"HRC" (space) message & send to 7575

آرزوئے کثرت

سرکارؐ نے یہ کہا تھا: دنیا کی محبت تمام خرابیوں کی جڑ ہے اور کتاب میں لکھا ہے: 
کثرت کی خواہش نے تمہیں برباد کر ڈالا
یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں 
حکایت یوں بیان کی جاتی ہے۔ مغل بادشاہ نے کہا: بینگن بہت اچھا ہے۔ درباری نے کہا: سر پہ اس کے تاج ہے، ذائقہ ایسا کہ انگلیاں چاٹتے رہیے۔ وہ تاتاریوں کے جانشین تھے۔ سخت گوشت کھاتے کہ بابر کے دربار میں شیر شاہ کو خنجر سے قتلہ کاٹنا پڑا تھا۔ پیرس میں گوشت کے دم پخت ٹکڑے کو آج بھی تاتاری اسٹیک کہا جاتا ہے۔ دوسرے دن بیزار ہو کر اس نے کہا: بدمزہ سا معلوم ہوا۔ درباری نے کہا: جی ہاں اسی لیے امرا کے دسترخوانوں سے دور ہے۔ شکل و صورت بھی عجیب سی۔ حیرت سے شہنشاہ نے کہا: کل اس کی تعریف میں تم نے زمین آسمان کے قلابے ملائے۔ عرض کیا: جہاں پناہ، میں آپ کا غلام ہوں، بینگن کا نہیں۔
تھالی کے بینگنوں کو چھوڑیے۔ رزق ان کا تاویل سے وابستہ ہے۔ بات کا رخ موڑنے اور آقائوں کی پردہ پوشی میں۔ آدمی کا رزق اللہ نے مقرر فرما دیا ہے۔ عزت اسی کے ہاتھ میں ہے۔ تاریخ مگر یہ ہے کہ بہت سے لوگ درباروں میں رزق اور عزت ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ 
تاریخِ انسانی کے عظیم ترین فاتحین میں سے ایک خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بادشاہ نہ تھے؛ اگرچہ محبوبِ خلاق۔ انہیں امیر کہا جاتا؛ تاہم ان میں شہزادگی کے کچھ تیور پائے جاتے تھے۔ ولید کے فرزند تھے اور سرکارؐ سے منسوب ہے کہ: بنی تمیم کا بس نہیں چلتا ورنہ ولید کو اپنا رب ہی مان لیں۔
جنگِ نہادند کے بعد، قصرِ سفید کے سائے میں خیمہ لگائے
پڑے تھے۔ اطراف میں مالِ غنیمت کے ڈھیر تھے۔ اتنے میں ایک عرب بدّو آ داخل ہوا۔ عرب دلاوروں میں سے ایک نے کہا: امیر آپ کو یاد ہے کہ جنگِ یمامہ میں ہماری تلواریں اس طرح تیر رہی تھیں، جس طرح رومی نیل میں روشنی کا تہوار مناتے ہیں۔ بدو نے مداخلت کی اور یہ کہا: تمہاری طرف میرا کچھ قرض نکلتا ہے امیر۔ اہلِ مجلس چونکے۔ بارِ دگر بلند آواز میں بولا تو ایک سردار نے کہا: تو جانتا بھی ہے کہ کس سے مخاطب ہے۔ سرکارؐ نے انہیں سیف اللہ کہا تھا۔ بدو بولا: بنو تمیم کے شاعر تیری زبان تو اس طرح چلتی ہے، صحرا میں جیسے شتر مرغ بھاگتا ہے مگر میرا قرض تو نکلتا ہے۔ اب امیر اس کی طرف متوجہ ہوئے اور استفسار کیا۔ اس نے کہا: جنگِ یمامہ میں جب آپ کی چھ تلواریں ٹوٹ چکیں اور غنیم نے آپ کو گھیر لیا تو میں نے پیچھے سے آواز دی۔ آپ نے میری تلوار اس طرح جھپٹ لی، جس طرح چیتا سوئے ہوئے پرندے کو جھپٹ لیتا ہے... اور میں وہاں کھڑا زخم کھاتا رہا۔ وہ اٹھا اور اس نے اپنا کرتا اتار دیا۔ جسم پر زخم ہی زخم تھے۔ 
پاکستانی قوم کے پیکر پر زخم ہی زخم ہیں۔ کچھ جاگیرداروں، کچھ حاکموں، کچھ صنعت کاروں، کچھ سیکولر اور کچھ مولویوں کے لگائے ہوئے۔ جن کے بارے میں اقبالؔ نے یہ کہا تھا:
میں بھی حاضر تھا وہاں ضبطِ سخن کر نہ سکا 
حق سے جب حضرتِ ملّا کو ملا حکمِ بہشت
عرض کی میں نے الٰہی مری تقصیر معاف 
خوش نہ آئیں گے اسے حور و شراب و لب کشت
نہیں فردوس مقامِ جدل و قال و اقوال
بحث و تکرار اس اللہ کے بندے کی سرشت
ہے بدآموزیء اقوام و ملل کام اس کا 
اور جنت میں نہ مسجد نہ کلیسا نہ کنشت
یہ ستم کی شام ہے یا سویر ہے؟ ان ترقی پسندوں کے ایما پر جو کل سوویت یونین کے کاسہ لیس تھے اور آج انکل سام کے، حقوقِ نسواں بل منظور کیا۔ عصرِ حاضر کے عظیم ترین سکالر اور زاہد مولانا فضل الرحمٰن، شہباز شریف سے مذاکرات فرما رہے ہیں۔ خواتین کے حقوق کا تحفظ ایک مقدس فریضہ ہے۔ یہ قانون مگر معاشرے کی ساخت کو ملحوظ نہیں رکھتا۔ خاندانی نظام کو وہ مجروح کر دے گا اور حاصل اس سے کچھ بھی نہ ہو گا۔ فقط کچھ حسین حقانی اور کچھ عاصمہ جہانگیریں خورسند ہوں گی۔ خطے میں بھارت کی بالادستی اور مغربی ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے جن کی حوصلہ افزائی ہے۔ کچھ آئی اے رحمٰن اس ملک میں پائے جاتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ مسلمان شروع ہی سے علم دشمن ہیں۔ حضرت عمر فاروقِ اعظم ؓکے دور میں سکندریہ کی لائبریری کو انہوں نے نذرِ آتش کر دیا تھا۔ ایک صدی پہلے اس پر بحث ہو چکی۔ تاریخی شواہد تردید کرتے ہیں مگر صداقت سے انہیں کیا واسطہ۔ میڈیا آزاد ہے اور جن کی پشت پر کوئی طاقت کارفرما ہو تو وہ اور بھی آزاد۔ لطیفہ یہ ہے کہ خود پر تنقید کرنے والوں کو وہ اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ کہتے ہیں۔ خوب ہے ! اگر ''را‘‘ اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کا لکھا ہوا گیت آپ گائیں، بلوچستان پر ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھائیں تو آپ حریت پسند۔ اگر کوئی اپنے وطن کی بات کرے تو وہ ایک کارندہ محض۔ 
نثار میں تری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں 
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
فیضؔ یاد آئے اور اس لیے بھی یاد آئے کہ بے پناہ مقبولیت کے باوجود عمر بھر تاتاری کمیونسٹوں کے دسترخوان پر لقمہ تر کرتے رہے۔ اپنے وطن کی ہر خرابی انہیں خوب دکھائی دی مگر کمیونسٹ معاشرے میں انسانیت کے قتلِ عام پر ان کا دل کبھی نہ دکھا۔ 
پھر رحمٰن ملک ایسے لوگ ہیں۔ تختِ اقتدار یا ایوانِ سیاست کی بجائے جنہیں بندی خانے میں ہونا چاہیے۔ 2005ء میں ''آئل فار فوڈ‘‘ کے کاروبار میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر کروڑوں اربوں روپے انہوں نے کمائے۔ آج تک تحقیقات نہیں ہوئیں۔ مشرف حکومت کے ساتھ وہ رابطے میں تھے۔ نیب کے نمائندے سے باقاعدہ مذاکرات کئے کہ انہیں پنجاب کا چیف سیکرٹری یا گورنر بنا دیا جائے۔ بے نظیر کے بعد زرداری صاحب کو رام کر لیا۔ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی انہیں مخبر کہا کرتے۔ میثاقِ جمہوریت کے طفیل شاد و آباد ہیں۔ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کا تحفظ کرتی ہیں۔ شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم تو میڈیا، عسکری اداروں اور نیب کی زد میں آئے۔ رحمٰن ملک کا ارشاد یہ ہے کہ پانامہ لیکس ''را‘‘ کا کارنامہ ہیں۔ کیا کہنے، کیا کہنے۔
''را‘‘ ملک صاحب کے خلاف سازش کے لیے فارغ بیٹھی ہے۔ روس کے مردِ آہن پیوٹن اسے مغرب کی سازش بتاتے ہیں؛ حالانکہ کئی مغربی لیڈر زد میں ہیں۔ بھارت سمیت متعدد ملکوں میں تحقیقات کا حکم صادر ہو گیا۔ دنیا بھر کے غلیظ امرا (Filthy Rich) پریشان ہیں۔ پرویز رشید کا صرف ایک ہنر ہے، بات کو گھمانا۔ فرمایا: عمران خان لندن میں مقدمہ کریں۔ لندن والے تو الطاف حسین کے خلاف کارروائی پر آمادہ نہیں، نواز شریف کے خلاف کیا کریں گے؟ وہ وزیرِ اعظم ہیں۔ درست یا نا درست ان کی اولاد کاروبار فرما رہی ہے۔ نریندر مودی وزیرِ اعظم بنے تو امریکہ بہادر نے ان کے داخلے پر عائد پابندی ہٹا لی تھی۔
قرآنِ کریم کی تلاوت کے خوگر حسین نواز کے بیان پہ بہرحال دکھ ہوا۔ ٹیکس بچانے کی تدبیر کیوں نہ کروں۔ حضور! ایک چیز ملک بھی ہوتا ہے اور اس سے وفاداری بھی۔ حکمران ہی اگر اپنا سرمایہ باہر لے جائے تو دوسرے کیوں تقلید نہ کریں گے؟ سوال یہ ہے کہ سرمایہ کہاں سے حاصل ہوا؟ قرض لیا تو ثبوت کیا ہے؟ پاکستان سے بھیجا گیا تو کس راستے؟ ٹیکس ادا کیا یا نہیں؟ تحقیقات ہونی چاہئیں۔ زرداری اور شریف خاندان سچے ہیں تو انہیں آمادگی ظاہر کرنی چاہیے۔ ڈاکٹر شعیب سڈل یا ان جیسے کسی اور افسر کو عدالتِ عظمیٰ مقرر کرے جو غیر جانبدار ہو، اہلیت رکھتا ہو اور انصاف قائم کرنے کا عزم بھی۔ قوم جس کے تقرر کی تائید کرے۔
سرکارؐ نے یہ کہا تھا: دنیا کی محبت تمام خرابیوں کی جڑ ہے اور کتاب میں لکھا ہے: 
کثرت کی خواہش نے تمہیں برباد کر ڈالا
یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں