ترکی نے اپنا سفیر بنگلہ دیش سے واپس بلا لیا۔ وہ آزاد اور صاحبِ حمیت ہیں۔ ہم آزاد ہی نہیں تو حمیّت کیسی۔ غور کرنے والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔ مگر کتنے ہیں جو غور کرتے ہیں؟ آدم کی اولاد اپنے مغالطوں میں شاد رہتی ہے۔
یہ نہیں کہ موضوع کی اہمیت کا ادراک نہ تھا۔ بات بس اتنی ہے کہ اس خونیں تصادم پر لکھنے کا حق ادا نہیں ہوتا، دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کو جس نے دولخت کر دیا تھا۔ تین آدمیوں کی ہوس اقتدار نے۔ جنرل آغا محمد یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن۔ لوگ اب کہانیاں گھڑتے اور رنگ آمیزی کرتے ہیں۔ سیدنا علی ابن ابی طالبؓ نے فرمایا تھا: ہر آدمی کا اپنا سچ ہے اور ہر آدمی اپنے سچ کا خود ذمہ دار ہے۔
ہمارے سامنے کی بات ہے‘ فخر ایشیا قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے سوا، مغربی پاکستان کی پوری سیاسی قیادت نے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کی حمایت کر دی تھی۔ دونوں طاقتور شائیلاک ایک پائونڈ گوشت کے خواہش مند تھے۔ یحییٰ خان نے کہا تھا کہ وہ ملکہ برطانیہ نہیں بنیں گے۔ وہ صدارت مانگ رہے تھے اور اختیارات کے ساتھ۔ سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں پر اکتفا کرنے کی بجائے، پیپلز پارٹی کو جہاں اکثریت حاصل تھی، ذوالفقار علی بھٹو مرکزی حکومت میں حصّہ طلب فرما رہے تھے۔
لاہور کے چیئرنگ کراس پر اس ریلی میں ناچیز موجود تھا۔ روزنامہ وفاق کے دفتر کے سامنے، جس سے وہ وابستہ تھا، جس میں بھٹو نے کہا تھا: ''سندھ اور پنجاب اقتدار کا سرچشمہ ہیں اور ان کی چابیاں میری جیب میں ہیں‘‘۔ اس سے ان کی جو بھی مراد تھی، یحییٰ خان سے ملی بھگت کے بغیر اس کا حصول ممکن کیسے تھا؟ نعرہ ان کی پارٹی کا یہ تھا: ''اقتدار کا سرچشمہ عوام ہیں‘‘۔ یحییٰ بھٹو گٹھ جوڑ کے
بغیر انتقال اقتدار روکا نہ جا سکتا تھا۔ مشرقی پاکستان میں جیسے ہی فوجی کارروائی ہوئی‘ مجیب کی گرفتاری کے بعد عوامی لیگ کی قیادت جیسے ہی بھارت فرار ہوئی، بھٹو نے کہنا شروع کیا کہ اقتدار انہیں منتقل کر دیا جائے۔ ایک چوتھائی نشستوں کے ساتھ پورے ملک کی حکومت وہ کیسے مانگ رہے تھے؟ رہ گیا مشرقی پاکستان تو فوج کی نگرانی میں شکست خوردہ پارٹیوں میں قومی اسمبلی کی نشستیں بانٹی گئیں۔ صرف جماعت اسلامی ہی نہیں، پیپلز پارٹی نے بھی ان میں حصّہ پایا۔ یہ تاریخ کا حصّہ ہے۔ کتنی آسانی سے مگر بھلا دیا جاتا ہے۔ دسمبر 1970ء میں مشرقی پاکستان سے پیپلز پارٹی الیکشن میں شریک ہی نہ ہوئی، کوئی امیدوار ہی کھڑا نہ کیا، آخر کیوں؟
جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے، خواہ اس نے پہاڑ ایسی غلطیاں کی ہوں، اس کے بارے میں نام نہاد ترقی پسندوں کے پھیلائے ہوئے بعض جھوٹ بے نقاب ہو چکے۔ تاریخ اپنے سینے میں کوئی راز چھپا کر نہیں رکھتی۔ فردِ جرم یہ تھی کہ مشرقی پاکستان میں اس نے مخالف دانشوروں کو قتل کر کے حبّ وطن کے تقاضوں کو پامال کیا، ثانیاً افغانستان کے جہاد میں امریکیوں سے ڈالر بٹورے۔ مشرقی پاکستان کے جو دانشور جماعت اسلامی نے قتل کیے تھے، ان کے نام کیا تھے؟ کوئی نہیں بتاتا۔ جماعت اسلامی کے کس لیڈر نے امریکہ سے ڈالر وصول کیے؟ اس کی جائیداد اور کاروبار کہاں ہے؟ اس پارٹی کے انداز فکر کی خامیاں اپنی جگہ‘ لیکن مشرقی پاکستان، افغانستان اور کشمیر میں حبِّ وطن کی ان گنت شہادتیں اس کے فرزندوں نے اپنے لہو سے رقم کی ہیں۔ زلزلے،
سیلاب اور قحط سالی میں وہی بروئے کار آتے ہیں، پیپلز پارٹی اور نون لیگ نہیں۔ مالی معاملات میں ان کا نظام قابل اعتماد ہے۔ ان کے قائم کردہ فلاحی ادارے سینکڑوں نہیں، ہزاروں تعلیمی ادارے چلا رہے ہیں۔ 2002ء سے 2008ء تک ان کے لوگ صوبہ سرحد کی حکومت کا حصہ رہے۔ 2013ء میں تحریک انصاف کے ساتھ مل کر پختون خوا کی حکومت تشکیل دی۔ جمعیت علمائِ اسلام، اے این پی، پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتیں بدنام ہوئیں۔ جماعت اسلامی کے خلاف شاذ ہی کوئی شکایت سامنے آئی۔ سینیٹر سراج الحق سے یہ طالب علم مطمئن نہیں‘ اور اس کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ سید منور حسن اور قاضی حسین احمد پر ان کے ادوار میں سخت نکتہ چینی کی‘ مگر بدعنوانی اور لوٹ مار؟ اشتراکی اور کانگریسی مولویوں کے علاوہ بھارت اور امریکہ کے زیر اثر کہانیاں گھڑنے والے کچھ ہی کہتے رہیں، جماعت اسلامی کا دامن داغ دار نہیں۔ ناکامی کے اسباب دوسرے ہیں‘ اور ان پر کبھی الگ سے بات ہو گی۔ مشرقی پاکستان کے حوالے سے اب بھی جو کچھ ان کے بارے میں لکھا جا رہا ہے، اس میں کچھ افسانہ طرازی ہے اور کچھ تعصبات۔ اپنے آپ کو آدمی فریب دینے پر تل جائے تو کون اسے روک سکتا ہے۔ ؎
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینے میں بنا لیتی ہے تصویریں
سب جانتے ہیں کہ 1971ء میں مینار پاکستان کے جلسہء عام میں ان کے خطاب پر ''اِدھر ہم اُدھر تم‘‘ کی سرخی ان کے مداح سید عباس اطہر مرحوم نے جمائی تھی، ان کے کسی مخالف نے نہیں۔ اور اس کے چند ماہ بعد وہ پیپلز پارٹی کے ترجمان روزنامہ مساوات کے ایڈیٹر بنا دیئے گئے۔ ان پر کوئی اعتراض بھٹو کو نہیں تھا۔ اعلانیہ قائد عوام نے دھمکی دی تھی کہ ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے والوں کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ اس خبطی آدمی احمد رضا قصوری سے ان کے اختلافات کا آغاز اسی پر ہوا تھا۔ اس پریس کانفرنس میں، یہ اخبار نویس شریک تھا، قصوری نے جس میں ڈھاکہ جانے کا اعلان کیا۔ ان کے والد نواب محمد احمد خان بلاوجہ قتل نہ کیے گئے۔ بھٹو کو جو لوگ بے قصور کہتے ہیں، آج تک یہ بتا نہیں سکے کہ اس بے گناہ آدمی کی موت کا ذمہ دار بھٹو نہیں تو کون تھا؟
ہوس اقتدار! آج کے پاکستان میں بھی وہی ہوس اقتدار ایک کے بعد دوسرا گل کھلاتی ہے۔ دوسروں پر غلبہ پانے کی وحشیانہ جبلت، انسان کی پوری تاریخ یہی ہے۔ بھٹو اس میں مبتلا تھے، یحییٰ خان اور شیخ مجیب الرحمن بھی۔
ان دو مائوں کے قصے کو پھر یاد کیجیے، جو ایک بچے کی دعویدار تھیں۔ منصف نے کہا: کیوں نہ دو حصوں میں بانٹ کر، آدھا آدھا تم میں سے ہر ایک کو دے دیا جائے؟ سچی ماں فوراً ہی دستبردار ہو گئی۔ اقتدار شیخ مجیب الرحمن کا حق تھا۔ اگر وہ تحمل کا مظاہرہ کرتے؟ اگر اپنے حامیوں کو صبر کا مشورہ دیتے؟ احتجاجی تحریک کو اگر پُرامن رکھتے؟ پکے ہوئے پھل کی طرح حکومت ان کی جھولی میں گرتی۔ کتنے دن بھٹو اور یحییٰ سدِراہ ہو سکتے؟ لیکن صبر شیخ صاحب کیسے کرتے۔ عشق کی طرح اقتدار کا جنون بھی پاگل کر دیتا ہے۔ میر صاحب نے کہا تھا ؎
ایک صبر تھا مونسِ شبِ ہجراں
ایک مدّت سے اب نہیں آتا
افسوس کہ تاریخ سے سبق کوئی نہیں سیکھتا۔ بھٹو کے ساتھ کیا ہوا؟ ان کی اولاد کے ساتھ کیا ہوا؟ یحییٰ خان اور شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ؟ اندرا گاندھی اور اس کی اولاد کیا ہوئی؟ بندوں نے نہیں اللہ نے انہیں سزا دی وگرنہ وہ طاقتور، قہرمان اور غالب تھے۔ میرے دوست میر فضلی کہتے ہیں: ''پاکستان ایک مجذوب ہے، جس نے اسے روندنے کی کوشش کی وہ خود روندا گیا‘‘۔ قوموں کے لیے وہی ہوتا ہے، جس کی وہ کوشش کر پائیں۔ پاکستانیوں کے لیے قدرت کے قوانین بدل نہیں سکتے۔ خود پاکستان کا وجود مگر ایک اعتبار سے استثنیٰ ہے۔ ہماری 68 سالہ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ تقدیر الٰہی اس پہ حکمران ہے۔ دائم اسے باقی رہنا ہے۔ ہماری بے وفائیوں کے باوجود وہ زندہ و برقرار اور اپنے دفاع پر قادر ہے۔ جس ملک میں ڈھنگ کی سوئی اور بٹن نہیں بنتا‘ اس نے دنیا کے بہترین میزائل اور ایٹم بم بنا لئے۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان مشرکین ہند کو شکست دیں گے، پھر ابنِ مریم اور ترکوں کے ساتھ مل کر دمشق میں یہودیوں سے لڑیں گے۔ آخری معرکہ، جنگوں کی ماں۔ ترکی نے اپنا سفیر بنگلہ دیش سے واپس بلا لیا ہے۔ وہ آزاد اور صاحبِ حمیت ہیں۔ ہم آزاد ہی نہیں تو حمیت کیسی؟ غور کرنے والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔ مگر کتنے لوگ ہیں جو غور کرتے ہیں؟ آدم کی اولاد اپنے مغالطوں میں شاد رہتی ہے۔