افسوس ہے، اگلے ہوئے لفظ چبانے اور مکھی پر مکھی مارنے والے دانشوروں پر افسوس۔
اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے‘ وہ نظر کیا
کردارکشی الطاف حسین اور ان کے ذاتی وفاداروں کا آزمودہ حربہ ہے۔ وسیم اختر نے فرمایا: ہوائی اڈے پر مصطفی کمال کو پروٹوکول دیا گیا۔ بالکل نہیں۔ پرانی فلم ایک چینل نے چلا دی تھی۔ ان کے پرسنل سیکرٹری دکھائی دیتے ہیں، جواب موجود نہیں۔ وہ اس روز ایک ذاتی دوست کی گاڑی میں گئے۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ انہیں مکان کیسے مل گیا۔ کرایے پر لیا حضور‘ جیسے سب لیتے ہیں۔ ملازمت اچھی تھی‘ لاکھوں روپے کی بچت کرتے ہوں گے۔ تین برس پہلے جب جہانگیر ترین کا طیارہ استعمال کرنے پر عمران خان پر تنقید بڑھی تو ان کے دوستوں نے پیشکش کی تھی کہ وہ ایک عدد طیارہ عطیہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ضرورت پڑے تو ان کے مقصد سے ہمدردی رکھنے والے مدد کر سکتے ہیں۔ بہرحال انہوں نے اچھا کیا کہ فاروق ستار اور وسیم اختر کے الزامات نظرانداز کر دیئے۔
مصطفی کمال کو ایک پیغام ناچیز نے بھیجا تھا کہ اپنا اکائونٹ نمبر دیں تو کچھ روپیہ ارسال کروں۔ جواب ملا: ابھی ضرورت نہیں‘ ابھی اکائونٹ کھولا ہی نہیں۔ پنجاب میں خلق خدا شاد ہے کہ مہاجروں کی ایک امن پسند پارٹی وجود پا رہی ہے۔ سندھ شادمان ہے‘ بلوچستان‘ پختون خوا‘ کشمیر اور گلگت بلتستان بھی۔ کراچی کے وہ مہاجر خورسند جو امن کے آرزومند ہیں‘ دامے‘ درمے‘ قدمے اور سخنے کیا وہ ان کی اعانت نہ کر یں گے؟۔ علامہ طاہرالقادری کے پاس روپے کی فراوانی ہے۔ جماعت اسلامی کو فنڈز کا مسئلہ کبھی درپیش نہیں ہوا‘ کارکن خوش دلی سے ایثار کرتے ہیں۔ الیکشن 2013ء میں تحریک انصاف کی تشہیری مہم پر شہبازشریف نے کہا تھا: کیا ان کے پاس قارون کا خزانہ ہے۔ عوامی عطیات اس قدر تھے کہ کچھ سیف اللہ نیازی اور اس کے ساتھیوں نے مبینہ طور پر ہڑپ بھی کرلیے۔پارٹی بڑی ہو یا چھوٹی‘ وسائل کا حصول مشکل نہیں ہوتا۔ یہ الطاف حسین ہی تھے جنہوں نے بھتہ خوری اور ''را‘‘پر انحصار کیا۔ اس کے بغیر بھی وہ مقبول اور کامیاب ہوتے۔
1996ء میں تحریک انصاف کی بنیاد رکھی گئی تو ایک معروف کاروباری گروپ نے 25 کروڑ روپے کی پیشکش کی۔ قہقہوں کے درمیان حفیظ اللہ خان روداد سناتے ہیں کہ عمران خان الیکشن ہار گئے تو رقم ایک فیصد رہ گئی۔پھر بھی 25 لاکھ ایک بڑی رقم تھی۔
فاروق ستار کا فرمان ہے کہ جیل میں ان کے قیدیوں پر تشدد کیا جا رہا ہے تاکہ انہیں مصطفی کمال سے وابستگی پر آمادہ کیا جائے۔ جیل میں صوبائی حکومت کا حکم چلتا ہے۔ کیا پیپلزپارٹی کی قیادت مصطفی کمال کو پروان چڑھا رہی ہے؟۔ موصوف کے مطابق رینجرز کے دستے بھی وہاں موجود تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عسکری قیادت اور پیپلزپارٹی میں اس پر اتفاق رائے ہو چکا؟۔ ظاہر ہے کہ جنرل راحیل شریف کی اجازت کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ تو کیا وہ بھی اس بھونڈی حرکت میں شریک ہیں‘ اگر وہ واقعی سرزد ہوئی؟۔
