"HRC" (space) message & send to 7575

الطاف حسین اللہ کی پکڑ میں ہیں

ہر ایک کی مہلت ہے اور ہر مہلت مقرر ہے۔ الطاف حسین ہی نہیں، زرداری بھی زد میں ہیں۔ اوّل شہباز شریف اور کوئی دن میں نواز شریف اور پھر عمران خان بھی ہوں گے۔ کون بچا ہے، جو یہ بچیں گے۔ کل من علیہا فان و یبقی وجہ ربک ذوالجلال و الاکرام۔ اس مٹی پہ سب کچھ فنا ہونے والا ہے۔ باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ۔ بے کراں عظمت اور بے کراں بزرگی والا۔ 
شہاں کہ کحلِ جواہر تھی خاکِ پا جن کی 
انہی کی آنکھ میں پھرتی سلائیاں دیکھیں 
آدمی کو مہلت وہ دیتا ہے، زندگی اور کائنات جس نے پیدا کی۔ انسان کے ذہن میں خناس جنم لیتا ہے۔ افتخار عارف نے کہا تھا: مہلت کو وہ نعمت سمجھ لیتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر، اس شاعر سے بڑھ کر وہ خواب دیکھتے ہیں، جس نے یہ کہا تھا۔ 
گدائے میکدہ ام لیک وقتِ مستی بیں 
قدم سر فلک و حکم بر ستارہ کنم
میکدے کا گدا ہوں مگر عالمِ مستی میں فلک پہ قدم رکھتا اور ستاروں پہ حکم چلاتا ہوں۔
غزنی میں انہیں ''لائی خوار‘‘ کہا جاتا۔ میکدوں کے بھکاری۔ ایسے ہی ایک مجذوب کا ذکر کیا تھا۔ سنائیؔ امیرالشعرا تھے، مقبول اور محبوب۔ ایک شام دربار جاتے تھے کہ قصیدہ گوش گزار کریں۔ لائی خوار کی پیاس بھڑکی تو بادہ فروش سے اس نے فرمائش کی: ایک جام بادشاہ کے اندھے پن کے نام پر۔ اس نے پوچھا: ایسا جلیل القدر فاتح ہے۔ ہندوستان کو فتح کرنے جاتا ہے۔ اندھا کیسے؟ فقیر نے کہا: غزنی میں کون سے چاند ستارے اس نے ٹانک دیے ہیں کہ سلطنت وسیع کرتا ہے۔ بادہ فروش نے پیالہ بھرا تو وہ غٹاغٹ پی گیا۔ پھر بولا: ایک پیالہ سنائیؔ کے اندھے پن کے نام پر۔ 
ٹھیک اس وقت سنائیؔ کی سواری وہاں پہنچی۔ بگھی۔ بادہ فروش نے کہا: بادشاہ کی بات دوسری ہے، سنائیؔصاحبِ ادراک ہے، فصیح و بلیغ، شائستہ اور مہذب۔ مجذوب بولا: اندھا نہیں تو کیا ہے۔ علم اور فصاحت سے قدرت نے مالا مال کیا اور درہم و دینار کے لیے فکر و خیال کے ہیرے بادشاہ کے قدموں میں بکھیرتا ہے۔ 
سنائی لوٹ گئے۔ پھر کبھی دربار کا منہ نہ دیکھا۔ روشنی نصیب ہوئی، موضوعات بدل گئے۔ چہار سو چراغاں۔ مرجع خلائق ہو گئے۔ وہ اور زمانہ تھا۔ وہ اور بادشاہ تھے، وہ اور فقیر۔ سلطان خدمت میں حاضر ہوا اور بہن سے بیاہنے کی پیشکش کی۔ ہر کسی کو یہ اعزاز کہاں نصیب ہوتا ہے۔ غیاث الدین بلبن ہی خوش بخت تھا کہ فریدالدین شکر گنجؒ نے اس کی صاحبزادی کو قبول کر لیا تھا۔ اللہ کے بندے شان و شکوہ کے آرزومند نہیں ہوتے۔ پھر بھی عظمت ان پر ٹوٹ ٹوٹ کر برستی ہے۔گزشتہ صدی کے تیسرے عشرے میں امان اللہ خان کی درخواست پر اقبالؔ نے کابل کا قصد کیا تو غزنی بھی گئے۔ غزنی درویشوں کا دیار ہے۔ کتنے ہی آفتاب اس مٹی میں خوابیدہ ہیں۔ شیخ علی بن عثمان ہجویری ؒ نے لکھا ہے: 360 اولیا کی خراسان میں انہوں نے زیارت کی۔ غزنی خراسان کا قلب تھا۔ یاد پڑتا ہے کہ 1992ء میں افغانستان جانا ہوا تو ایک عجیب آدمی سے ملاقات ہوئی۔ میلے کچیلے جنگجوئوں کے ہجوم میں وہ اجلے سفید پیرہن میں ملبوس تھا۔ غزنی کا وہ تاجدار دارالحکومت میں ملا۔ اصرار کرتا رہا کہ اس کے ساتھ سنائی کے دیار تک جائوں۔ معذرت کی مگر اصرار کا سبب دریافت کیا۔ بولا: ''غٹ مزارونہ‘‘۔ عظیم صوفیا کی نشانیاں ہیں وہاں۔ 
سید سلیمان ندوی نے کہ تاریخی مسافت میں حکیم الامتؒ کے ہم سفر تھے، بعد میں لکھا: سنائیؔ کے مزار پر اقبال بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ لوٹ کر آئے تو ''محراب گل افغان کے افکار‘‘ کے عنوان سے تاریخی نظمیں لکھیں۔ انہی میں وہ شعر جگمگاتا ہے۔
سنائی کے ادب سے میں نے غواصی نہ کی ورنہ 
ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولوئے لالہ
سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ کا مطالعہ اقبالؔ نے انہماک سے کیا تھا۔ اس کی زمین میں غزل بھی لکھی۔ 
یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الٰہ الا اللہ
دھن، دولت اور شہرت و اقتدار کی پوجا کرنے والوں کو کیا پتہ کہ زندگی کیا ہے۔ عارف نے کہا تھا: علم کا سرور، کاش تم اس کی قدر و قیمت سے آشنا ہوتے۔ کتاب کہتی ہے: آخرت ہی افضل و اعلیٰ ہے مگر دنیا پہ تم نثار ہوتے ہو۔ درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغِ رہگزر کو کیا خبر ہے 
کتنے بے شمار لوگوں نے الطاف حسین پہ رشک کیا ہو گا۔ وہ جو ہر چمکتی ہوئی چیز کو سونا سمجھتے ہیں۔ مہاجر نالاں تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہجرت کرنے والے تر دماغوں کا کردار محدود ہوتا گیا۔ پشتون ایوب خان کا فرزند ان پہ چڑھ دوڑا۔ سندھی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ان کی برسوں تحقیر کی جاتی رہی۔ فاطمہ جناح کا ساتھ انہوں نے دیا تھا مگر مادرِ ملت کے خلاف فوجی امیدوار کا متبادل ذوالفقار علی فخرِ ایشیا اور قائدِ عوام بن بیٹھا۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں چنگاری بھڑک کر شعلہ ہو گئی۔ یہ لسانی سیاست تھی۔ الطاف حسین میں کوئی ہنر نہ تھا۔ محرم کی مجلسیں پڑھنے کا تجربہ رکھتے تھے۔ رلا سکتے تھے، ہنسا سکتے تھے۔ جذبات کی آگ بھڑکا سکتے تھے؛ چنانچہ خوب بھڑکائی۔ بیچ بویا جا چکا تھا۔ پانی ملا تو فصل لہلہا اٹھی۔ مہاجروں کو حاصل اس سے کچھ بھی نہ ہوا۔ ہیجان میں لوگ دیوانے ہو جائیں تو غور و فکر سے انکار کر دیتے ہیں۔ بھارت، برطانیہ اور پھر امریکہ نے ان کی سرپرستی کی۔ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف اوّل درجے کے موقع پرست ثابت ہوئے۔ عسکری قیادت بھی۔ حکمران طبقات کے خوف میں وہ پھلتے پھولتے رہے مگر کب تک؟ جغادری اخبار نویسوں پہ اب کھلا۔ سالِ گزشتہ ہی میں نے عرض کر دیا تھا کہ وہ بائی پولر کے مریض ہیں۔ گہرے نفسیاتی عوارض میں مبتلا۔ شفا خانہ امراضِ دماغی میں ان کا علاج ہوتا رہا۔ کئی بار اس ناچیز نے گزارش کی۔ بھارت ہی ان کا مددگار نہیں، پونا سے ممبئی تک پھیلے کیمپوں میں 35 سال سے اوّل جئے سندھ اور پھر ایم کیو ایم کے دلاوروںکی تربیت ہوتی رہی۔ ایم آئی سکس بھی ان کی سرپرست ہے۔ یہ بھی عرض کیا تھا کہ کالا دھن سفید کرنے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے مقدمات میں برطانوی ادارے جان بوجھ کر پردہ پوشی فرما رہے ہیں۔ بات اب کھل کر سامنے آ گئی۔ 
ایک بات اور بھی ہے۔ فقط مصطفی کمال اور انیس قائم خانی ہی نہیں، ایم کیو ایم کے بہت سے لیڈر الطاف حسین کو خیرباد کہنے کے لیے تیار ہیں۔ رینجرز اور فوجی افسروں سے تنہائی میں جب وہ ملتے ہیں تو امان طلب کرتے ہیں۔ لکھ نہیں رہا مگر میں ان کے نام لکھ سکتا ہوں۔ 2013ء میں متحدہ سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر لپک کر کراچی کے ہوائی اڈے پر پہنچے۔ ایک درویش سے پوچھا: الطاف حسین سے ہمیں کب نجات ملے گی؟ 
لیڈر نہیں، پارٹیاں نہیں، فیصلہ کن وقت کا دھارا ہوتا ہے۔ جس سمت کو وہ بہے، زمانہ بہتا ہے۔ 1970ء میں دو اڑھائی کروڑ آدمی یہ سمجھے بغیر سوشلسٹ ہو گئے کہ یہ ہے کیا بلا۔ 1992ء میں سوویت یونین ٹوٹی تو وہ مغرب کے در پہ جا گرے۔ این جی اوز کے بھکاری۔ نئی تہذیب کے گندے انڈے۔ ایم کیو ایم آج دو گروہوں میں بٹتی ہے یا کل۔ دونوں دھڑے عسکری قیادت کی سرپرستی کے طلب گار ہوں گے۔ باہم لڑیں گے۔ افراد کو، گروہوں کو ان کے تضادات تباہ کرتے ہیں۔ 
الطاف حسین خدا کی پکڑ میں ہیں۔ بچ نہیں سکتے۔ دوسروں کو خوف زدہ کرنے والی ان کی وحشت اب انہی کے درپے ہے۔ ایک ہی وار میں ختم کرنے کی بجائے قدرت کا ان دیکھا ہاتھ انہیں سسکتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔ تیری رسوائی کے خونِ شہدا درپے ہے۔ دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا۔ جنرل کیانی کی کردار کشی کرنے والے اگر نہ رکے تو پچھتائیں گے۔ 
ہر ایک کی مہلت ہے اور ہر مہلت مقرر ہے۔ الطاف حسین ہی نہیں، زرداری بھی زد میں ہیں۔ اوّل شہباز شریف اور کوئی دن میں نواز شریف اور پھر عمران خان بھی ہوں گے۔ کون بچا ہے، جو یہ بچیں گے۔ کل من علیہا فان و یبقی وجہ ربک ذوالجلال و الاکرام۔ اس مٹی پہ سب کچھ فنا ہونے والا ہے۔ باقی رہے گا تیرے رب کا چہرہ۔ بے کراں عظمت اور بے کراں بزرگی والا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں