لِکل امت اجل۔ ہرگروہ کے لیے موت مقرر ہے۔ شریف خاندان کو مگر ملّا کے ہاتھوں کیوں مرنے دیا جائے؟
مولانا محمد خاں شیرانی نے اسلامی نظریاتی کونسل کا اجلاس طلب کیا ہے۔ ایجنڈے کے مطابق اگرچہ موضوعِ بحث پنجاب اسمبلی کا تحفظِ حقوقِ نسواں بل ہو گا‘ گمان یہ ہے کہ علمائے کرام ممتاز قادری کی سزائے موت پر بھی غور فرمائیں گے۔ لیاقت باغ کی نمازِ جنازہ میں سینیٹر سراج الحق کی شرکت، حقوقِ نسواں بل پر مولانا فضل الرحمٰن کے واویلے اور اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس سے کیا یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مذہبی سیاسی پارٹیاں حکومت کے خلاف تحریک چلانے پر تل جائیں گی؟ کونسل کا اجلاس دو لطیفوں کے جلو میں ہو گا۔ اوّل یہ کہ مفتیانِ کرام پہلے ہی اسے مسترد کر چکے تو غور و خوض کس بات پر؟ ثانیاً محمد خاں شیرانی نے اس بل کو دو قومی نظریے سے متصادم کہا۔ دو قومی نظریہ اور مولانا شیرانی؟ جو یہ فرمایا کرتے ہیں کہ وہ جمعیت علمائے اسلام نہیں‘ بلکہ جمعیت علمائے ہند کے ممبر ہیں۔ فقط یہ نہیں کہ تحریکِ پاکستان کی ان کے اکابر نے مخالفت کی تھی‘ بلکہ بعد ازاں بھی کچھ ان میں یہ کہتے رہے کہ پاکستان بنانے کے ''گناہ‘‘ میں وہ شامل نہیں تھے۔
حصولِ پاکستان ایک عظیم مقصد تھا۔ صدیوں بعد مسلم برصغیر متحد ہوا تھا۔ جن کے اپنے علیحدہ گروہ ہیں، ان کے اپنے الگ مفادات ہوتے ہیں اور الگ ترجیحات۔ قرآنِ کریم تو یہ قرار دیتا ہے کہ مستقل طور پر الگ گروہوں کا وجود اسلام سے بے وفائی ہے۔ پنجابی محاورے کے مطابق مگر سوئے ہوئوں کو جگایا جا سکتا ہے، جاگتے ہوئوں کو نہیں۔ ؎
خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
مولانا فضل الرحمن اس قدر برہم کیوں ہیں؟ بھارت نواز اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مولانا کے دو اخبار نویس دوستوں نے احترام ملحوظ رکھتے ہوئے‘ ان سے اختلاف کیا ہے۔ ایک کا خیال یہ ہے کہ مولانا اپنے حلقہء انتخاب کو آسودہ رکھنے کے آرزومند ہیں۔ بعض کا خیال یہ ہے کہ وہ کچھ سیاسی یا مالی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ مولانا کے تیور بہرحال یہ ہیں کہ آسانی سے مانیں گے نہیں۔ معمولی یافت سے مطمئن نہ ہوں گے۔ غالباً وہ سمجھتے ہیں کہ خطرے سے حکومت دوچار ہے اور بلیک میلنگ کا یہ سنہری موقع ہے۔ مولوی صاحب کی حرکتوں پر میاں صاحب کو غور کرنا چاہیے، سوچنا چاہیے کہ وہ کسے دودھ پلاتے رہے اور کب تک پلائیں گے؟
پنجاب میں حقوقِ نسواں کا نیا قانون محض شعبدہ بازی ہے۔ آبادی کے بعض طبقات کی حمایت حاصل کرنے کا حربہ۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ بھارت اور مغرب کے نقطہء نظر سے پاکستان کو دیکھنے والی عاصمہ جہانگیر اس قانون کی محرک ہیں۔ عورتیں مظلوم ہیں۔ بہت سے بچّے مظلوم ہیں۔ ہر کمزور اور مفلس اس معاشرے میں مظلوم ہے۔ پولیس اور عدالت اس کی مددگار نہیں۔ اقتدار امیر شاہی کے ہاتھ میں ہے۔ زردار ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ افسر شاہی ملک اور قانون کی بجائے حکمرانوں کی آلہء کار ہے۔ طاقتور پہ قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اصل چیزوں پر توجہ دینے کی بجائے شریف خاندان اور ان کے حواریوں نے جذبات کے استحصال کو شعار کیا ہے۔
ظالم مردوں کے ہاتھ میں کنگن کا تصور کچھ مضحکہ خیز سا لگتا ہے مگر اس میں خلافِ اسلام کیا ہے؟ یہ کڑا کسی خاتون کو ممکنہ تشدد سے محفوظ رکھنے کا حربہ ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے سفاک شوہر کی نقل و حرکت پہ نگراں رہنے کا طریقہ۔ حکمرانوں کے ہاتھ میں کھلونا بنی پولیس اور لاچار عدالتیں مظلوم عورتوں کی مدد شاید نہ کر سکیں؛ البتہ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس میں غیر اسلامی کیا ہے اور دو قومی نظریے کو اس سے کیا خطرہ لاحق ہوا۔
