زندگی اپنی خوبیوں پر بسر کی جاتی ہے ، دوسروں کی خامیوں پر نہیں ۔ اکبرِ اعظم کا درباری شاعر یا دآیا۔
وادریغا !نیست ممدوحے سزاوارِ مدح
وادریغا! نیست محبوبے سزاوارِ غزل
افسوس، کوئی ممدوح نہیں ،جس کی مدح پر جی آمادہ ہو۔ افسوس کہ ایسا کوئی محبوب نہیں ، جس کے لیے غزل لکھی جا سکے۔
اپنے ہم عصر کالم نگاروں کو میں توجہ سے پڑھنے کی کوشش کرتا اور ان سے سیکھتا ہوں ۔کبھی ہم سب شاعری کرتے ہیں ۔ اپنی پسند اور ناپسند کی بنا پر یقین کرلینے کی آمادگی ،Willingness to believe۔
میرے پسندیدہ ٹی وی میزبان نے ٹوئٹر پر پیغام دیا۔ مشرف کو آزادی ملی اور ایان علی کو نہیں ۔ یہ ہے مکمل اور آزادانہ انصاف۔ تجزیہ نہیں ، یہ شاعری ہے۔ حکومت کاکوئی موقف ہی نہیں تو عدالت فیصلے کا بوجھ کیوں اٹھائے ۔ نتائج کا سامنا کرنے سے سرکار خوفزدہ ہے تو قیمت اسی کو چکانا ہوگی۔ عسکری قیادت ہی نہیں ، فعال طبقات اور عوام کی اکثریت بھی شاید یہی چاہتی ہے ۔خلقِ خدا چاہتی ہے کہ فوجی مداخلت کا باب بند کر دیا جائے ۔فوج نے یہ بات مان لی ہے ، کم از کم وقتی طور پر۔ فوجی مداخلت سے کامل اور حتمی نجات حکومت کی اخلاقی بالاتری سے وابستہ ہے ۔ عوام نے ہر بار فوجی مداخلت کو قبول کیا۔ نواز شریف گھر بھیجے گئے تو گیلپ پاکستان کے مطابق 70فیصد لوگوں نے تائید کی، صرف20فیصد نے مخالفت۔ دس فیصد لاتعلق رہے ۔ 3مارچ 2007ء کو آئین معطل کرنے کا اقدام البتہ مسترد کر دیا گیا تھا۔ آٹھ برس بعد رائے عامہ اب بے زار تھی ۔ لال مسجد کا سانحہ رونما ہو چکا تھا۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے عوامی توقعات وابستہ تھیں ۔ بیس فیصد لوگ بھی مشتعل ہوں تو کاروبارِ حکومت چلایا نہیں جا سکتا۔خواہشات کا غلبہ ہو تو آدمی کی مت ماری جاتی ہے ۔ بھٹو ایسے نابغہ نے بھی ادراک نہ کیاتھا۔
جنرل مشرف کو جانے دیا جائے کہ کچھ نہ کچھ قومی اتفاقِ رائے تشکیل پائے ۔ شریف حکومت کا اس میں بھلا ہے کہ ایک محاذ بند کر دیا جائے ۔ دہشت گردی پر یلغار کے ہنگام شہری فوجی آہنگ کی ضرورت شدید ہے ۔پکّے خوشامدیوں کے سوا خود نواز شریف کے حامی اخبار نویسوں نے بھی یہی کہا تھا کہ مشرف کے خلاف مقدمے سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا ۔ نواز شریف کے برادرِ خورد تک اب جنرل مشرف کو عدالتوں میں گھسیٹنے کے حامی نہیں ۔
مشرف کے ساتھیوں کو قبول کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ تائید کرنے والے اگر مونچھ کا بال ہیں تو اقدام کرنے والے کو کیا معاف بھی نہیں کیا جاسکتا؟ رہے یہ دعویٰ داغنے والے احسن اقبال کہ ایسی صورت میں وہ وزارت اور سیاست سے الگ ہو جائیں گے تو انہیں معاف کر دینا چاہیے ۔ ان کا خاندان ضیاء الحق کے ساتھ تھا۔ خود ان کے مربی ّ میاں محمد نواز شریف اور ان کاہاتھ پکڑ کر میاں صاحب کے پاس لے جانے والے لاہور کے گرامی قدر مدیربھی۔
زندگی آگے بڑھتی رہتی ہے ۔ نیت نیک ہو تو تغیرات سے سیکھا جاتاہے ۔ فرد ہی نہیں ، معاشرہ بھی اسی طرح نمو پذیر ہوتاہے ۔ ملک کی پہلی اسٹیبلشمنٹ مخالف پارٹی بنانے والے ذوالفقار علی بھٹو، فیلڈ مارشل ایوب خان کی سیاسی اولاد تھے۔ چوہدریوں نے دونوں کا ساتھ دیا ۔ وقت بدلتاہے تو تقاضے بھی بدل جاتے ہیں ۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں ۔ قدیم عربوں کا محاورہ یہ تھا: اَلوَقتُ سیف قاَطِع۔ وقت ایک کاٹ دینے والی تلوار ہے ۔اقبالؔ کی زبان سے وقت کا فرمان یہ ہے :
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں اپنی تسبیح ِروز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
نہ تھا اگر تو شریکِ محفل قصور تیرا ہے یا کہ میرا
میرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مئے شبانہ