کس قدر احمقانہ الزام ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اگر حمایت میں سرگرم ہے تو کیا یہ کام احمقوں کے کسی ٹولے کو سونپا گیا ہے‘ جو یہ بھی نہیں جانتا کہ تشدد سے توڑ کر اگر کچھ لوگوں کو کسی پارٹی میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے گی تووہ مزاحمت کریں گے؛ چنانچہ بھد اڑے گی۔ مزید یہ کہ رام کرنے کے لیے ایک ایک آدمی سے بات کی جاتی ہے‘ کسی جتھے سے نہیں۔ آپس کی بات یہ ہے کہ سنگین جرائم میں وہ لوگ ملوث ہیں۔ پیشکش کی جائے گی تو وہ قبول کر لیں گے۔ فاروق ستار کے الزام سے آشکار ہے کہ دراصل ان کی رہائی وہ نہیں چاہتے۔
مسلسل پروپیگنڈے کی بھرمار سے بعض احمقانہ مفروضے بھی تسلیم کر لیے جاتے ہیں‘ مثلاً یہ ایم کیو ایم ضیاء الحق حکومت نے تعمیر کی تھی۔ کیا اسی لیے مزار قائداعظم پر پاکستان کا جھنڈا انہوں نے جلایا تھا؟۔ نیک نامی کی انہیں ضرورت تھی یا رسوائی کی؟۔ آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اس کی اساس تھی‘ اسلامی جمعیت طلبہ کے علاوہ جو جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم تھی اور ملک بھر میں موثر‘ جامعہ کراچی میں کئی درجن طلبہ تنظیمیں متحرک تھیں‘ سب کی سب علاقائی اور لسانی۔ احساس عدم تحفظ کا شکار سندھیوں‘ پنجابیوں‘ پشتونوں اور بلوچوں ہی کی نہیں‘ چترالیوں اور کوہستانیوں تک کی‘ گلگت‘ بلتستان والوں اور کشمیریوں کی۔
ممتاز بھٹو کی متعصب سندھی حکومت‘ ایوب خان کے بعد جو مادر ملت کی پرجوش تائید پر کراچی والوں سے ناراض تھے‘ ذوالفقار علی بھٹو کی مخالف پالیسیوں کی وجہ سے‘ مہاجروں میں بے چینی تھی۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام سے مایوس ہو کر پہلے طلبہ اور پھر زیادہ بڑی عوامی سطح پر مہاجر منظم ہوئے۔ مشرقی پاکستان کا تجربہ ان کے سامنے تھا۔ عبدالولی خان کی این اے پی‘ جئے سندھ اور علیحدگی پسند بلوچ لیڈروں کا بھی۔ غیرملکیوں نے ان سب کی مدد کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی متنازع پھانسی کے بعد،جس میں گواہ سرکاری اہتمام سے لائے گئے‘ اسٹیبلشمنٹ سمیت پوری قوم سندھیوں کو چومنے چاٹنے میں لگی تھی۔ پی ٹی وی کے سالانہ ایوارڈ جاری ہوتے تو سندھی ڈراموں اور سندھی اداکاروں کو ترجیح دی جاتی۔ فوجی حکومت متبادل سندھی لیڈر کی تلاش میں تھی۔ مصطفی جتوئی نہ مانے اور الٰہی بخش سومرو کو پیر صاحب پگاڑانے ویٹو کردیا توقرعہ فال محمد خاں جونیجو کے نام پڑا۔