ظاہر ہے کہ مقاصد سیاسی ہیں اور موقف تعصبات سے پھوٹ رہے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے بارے میں اس سے زیادہ کیا عرض کیجیے کہ رشوت کے طور پہ اس کی سربراہی ایک آدمی کے حوالے کی گئی۔ ایک ایسا آدمی جو ہرگز کوئی بڑا سکالر نہیں۔ ہر عہد کی ایک زبان ہوتی ہے۔ کبھی یونانی تھی، کبھی عربی تھی اور اس کے بعد فارسی۔ عصرِ نو کی زبان انگریزی ہے۔ عالی جناب ؐ سے منسوب ایک قول کے مطابق دانا وہ ہے، جو اپنے عصر کو جانتا ہو۔ محمد خاں شیرانی انگریزی نہیں جانتے لیکن اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ عربی کی معمولی سی شد بد وہ رکھتے ہیں۔ روانی سے اردو بھی بول نہیں سکتے۔ کہا جاتا ہے کہ درسِ نظامی کا امتحان بھی انہوں نے پاس نہیں کیا۔ ان کے ہم نفس مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں بھی یہی دعویٰ کیا جاتا ہے۔ سیاسی لوگ ہیں، سیاسی مقاصد، نظریاتی کونسل کی بیشتر نامزدگیاں بھی سیاسی۔
ممتاز قادری کی پھانسی زیادہ گہرے مضمرات رکھتی ہے۔ غالباً یہ فیصلہ بھی مغرب اور مغرب نواز عناصر کو مطمئن کرنے کے لیے صادر ہوا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے زعم اور تکبر کے ساتھ دعویٰ کیا کہ حکومت کو وہ اکھاڑ کر پھینک سکتے ہیں۔ شاید اپنے ہم مسلک سینیٹر سراج الحق کی ممکنہ تائید یا کچھ اور مذہبی لیڈروں کی حمایت کا اشارہ پا کر۔ دوسری طرف مگر دونوں بڑی حریف سیاسی پارٹیاں‘ پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف حکومت کے لیے پریشانی پیدا نہ کریں گی۔ جاگیرداروں کی جماعت پیپلز پارٹی ترقی پسند جماعت کہلاتی ہے۔ ڈٹ کر حمایت نہ کرے گی کہ یوں اس کا تاثر مجروح ہو گا مگر حکومت پر دبائو بھی وہ پیدا نہ کرے گی۔
اس معاملے میں تحریکِ انصاف اور بھی زیادہ کمزور پوزیشن میں ہے۔ شاہراہوں پر گیت گانے اور مردوں کے غلبے کو چیلنج کرنے والی خواتین اس میں زیادہ رسوخ رکھتی ہیں۔ مذہبی سیاسی پارٹیاں شور و غوغا کر سکتی ہیں۔ متحد ہو جائیں تو شاندار مظاہرے اور پریشان کرنے والی ہڑتالیں بھی۔ عام آدمی مگر مولانا فضل الرحمٰن جیسے لیڈروں کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ یہ اندیشہ بھی لاحق رہتا ہے کہ رات کی تاریکی میں حکومت سے وہ سودے بازی کر لیں گے۔ گزرے چار دن میں میڈیا کا رویہ واضح ترین مثال ہے۔ سنسنی پھیلانے اور حکومت کو زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے وہ جانے نہیں دیتا۔ اس معاملے میں مگر وہ حد درجہ محتاط رہا۔ اس قدر کہ احتیاط کی حدود خوف سے جا ملیں۔ رضاکارانہ طور پر اپنی آزادی اور حقوق سے اخبار نویس دستبردار ہو گئے۔ مورچہ سنبھالنے کے جو آرزومند تھے، انہیں سوشل میڈیا کا انتخاب کرنا پڑا۔ پھر یہ بھی ہے کہ خدانخواستہ انارکی اگر پھیلتی نظر آئی تو اقتدار فوج سنبھالے گی۔
چار مارشل لائوں کے تجربے سے آشکار ہے کہ ہر فوجی حکومت کا مزاج اور اس کی ترجیحات سپہ سالار کی شخصیت کا عکس ہوتی ہیں۔ ایوب خان، جنرل محمد ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی پالیسیاں افواج اور قوم کے ضمیر سے زیادہ ان کی اپنی پسند اور ناپسند پہ منحصر تھیں۔ باقی شاملِ باجا ہوتے ہیں۔ آج عسکری قیادت بخوبی یہ جانتی ہے کہ ماشل لا سے اتنے مسائل حل نہیں ہوتے، جتنے پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایک عشرے میں جو کچھ تعمیر ہوتا ہے، ردّ عمل کے چند مہینوں میں برباد ہو جاتا ہے۔ شریف حکومت کی حماقتیں اپنی جگہ، اسے اکھاڑ پھینکنے سے کیا حاصل؟ تبدیلی تو آنی چاہیے مگر ایک بہتر جماعت اور بہتر قیادت کے ساتھ۔ فتنہ و فساد کا فائدہ؟ خواجہ میر دردؔ نے کہا تھا ؎
در د ؔتُو جو کرے ہے جی کا زیاں
فائدہ اس زیان میں کچھ ہے؟
شورش و ہنگامہ سے نہیں، جراتِ رندانہ سے نہیں، ملک کی تقدیر منصوبہ بندی سے بدل سکتی ہے۔ دانش و تدبیر اور حکمت و دانائی سے۔ خون نہیں، پسینہ بہانے سے۔ عرق ریزی سے، جہدِ مسلسل سے۔ دوسروں سے پہلے اپنی اصلاح کرنے سے۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے اسے جہادِ اکبر کہا تھا۔
لِکل امت اجل۔ ہرگروہ کے لیے موت مقرر ہے۔ شریف خاندان کو مگر ملّا کے ہاتھوں کیوں مرنے دیا جائے؟