سینیٹ کے معزز چیئرمین سے البتہ ایک سوال پوچھا جا سکتا ہے۔ وہ خود انسانوں کی کس قسم سے تعلق رکھتے ہیں؟ اشرافیہ؟ اشرافیہ کے معاون و مددگار؟، امرا اور طاقتور لوگوں میں سے ایک؟۔ عامی تو وہ بہر حال نہیں۔ وکیل ہیں اور سب جانتے ہیں کہ کس کے وکیل؟
اخبار کے پہلے صفحے پر سب سے نمایاں خبر یہ ہے:مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا: انتخابات میں جو کچھ ہوتا ہے، سب جانتا ہوں۔ بات کروں گا تو میڈیا میں سرخیاں بن جائیں گی۔ تین سال بیتنے کو آئے۔اقتدار کی دو سال سے کچھ ہی زیادہ مہلت باقی ہے۔ مگر یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ قومی اسمبلی کے معزز سپیکر عوامی تائید کے ساتھ ایوان میں براجمان ہیں، یاالیکشن کمیشن کی عنایت سے۔
سوال تو یہ ہے کہ کیا لاہور کے حلقہ 122 میں ایاز صادق کے لیے دھاندلی کی گئی یا نہیں۔ مگر عدالت عظمیٰ میں فی الحال بحث یہ ہے کہ ان پر عائد کردہ 24 لاکھ روپے جرمانے کا جواز ہے کہ نہیں۔
جب چیف جسٹس نے انتخابی نظام کا رونا رویا، اسی روز اسی اخبار میں دوسری رپورٹ کے مطابق پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، عمران خان نے یہ کہا: الیکشن کمیشن کرپٹ، بدنیت اور نواز شریف کا زرخرید ہے۔ وہ نون لیگ کا حصہ ہے اور دھاندلی میں پوری طرح شریک ہے۔ شفاف الیکشن کی اس سے امید نہیں کی جا سکتی۔ حکمران جماعت کی چوتھی وکٹ جلد گرنے والی ہے۔ اگر انصاف نہ ملا تو ایک بار پھر سڑکوں پر آ جائیں گے۔ خواجہ آصف کے حلقے این اے 110کے ریٹرننگ افسر کی رپورٹ میں انتخابی موادکے تھیلوں کی مہریں ٹوٹنے کی نشاندہی کی گئی۔ پاکستان کے بعد اب آزاد کشمیر کے الیکشن کو دھاندلی کا سامنا ہے۔ 2018ء میں دھاندلی کی کوشش کامیاب نہ ہونے دیں گے۔ موجودہ متنازع الیکشن کمیشن کے تحت الیکشن قبول نہ کریں گے۔ اس کمیشن نے حالیہ بلدیاتی انتخابات کے دوران بے ضابطگیوں کے مرتکب افراد کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔ بلوچستان کی پوری تاریخ میں کبھی شفاف الیکشن نہ کرائے گئے۔ یار محمد رند کے حلقے میں ابھی سے دھاندلی کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
تیسری خبر قدرے غیر نمایاںہے، مگر صفحہ اول ہی پر نون لیگ کی شکست والے اضلاع کے الیکشن کمشنر تبدیل۔ خبر کا متن درج ذیل ہے:الیکشن کمیشن آف پاکستان میں حیران کن تبادلے اور تقرریاں کی گئی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تعجب خیز، ایک لائبریرین کو وسطی پنجاب کے ایک ضلع کا الیکشن کمشنر مقرر کیا جانا ہے۔ الیکشن کمیشن کی انتظامیہ نے 8 جنوری کو مرکزی سیکرٹریٹ میں اخبار نویسوں کے داخلے پر پابندی عائد کی۔ اس کے بعد 18جنوری کو گریڈ اٹھارہ کے 54 افسروں کا تبادلہ کیا گیا۔ 3 جنوری کو گریڈ 19 کے 19 افسروں کے تبادلے ہوئے۔ دوسرے مرحلے میں رواں ہفتے گریڈ 18 کے مزید 27 افسروں کا تبادلہ ہوا۔ تبادلوں اور تقرر کے ان واقعات کو میڈیا سے چھپایا گیا۔ جس سے شکوک و شبہات نے جنم لیا۔ الیکشن کمیشن سیکرٹریٹ میں بطور لائبریرین ذمہ داریاں انجام دینے والے افسر کو حیران کن طور پر ایک ضلع(جہلم) کا الیکشن کمشنر بنا دیا گیا ہے۔ مذکورہ افسر اس طرح کی ذمہ داریاں انجام دینے کا قطعاً کوئی تجربہ نہیں رکھتا۔ 7 مارچ کو جاری نوٹیفکیشن کے مطابق جہلم کے ضلعی الیکشن کمشنر کو شہداد کوٹ سندھ میں تعینات کر دیا گیا ہے۔
اسی طرح لاہور کے ضلعی الیکشن کمشنر کو بونیر، جب کہ منڈی بہائو الدین کے ضلعی الیکشن کمشنر کو نصیر آباد بھیج دیا گیا ہے۔
تھوڑی سی تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ صرف ان ضلعی کمشنرز کے تبادلے عمل میں آئے، جہاں حالیہ بلدیاتی انتخابات میں حکمران نون لیگ کے امیدواروں کو زیادہ کامیابی نہ ملی تھی۔ اخبار نویسوں کو یقین ہے کہ یہ اقدامات ان اضلاع میں آئندہ الیکشن میں نون لیگ کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیے گئے‘ جہاں حکمران پارٹی کو مقابلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ضلعی الیکشن کمشنر ایک اہم منصب ہوتا ہے۔ وہ الیکشن کے ہنگام ریٹرننگ افسروں کی رہنمائی کرتا ہے۔ انتخابی حلقوں اور انتخابی فہرستوں کی تیاری میں وہ رجسٹریشن آفیسر کے فرائض انجام دیتا ہے۔
الیکشن کمیشن میں تقرریاں، عام طور پر تین برس کے لیے ہوتی ہیں۔ حال میں تعینات ہونے والے یہ افسر 2018ء کے انتخابات کی نگرانی کریں گے۔ الیکشن کے ایک منصب دار نے، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اخبار نویس کو بتایا کہ ان تبادلوں کے لیے کوئی معیار طے نہ کیا گیا۔ تبادلے صرف انہی افسروں کے ہوئے، اپنے عہدے پر کام کرتے ہوئے، جنہیں تین سال گزر چکے تھے۔
نو تقرر افسروں میں سے کوئی بھی اس معاملے پر بات کرنے کو تیار نہیں۔ انہیں الیکشن کمیشن کی اعلیٰ بیورو کریسی کے رد عمل کا خطرہ ہے۔
لاہور کے ضلعی الیکشن کمشنر کو بونیر میں تعینات کیا گیا ہے۔ صوبائی الیکشن کمیشن کے دو دوسرے اہل کاروں کو سندھ کے اضلاع نوشہرو فیروز اور سجاول کی طرف روانہ کر دیا گیا ہے۔ پشاور میں صوبائی الیکشن میں ذمہ داریاں انجام دینے والے ایک افسر کو گجرات، جب کہ دوسرے کو لاہور بھیج دیا گیا ہے۔
بظاہر یہ تمام تبادلے چاروں صوبائی الیکشن کمشنرز کو اعتماد میں لیے بغیر کیے گئے۔ نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ یہ اقدامات چیف الیکشن کمشنر کی خوشنودی سے بروئے کار آئے۔ دسمبر 2014ء میں چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان کی تعیناتی کے پانچ ماہ بعد، اپریل 2015ء میں سیکرٹری الیکشن کمشنر کا تقرر عمل میں آیا۔ الیکشن کمیشن کے افسروں کا کہنا یہ ہے کہ انتظامیہ کے نئے اقدامات کا مقصد، کمیشن کے تمام معاملات کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے علاوہ 2018ء کے انتخابات سے قبل اپنے لوگوں کو اختیارات سونپنے کی کوشش ہے۔ پہلے ہی سیاسی جماعتوں کی تنقید کے شکار، الیکشن کمیشن کو اب مزید نکتہ چینی کا سامنا کرنا ہو گا۔
سیاسی پارٹیاں کیا کریں گی؟ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے؛ البتہ اسی اخبار کے اسی صفحے پر سینیٹ کے چیئرمین جناب رضا ربانی کا ایک بیان چھپا ہے۔ انتخابی نظام سے اگرچہ اس کا کوئی تعلق نہیں مگر شاید وہ معاملے کی ایک اورجہت کو آشکار کرتا ہے۔ فرمایا: پاکستان میں اشرافیہ اور عام آدمی کے لیے الگ الگ قوانین ہیں۔ آرٹیکل 6(بغاوت) کے مقدمہ میں ملوث ملزم عدالت میں پیش نہیں ہوتا۔ ہر دس سال کے بعد، رونما ہونے والے غیر جمہوری اقدامات نے ایک خلا پیدا کر دیا ہے۔ اسی لیے عوام کو اپنے بنیادی حقوق کے بارے میں آگاہی نہیں مل سکی۔سب کو سمجھنا چاہیے کہ نظام کو متاثر کیا گیا تو وفاقیت کو خطرہ لاحق ہو گا۔ ہمارے تمام سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کا حل، جمہوری عمل کے تسلسل میں پوشیدہ ہے۔ اسی تسلسل کے ذریعے عوام میں ان کے حقوق کا شعور اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ قانون کی حکمرانی اور قانون کے سامنے سب کی برابری کی بنیاد پر ہی نظام میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ نظام کے اندر قانون کے پانچ مختلف درجے وجود میں آ گئے ہیں۔ کچھ قوانین حکمران اشرافیہ کے لیے ہیں۔ ایسے لوگ جنہوں نے آرٹیکل 6کی خلاف ورزی کی ہے، عدالت میں پیش نہیں ہو رہے۔ دوسری قسم کے کچھ قوانین حکمران سول اشرافیہ کے لیے موجود ہیں، تیسری قسم حکمران اشرافیہ کے معاون کاروں، چوتھی قسم امرا اور طاقتوروں، پانچویں عام شہریوں کے لیے ہوتی ہے۔ اکبر بگٹی کیس سامنے ہے، جبکہ آفتاب احمد خان شیرپائو ہر پیشی پر موجود رہتے ہیں۔
چاروں خبریں ایک ذرا سی رنگ آمیزی کے بغیر نقل کر دی گئی ہیں۔ سینیٹ کے معزز چیئرمین سے البتہ ایک سوال پوچھا جا سکتا ہے۔ وہ خود انسانوں کی کس قسم سے تعلق رکھتے ہیں؟ اشرافیہ؟ اشرافیہ کے معاون و مددگار؟، امرا اور طاقتور لوگوں میں سے ایک؟۔ عامی تو وہ بہر حال نہیں۔ وکیل ہیں اور سب جانتے ہیں کہ کس کے وکیل؟