ دار تھی۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے اولین خطاب میں انہوں نے اپوزیشن کا مذاق اڑایا۔ پھلتی پھولتی صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا، جبکہ دنیا بھر میں سوشلزم کا تجربہ ناکام ہو چکا تھا۔ ایف ایس ایف کے نام سے اپنی ذاتی فوج بنائی۔ حزب اختلاف کے بارے میں ان کا طرز عمل یہ تھا کہ 23 مارچ 1973ء کو لیاقت باغ کے جلسۂ عام پر گولیاں برسائیں۔ لاہور کے شاہی قلعے کو انہوں نے آباد رکھا اور پریس کو پا بہ زنجیر۔ شاہی قلعے کے اسیروں کی فہرست میں حنیف رامے کا نام بھی شامل ہے اور ان کے مغضوب اخبار نویسوں میں ان کے ذاتی دوست حسین نقی بھی تھے۔ یہی نہیں اپنے بعض ساتھیوں کو خفیہ طور پر دلائی کیمپ میں محبوس رکھا تو عدالت میں ان کی حکومت مکر گئی۔ بلوچستان پر فوج کشی کی اور ایک بار پھر پہلے ادوار کی اس کشمکش کو تیز کر دیا، جس کے نتیجے میں علیحدگی پسند قوتیں پروان چڑھیں کہ بھارت اور اس کا حلیف سویت یونین پاکستان توڑنے پر تلے تھے۔
پیپلز پارٹی کے بانی کو ایک عظیم جمہوری لیڈر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جمہوری لیڈر؟ 1977ء کے انتخابات میں وہ بلا مقابلہ منتخب ہوئے اور اخبارات کو ایک تصویر جاری کی گئی، اس ہدایت کے ساتھ کہ
وہ تین کالمی شائع کی جائے۔ فخر ایشیا قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو، لاڑکانہ کی نشست سے بلا مقابلہ قومی اسمبلی کے ممبر چن لیے گئے۔ چن لیے گئے؟ مخالف امیدوار جان محمد عباسی کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ بھٹو صاحب کے چاروں وزرائے اعلیٰ بھی ''بلا مقابلہ‘‘ منتخب ہوئے۔
صدارتی نظام نافذ کرنے کی بے تاب تمنا میں 1977ء کے انتخابات میں انہوں نے ڈٹ کر دھاندلی کی۔ عام اندازہ یہ تھا کہ اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد اور اس کی شاندار مہم کے باوجود پیپلز پارٹی فتح یاب رہتی۔ مگر انہیں دوتہائی اکثریت درکار تھی۔
1990ء میں جنرل محمد ضیاء الحق پر کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تو ان کے خاندان کی بعض خواتین سے ملا۔ حیران کن انکشاف یہ ہوا کہ اپریل 1977ء کے اواخر تک وہ بھٹو کے حامی تھے اور اپوزیشن پارٹیوں سے اظہار بیزاری کیا کرتے۔ پی این اے کے ساتھ بات چیت بے نتیجہ رہی اور نوبت خانہ جنگی تک پہنچی تو فوج نے مارشل لاء نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔
مارشل لاء نہیں، ملک کی نجات جمہوری نظام کے استحکام میں ہے۔ ہاں مگر ایسا جمہوری نظام جس کی عدالت اور پولیس عام آدمی کو انصاف دے سکے۔ چیف جسٹس کے بقول، جس میں تھانے بکتے نہ ہوں۔ فوجی حکومت تو فوجی حکومت ہی ہوتی ہے۔ کمزور اخلاقی بنیاد کے سبب، اس کی ساری توانائی خود کو بچانے پر لگی رہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا منتخب حکومتوں میں سے کسی ایک نے بھی ستائے گئے درماندہ اور مظلوم پاکستانیوں پر عدل کا دروازہ کھولنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی؟ کوئی جامع منصوبہ؟ صد حیف کہ وہ تو اپنی پارٹیوں کی جمہوری تشکیل پر بھی آمادہ نہیں۔
ہر انحراف بنیادی طور پر علمی ہوتا ہے۔ اگر تجزیہ ہی بے بنیاد ہو تو ڈھنگ کی منصوبہ بندی کیونکر ممکن ہو گی؟ ع
جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ نظر کیا؟