جونیجو فوراً ہی ضیاء الحق سے بھڑگئے۔ حلف اٹھانے کے بعد ان سے وہ ملنے گئے تو پوچھا: آپ مارشل لاء کب اٹھا رہے ہیں؟۔ یادہے کہ عابدہ حسین بہت بے چین تھیں۔ ان کا کہنا تھا وردی کی بالاتری حکمت سے ختم کی جائے۔مگر جونیجو خوب جانتے تھے کہ سندھ میں ردّعمل کا خوف ضیاء الحق کے اعصاب پر سوار ہے۔ جنرل کی چھوٹی سے چھوٹی فرمائش بھی رد کردی جاتی۔ شارجہ میں بھارت کے خلاف میاں داد نے چھکا مارا تو جنرل نے مبارک باد کے لئے فون کیا۔ جیسا کہ خوش اخلاق آدمی کا شعار تھا، انہوں نے پوچھا: میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ تحفے میں ملنے والی کار پر ڈیوٹی معاف کرنے کی اس نے درخواست کی۔مگر جونیجو نے انکار کردیا۔
افغانستان میں روسی فوج کی واپسی کے ہنگام جنرل تڑپتا رہا۔ اس کا کہنا تھا مفاہمت کے لئے ہیجان اور تعجیل سے کام نہ لیا جائے۔ امریکی بے تاب تھے۔ روسیوں سے وہ وعدہ کر چکے تھے۔ امریکہ اور یورپ کی شہ پر وزیراعظم نے بے نظیر بھٹو سمیت اپوزیشن لیڈروں کو مدعو کیا ۔ جنرل محمد ضیاء الحق روسیوں کی واپسی سے قبل افغانستان میں اتفاق رائے کی حکومت چاہتے تھے۔ اس زمانے میں ڈاکٹر نجیب نے پیغام بھیجا کہ وہ خود تو اقتدار سے چمٹے ہیں مگر اسے الگ کرنے کے درپے ۔ جوابی سند یسے میں جنرل نے کہا: میں آپ کے ساتھ ہی استعفیٰ دینے کو تیار ہوں۔ مجیب الرحمن شامی صاحب! کیا آپ کویاد ہے؟
جونیجو کے خیال میں جنرل انہیں برخاست کرنے کی جرأت نہ کرسکتا تھا۔ پیپلزپارٹی سمیت اپوزیشن بھی ان کی پشت پر کھڑی تھی۔ کسی زمانے میں 500 روپے ماہوار کے عوض آئی ایس آئی کے مخبرکا کردار ادا کرنے والے زین نورانی اب وزیرخارجہ تھے۔ وہ جینوا گئے اور معاہدے پر دستخط کردیئے۔ یہ جونیجو اور ضیاء الحق ہی نہیں۔پاکستانی اور افغان عوام کی مزید بدقسمتی کا آغاز تھا... خانہ جنگی اور دہشت گردی اب تک جاری ہے۔
اسٹیبلشمنٹ اگر مصطفی کمال کی مدد گار ہو تب بھی ان کی تائید کرنی چاہئے، اگر کوئی انہیں برحق سمجھتاہو۔ آخر وہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ہے، بھارت کی نہیں۔ بھارتی پریس ہی نہیں‘ ساری دنیا میں اخبار نویس اپنی حکومت کی پشت پر کھڑے رہتے ہیں ‘ اگر وہ عوامی مفاد میں سرگرم ہو۔ پاکستان میں عجب تماشا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو عوام کا دشمن قراردیا جاتا ہے۔ کس لیے؟ ۔ اس خدا کی قسم، جس کے قبضۂ قدرت میں انسانوں کی جان اور آبروہے‘ یہ بھارت کی حکمت عملی ہے کہ پاکستانی قوم کواس کی افواج سے متصادم رکھا جائے۔
افسوس ہے، اگلے ہوئے لفظ چبانے اور مکھی پر مکھی مارنے والے دانشوروں پر افسوس۔
اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے‘ وہ نظر کیا