تاریخ کا سبق یہ ہے کہ آخرکار لوگ ہرحکمران سے تنگ آ جایا کرتے ہیں۔ خاص طور پرنعرہ فروش اور شعبدہ باز لیڈروں سے۔ میاں صاحب کے اس دور کا آغاز ہو چکا‘ اس پر یہ زعم اور اس پر یہ خوش خیالی؟
اس بات پر اب بھی قائم ہوں کہ مارشل لاء نہیں لگے گا۔ پھر خیال آتا ہے کہ جو طرزِعمل سیاستدانوں نے اختیار کر رکھا ہے‘ اس کے نتیجے میں کسی طرح کا طوفان ضرور آسکتا ہے۔ تلخ تجربات سے گزرنے کے باوجود انہوں نے کوئی سبق کیوں نہیں سیکھا؟۔ کیا اس لیے کہ آدمی کی قسمت خراب ہو تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جایا کرتی ہے؟۔ ہیجان اور تعصب غالب آ جائیں تو تجزیے کی تاب دم توڑ دیتی ہے۔ نفرت‘ ادراک کی صلاحیت کو چاٹ جاتی ہے۔ ماہرین نفسیات یہ کہتے ہیں‘ انسانی ذہن میں دانش کا چراغ اسی وقت تک روشن رہتا ہے‘ جب تک ایک کم از کم جذباتی توازن کارفرما رہے۔
طلال چوہدری‘ پرویز رشید‘ دانیال عزیز اور خواجہ سعد رفیق تو کارخیر میں مصروف تھے ہی۔ اتوار کو میاں محمد شہبازشریف نے ایسا جملہ کہا کہ یقین ہی نہیں آتا۔ فرمایا ''کرپٹ آدمی کا بچہ کرپشن کی بات کر رہا ہے‘‘۔ اس سے قطع نظر کہ خدانخواستہ خود ان کے بارے میں کوئی اس طرح کا اظہار کرے‘ ایک بنیادی نکتہ اور بھی ہے۔ اشتعال انگیز ماحول میں حکومتوں کا کام ماحول کو ٹھنڈا رکھنا ہوتا ہے۔ وہی اگر جلتی پر تیل ڈالنے لگے؟۔ جب کسی کے مرحوم باپ پر آپ طعن توڑیں گے تو نتیجہ کیا ہوگا؟۔ میاں محمد نوازشریف دعویٰ کرتے ہیں کہ تحمل کا انہوں نے تہیہ کر رکھا ہے‘ دوسری طرف ان کے وزراء آگ اُگل رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے جیالوں کو بھی مات کردیا۔ ظاہر ہے کہ سوچ سمجھ کر۔ سرکاری اخبار نویسوںاور لیڈروں کو بجا طور پر عمران خان پہ اعتراض ہے کہ ان کا اندازبہت تلخ ہے۔ غور کرنے کی زحمت وہ کبھی گوارا نہیں کرتے کہ خود نون لیگ کا حال کیا ہے؟۔ طلال چوہدری پر کوئی تعجب نہیں۔ کل وہ چوہدری پرویزالٰہی کی گاڑی کے سامنے بھنگڑا ڈالا کرتے تھے تو آج نئے آقائوں کی خوشنودی کے لیے کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ زیادہ حیرت دانیال عزیز پر ہوتی ہے۔ کیسے شائستہ باپ کے بیٹے ہیں اور کیسا لہجہ انہوں نے اختیار کرلیا۔
اب میرے بھائی زعیم قادری بھی اس قافلے میں شامل ہوگئے۔ اگر سرکاری جماعت کی یہ سوچی سمجھی حکمت عملی ہے تو خدا ان پر رحم کرے۔بعض کا خیال یہ ہے کہ نون لیگ ذہنی طور پر خود کو عسکری مداخلت کے لیے تیار کر رہی ہے۔ وہ ''شہید‘‘ بننے کی تیاری کر رہی ہے۔ کچھ دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونے پر وہ مارشل لاء کو ترجیح دے گی۔
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
ناامیدی اس کی دیکھا چاہیے
کچھ کی رائے میں پاناما لیکس سے پیدا ہونے والی صورتحال میں جان بوجھ کر وہ ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کریں گے کہ عساکر مداخلت کریں۔ ان لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ ایسا اقدام حکمران جماعت کو سازگار ہوگا اور پیپلزپارٹی کو بھی‘ جس کے بارے میں سمجھا یہ جاتا ہے کہ کسی وقت بھی وزیراعظم سے اس کی مفاہمت ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو آفرین ہے ان کے ادراک پر۔ اب کی بار ایسا ہوا تو ماضی ایسی ہمدردی کی لہر نہ اُٹھے گی۔خدانخواستہ فیصلہ اگر صادر ہوگیا تو اب کی بار فیصلہ کن اقدامات ہوں گے۔ لوٹی ہوئی دولت واپس دینی پڑے گی۔ امریکہ اور سعودی عرب کی نہیں سنی جائے گی۔ سیاست میں کئی عشروں تک گل کھلانے والوں کا راستہ بند کردیا جائے گا۔ پچھلی بار آدھی جماعت ٹوٹ گری تھی ۔ اس بار انہدام زیادہ ہو سکتا ہے۔ مثلاً وہ وفاقی وزیر کیا کرے گا‘ جس نے اربوں کی جائیداد بنا لی ہے۔ جس کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ ایل ڈی اے سٹی کے لیے زمینوں کی خریداری اس نے کی ہے۔ پچھلی بار جیل گیا تو وہ ایک عام آدمی تھا‘ ڈٹا رہا۔ دولت کے اتنے بڑے انبار کے ساتھ وہ کیونکر بروئے کار آ سکے گا؟ انسانی فطرت کے اپنے تقاضے ہیں۔ بھاری بھرکم تضادات کا بوجھ اٹھا کر ہم کھڑے نہیں ہو سکتے‘ چہ جائیکہ منزلوں کا تعین کریں اور ان کی طرف سرپٹ ہوں۔
جناب زعیم قادری اور نون لیگ کے بعض دوسرے لیڈروں کا ارشاد ہے کہ لاکھوں کے مجمعے کی دھمکی دینے والے پانچ ہزار سامعین بھی جمع نہ کر سکے۔ سرکاری اخبار نویسوں کی بات دوسری ہے ۔ وگرنہ یہ ایک بڑا مجمع تھا۔ زیادہ نہیں تو پچیس تیس ہزار ۔ مئی کی تپتی سڑکوں پر سرکاری جماعت اس سے آدھے لوگ بھی جمع نہیں کر سکتی۔ نون لیگ کنفیوژن پھیلانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ اس نیک کام میں وہ ربع صدی کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہونا چاہیے کہ زمانہ بدل چکا۔ اب اس طرح کے حربوں کو خلق خدا خوب سمجھتی ہے۔ پسندیدہ میڈیا گروپ کتنی ہی مدد کریں انہیں دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ اگر ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری شہ سرخی کی تردید ہو۔ادارے کا اہم ترین اخبار نویس اس الزام کے ساتھ مستعفی ہو جائے کہ وہ قومی مفادات سے متصادم ہے‘ تو کتنا اعتبار باقی رہ جائے گا۔ عمران خان فرشتہ نہیں۔ ان کے ساتھیوں میں جعل ساز اور شعبدہ باز شامل ہیں؛ تاہم ایک اخبار یا چینل کے بارے میں اگر یہ تاثر پختہ ہو جائے کہ وہ بغض و عناد کا مرتکب ہے تو کیوں اس کی بات پر لوگ کان دھریں گے۔ سیاست ہو یا تجارت‘ حیات کا تمام کاروبار ساکھ پہ استوار ہو جاتا ہے۔ وہی باقی نہ بچے تو؟ فریب کاری شعار ہو جائے تو آخرکار سب کچھ ضائع ہو جاتا ہے۔
کل دھوپ کے میلے سے کھلونے تھے خریدے
جو موم کا پتلا تھا وہ گھر تک نہیں پہنچا
بہت تیزی کے ساتھ سرکار کی وکالت کرنے والوں کی ساکھ برباد رہی ہے۔ وزیراعظم کے لیے بھارت میں سفارت کاری کرنے والے دانشور کا فرمان بے پناہ اذیت کے ساتھ سناگیا : بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ سرحدوں کے باہر آپریشن نہیں کرتی۔ یہ کام آئی ایس آئی کیا کرتی ہے۔ پھر ان کا یہ ارشاد کہ پٹھان کوٹ میں پاکستان ملوث ہے۔ اس پس منظر میں پسندیدہ اخبار نویسوں کے جلو میں وزیراعظم نے فرمایا کہ بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کا عزم وہ پختہ رکھتے ہیں۔ اس وقت بھی جب وہ تخریب کاری پر تلا ہو؟ جناب شاہین صہبائی کا استعفیٰ اپنے اثرات مرتب کرے گا۔ اگر موقع ملا تو کچھ اور لوگ بھی اپنی راہ الگ کر لیں گے۔
اس سوال پر کہ کیا سول اور عسکری قیادت ایک صفحے پر ہیں‘ وزیراعظم کے گریز سے واضح ہوا کہ سب اچھا ہرگز نہیں۔ کٹھمنڈو میں نریندر مودی سے خفیہ ملاقات اور بھارتی دورے میں پاکستان مخالف اخبار نویسوں کے ساتھ وزیراعظم کی ملاقاتوں کی یاد ابھی دلوں سے محو نہیں ہوئی۔ اس پر وزیراعظم کی وکالت کرنے والے دانشوروں کی مضحکہ خیز حرکات۔ بھارت کے ساتھ تعلقات ضرور بہتر ہونے چاہئیں۔ کوئی احمق ہی پڑوسیوں کے ساتھ مستقل کشیدگی کا داعی ہو سکتا ہے۔ مگر سامنے کی یہ بات وزیراعظم کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ اُلجھے ہوئے تعلقات بتدریج ہی بہتر ہو سکتے ہیں۔ ثانیاً یک طرفہ گرم جوشی کمزوری کا مظہر سمجھی جاتی ہے۔ کیا تاریخ ساز قربانیاں دینے والی فوج کی عداوت میں وہ ایسا کر رہے ہیں یا بھارت کے تزویراتی حلیف امریکہ بہادر کی خوشنودی کے لیے؟۔
وزیراعظم جس ذہنی کیفیت سے دوچار ہیں‘ اس میں ایک کے بعد وہ دوسری غلطی کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ماضی کی طرح اپنی کشتی وہ طوفان سے ٹکرا دیں۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ آخرکار لوگ ہرحکمران سے تنگ آ جایا کرتے ہیں۔ خاص طور پرنعرہ فروش اور شعبدہ باز لیڈروں سے۔ میاں صاحب کے اس دور کا آغاز ہو چکا ہے‘ اس پر یہ زعم اور اس پر یہ خوش خیالی؟
پس تحریر: اطلاع یہ ہے کہ اپوزیشن متفقہ طور پر وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے والی ہے۔ ادھر کورکمانڈرز کانفرنس نے ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چھوٹو گروپ کے خلاف اقدام کے پس منظر میں اس کا مطلب کیا ہے؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ حکمران ہوش کے ناخن لیں؟۔ دھوپ کے میلے میں خریدا ہوا کھلونا پگھل نہ جائے