کچھ چیزیں قوموں کی اجتماعی نفسیات کا حصہ ہوتی ہیں ۔ ہمیشہ سے مسلمان اپنے عساکر سے محبت کرتے آئے ہیں ۔ جدید ترین ادارہ ہونے کے ساتھ ساتھ پاک فوج اپنے قومی مزاج سے ہم آہنگ ہے ۔ سیاسی جماعتیں فوج کا نعم البدل ہو سکتی ہیں بلکہ اس سے بھی بہتر، شخصیت پرستی کی بجائے اگر وہ اداروں میں ڈھلیں، قائدِ اعظم کی طرح سوچیں۔لیڈر کو ضبطِ نفس کامظاہرہ کرناہوگا ۔ اہلِ علم کی صحبت اور کتاب سے محبت کے بغیر یہ ممکن نہیں ، اپنی ترجیحات تبدیل کیے بغیر نہیں۔ دھاندلی کی بحث الگ ،اگر سو فیصد سچے الیکشن ہوتے ، تب بھی نواز شریف کو اقتدار سنبھالنا تھا۔ عمرا ن خان یا آصف علی زرداری کو نہیں ۔ ان کے حامی اگر اندھے مقلد نہ بنیں ، ان سے انصاف کریں ۔ اگر ان کے مخالفین بے جا مخالفت نہ کریں اور عدل سے کام لیں تو بہت کچھ سنور جائے۔
این اے 153جلال پور پیر والا کا الیکشن ہارنے کے بعد عمران خان دھاندلی کا شور مچائیں گے ۔ دھاندلی اگر ہو تو اس کی نشان دہی کرنی چاہئے ۔این اے 101 میں مقابلہ حامد ناصر چٹھہ کے فرزند احمد چٹھہ اور جناب افتخار چیمہ کے درمیان ہوگا ۔ جج صاحب مقبول بہت تھے ۔ پہلا انتخاب 20ہزار اور دوسرا 40ہزار کی برتری سے جیتا۔
صورتِ حال اب کیا ہے ؟ حلقے کاجائزہ لینے کے بعد عرض کروں گا۔ دو نکات البتہ ہیں : جج صاحب گھلتے ملتے کم ہیں ۔ ثانیاً خدا کی مخلوق نواز شریف سے نا خوش ہے ۔کتنی ناراض؟ کچھ اندازہ جلال پور پیر والا میں ہوگا۔ 20ہزار سے اوپر سارے ووٹ ناراضی کامظہر ہوں گے ۔پھر گوجرانوالہ میں خلق کی آواز گونجے گی۔
جلال پور پیر والا میں امیدوار کا انتخاب شاہ محمود پر چھوڑ دیا گیا۔ کپتان سے کہا گیا کہ وہ ایسا نہ کریں مگر پارٹی ٹکٹ پر دستخط کرکے انہوں نے آنجناب کے حوالے کر دیا۔ قاسم نون کو شاہ محمود نے فون کیا کہ ٹکٹ درکار ہے تو وہ ان کے پاس آئے۔وہ کیوں آتا؟ جانا ہوتا تو عمران خان کے پاس جاتا۔ گذشتہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر 88ہزار ووٹ اس نے لیے تھے مگر اب شہباز شریف سے ان کی بات ہو چکی تھی ۔ دو ماہ قبل خالد مسعود خاں نے راز کھول دیا تھا۔ شاہ محمود کو اپنی ذاتی سیادت کا علم لہرانا تھا؛چنانچہ کپتان کی تاکید کے باوجود جہانگیر ترین اور اسحٰق خاکوانی سے مشورہ نہ کیا ۔ اس کے بعد عباس کھاکھی رہ گئے تھے۔ پچھلی بار وہ بھی پیپلزپارٹی کے امیدوار تھے ۔ ایک دوسرے حلقے سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار ۔ کچھ زیادہ موثر نہیں ، سیاسی اور نہ مالی اعتبار سے ۔ نون لیگ نے سرکاری رسوخ استعمال کیا ۔ جعلی ڈگری کی بنا پر منصب ترک کرنے والے دیوان صاحب اور قاسم نون دونوں کو لبھایا۔ تحریک ِانصاف پارٹی نہیں ، ن لیگ بھی نہیں مگر اس کی قیادت موثر ہے ، تجربہ کار ہے ۔
اپوزیشن اگر سچی ہو تو سرخرو ہو جائے ۔ مولوی صاحبان جانتے بوجھتے اسلام کے نام پر سیاست فرما رہے ہیں کہ خامیوں کے باوجود تحفظِ حقوق نسواں بل غیر شرعی قطعاً نہیں ۔ وقتی طور پر وہ جیت گئے مگر خواتین میں ان کے ووٹ کم ہو جائیں گے ۔ پی آئی اے کے 26فیصد حصص فروخت کرنے اور انتظامی ڈھانچہ تبدیل کرنے کی حکمتِ عملی پر پوری کی پوری حزبِ اختلاف بے اصولی پر تلی ہے۔ اس پیمان کے بعد کہ ایک ملازم بھی برطرف نہ ہوگا ، انہیں فقط ضمانت طلب کرنی چاہئے تھی ۔ ملازمین کے تحفظ اور شفاف لین دین کی۔ حکومت کو وہ ہٹا تو سکتے ہیں مگر خود ملک کو سنبھال نہیں سکتے ۔ زندگی اپنی خوبیوں پر بسر کی جاتی ہے ، دوسروں کی خامیوں پر نہیں ۔ اکبرِ اعظم کا درباری شاعر یا دآیا۔
وادریغا !نیست ممدوحے سزاوارِ مدح
وادریغا! نیست محبوبے سزاوارِ غزل
افسوس، کوئی ممدوح نہیں ،جس کی مدح پر جی آمادہ ہو۔ افسوس کہ ایسا کوئی محبوب نہیں ، جس کے لیے غزل لکھی جا سکے۔