"HRC" (space) message & send to 7575

آخری مرحلہ

جنگ کا آخری مرحلہ خطرناک ہوتا ہے۔ ظفرمند لشکر آسودہ ہو جائے تو کیے دھرے پر پانی پھر جاتا ہے۔ حکومت اور افواج کو اور زیادہ چوکس رہنا چاہیے۔ 
حیلہ ساز ملّا اور این جی اوز والے متحرک ہو رہے ہیں۔ 
ذاتی زندگی میں خاموشی اکثر زیبا ہوتی ہے۔ خیال کو تھام رکھیں تو وہ پختہ، لطیف اور مہذب ہو جاتا ہے۔ دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے اکثر ہم غیر ضروری گفتگو کرتے اور اپنے لیے الجھنیں تخلیق کرتے رہتے ہیں۔ اجتماعی حیات اکثر برعکس تقاضے لے کر آتی ہے، خاص طور پر ایک جمہوری سماج میں۔ معاملات کو شفاف رکھنے کے لیے زیادہ تر وضاحت کی ضرورت ہوتی ہے۔ متوازی طور پر اس میں دو رویّے کارفرما ہیں۔ اوّل تو غیر ذمہ دارانہ بیانات، جیسے عمران خان کی طرف سے اس وقت وزیرِ اعظم کے استعفے کا اعادہ، جب ان کا آپریشن ہونے والا تھا۔ جیسے آزاد کشمیر میں بلاول بھٹو کی طرف سے میاں صاحب پہ جارحانہ تنقید۔ دو چار دن کے لیے اس کارِ خیر کو وہ اٹھا رکھتے‘ تو سیاسی طور پر کوئی نقصان ہونے والا نہ تھا۔ آزاد کشمیر کے الیکشن پر ان کی مہم متاثر نہ ہوتی۔ کشمیر اسمبلی کو ابھی تحلیل ہونا ہے۔ امیدواروں کا انتخاب پارٹیوں نے ابھی نہیں کیا۔ فیصلہ کن مرحلہ ابھی نہیں آیا۔ دوسری طرف بہت ہی ضروری امور میں خاموشی روا رکھی جاتی اور غلط فہمیوں کی فصل پروان چڑھتی رہتی ہے۔ 
ایک چھوٹا سا واقعہ 2013ء کی وہ ادبی کانفرنس ہے، جو لاہور میں منعقد ہوئی تھی۔ الزام ہے کہ مدعو صحافیوں میں چار کروڑ انتیس لاکھ روپے بانٹ دیے گئے۔ جن سے آدمی حسنِ ظن نہ رکھتا ہو، آسانی سے ان پر عائد کردہ الزامات کو مان لیتا ہے۔ غور
کیا تو اندازہ ہوا کہ اس اطلاع کے درست ہونے کا امکان بہت کم ہے۔ طلعت حسین اور نصرت جاوید جیسے لوگ ''عطیات‘‘ قبول نہیں کرتے بلکہ نیم سرکاری اخبار نویسوں کی اکثریت بھی۔ پھر یہ کہ اتنا عرصہ یہ قصّہ اخفا میں کیسے رہا؟ منتظمین کیا ایسے ہی احمق تھے کہ نیک نام لوگوں کو ایسی پیشکش کرکے ان کے غیظ و غضب کو دعوت دیتے؟ اخباری حلقوں میں جوش و خروش سے بحث ہوتی رہی۔ ایک رائے یہ تھی کہ کسی کو بھی روپیہ نہ دیا گیا، خود ہڑپ کر گئے۔ یہ ناقابلِ فہم ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ترقی دے کر انہیں ایک قومی ادارے کا سربراہ کیوں بنا دیا جاتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا انہیں تردید نہ کرنی چاہیے؟ ذاتی طور پر نہیں، سرکاری اہتمام سے۔ حکومتِ پنجاب کے متعلقہ محکمے کو واضح کر دینا چاہیے کہ کانفرنس پہ کل کتنے اخراجات ہوئے، کن کن مدوں میں۔ یہ بھی کہ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر دکھایا جانے والا نوٹیفکیشن کیا جعلی ہے؟ مزید یہ کہ بے معنی سرکاری کانفرنسوں پر بے دردی سے قومی سرمایہ لٹانے کی روایت پختہ ہے۔ 
افتخار عارف نے کہا تھا ؎
حرفِ انکار سے پڑ سکتے ہیں سو طرح کے پیچ 
ایسے سادہ بھی نہیں ہیں کہ وضاحت کریں ہم
یہاں ایک برعکس معاملہ ہے۔ وضاحت کرنا ہی پڑے گی ورنہ ہوا کے دوش پر اڑتے بیج کہیں اور اُگیں گے۔ کچھ اور جنگل لہلہا اٹھیںگے۔ سرکار دربار والوں کے لیے کچھ اور راستے تاریک ہو جائیں گے۔ خلقِ خدا کو اپنے حکمرانوں سے ایک خاص طرح کی نفرت ہوا کرتی ہے۔ 
نازک موضوعات پر قوم کو اعتما دمیں لینا کتنا اہم ہے۔ ایک مثال پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمٰن کی اخبار نویسوں سے ملاقات کا حوال ہے۔ ضربِ عضب کے اختتام پذیر ہونے کی اطلاع دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ بڑی فوجی کارروائیوں کی اب ضرورت نہیں رہی۔ پہلے بھی کئی بار اعلان ہوا مگر مہم دراز ہوتی رہی۔ جنرل ہدایت الرحمٰن نے اب اعداد و شمار کے ساتھ واضح کیا ہے تو شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوںکے ساٹھ فیصد مہاجر یعنی 200,446 خاندان واپس بھجوائے جا چکے۔ 40 فیصد باقی ہیں۔ 135,236 خاندان، جو نومبر تک چلے جائیں گے۔ خوش کن اطلاعات اور بھی ہیں۔ مثلاً یہ کہ بعض قبائلی علاقوں کے مکین از خود اسلحہ واپس کر رہے ہیں۔ خود کو وہ محفوظ پاتے ہیں۔ بعض دیہات میں دہشت گردوں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ دہشت گردی کی چودہ سالہ جنگ نے، جسے خانہ جنگی کہنا چاہیے، جناب سرتاج عزیز کے بقول ملک کو 110 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ یہ خونیں دور سمٹ رہا ہے۔ صرف وزیرستان نہیں، بلوچستان اورکراچی میں بھی۔ دہشت گرد جہاں سیاسی طور پر بھی تحلیل ہونے لگے ہیں۔ خطرہ اگرچہ تمام نہیں ہوا۔ اعداد و شمار یہ کہتے ہیں کہ کراچی میں دہشت گردی 70 فیصدکم ہوئی ہے۔ ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات 20 فیصد رہ گئے۔ 2013-14ء میں یہ تعداد 618 تھی، رواں سال 38۔ اغوا برائے تاوان میں 85 فیصد کمی آئی ہے۔ 2013ء میں ایسے 1524 واقعات ہوئے تھے۔ 2014ء میں 899 اور 2015ء میں 303۔ امسال صرف 36۔ دیہی سندھ میں رینجرزکی کامیابیاں اور بھی زیادہ ہیں، جہاں وڈیرے بھی ملوث تھے۔ دیہات اور قصبات میں اب یہ سنگین جرم محدود ہوکر دس فیصد رہ گیا ہے۔ دنیا کے بڑے شہروں میں جرائم کے اعتبار سے کراچی کا چھٹا نمبر تھا، اب اکتیسواں ہے۔ شہر کی صنعتی زندگی بحال ہو رہی ہے۔81 بند پڑے کارخانے سالِ گزشتہ بروئے کار آئے۔ جائیداد کی قیمت میں 23 فیصد اضافہ ہوا۔ سالِ گزشتہ رمضان المبارک کے موقع پر 78 ارب کا کاروبار ہوا۔ امید ہے کہ امسال یہ 85 ارب کو چھو لے گا۔ ایران سے سمگل کردہ پٹرول اور ڈیزل کی فروخت کا سنگین سلسلہ دم توڑ رہا ہے۔ گزشتہ سال کے دوران پاکستان سٹیٹ آئل کے پٹرول پمپوں نے 8.3 ارب روپے کا زیادہ تیل فروخت کیا، 2014ء کے مقابلے میں دگنا۔
بحیثیتِ مجموعی بلوچستان میں پیش رفت اور بھی زیادہ ہے۔ طویل عرصے کے بعد جہاں ایف سی کا سربراہ ایک ایسا شخص ہے، جس کی دیانت مسلّمہ سمجھی جاتی ہے۔ فوج کا یہ ذیلی ادارہ اس سے پہلے تباہی کی طرف گامزن تھا۔ تاریخی کارنامہ یہ ہے کہ عام آبادی میں نفرت کا خاتمہ ہوا۔ بہت تیزی سے وہ مرکزی سیاسی دھارے کا حصہ بن رہی ہے۔ کرپشن کا ناسور البتہ بے قابو ہے۔ سیاسی کامیابیاں غیرمعمولی ہیں مگر جہاں تک لوٹ مار کا تعلق ہے، اس میں سیاستدانوں کا حصہ افسر شاہی سے بھی زیادہ ہے۔ ابھی تک ان کے خلاف کارروائی کا آغاز نہیں ہوا۔ اس ہفتے کے اختتام پرکوئٹہ کا قصد ہے کہ تصویر کچھ زیادہ واضح ہو سکے۔ امن کے امکانات ہی سے گھبرا کر بھارت اور امریکہ کچھ زیادہ متحرک ہوئے ہیں، خاص طور پر بلوچستان میں۔ ایران کو اپنے ساتھ گھسیٹ لانے کی وہ کوشش کر رہے ہیں۔ بھارت اور بھارت نواز عناصرکا دبائو اشرف غنی برداشت نہیں کر سکے اور وعدہ معاف گواہوں کی سی گفتگو فرما رہے ہیں۔ دس ہزار ارب ڈالر معیشت والے چین کو ہم ایک محفوظ اقتصادی راہداری دینے میں کامیاب رہے تو بھارت، ایران اور افغانستان کا اتحاد بے معنی ہو جائے گا۔ ان سیاسی اور عسکری دہشت گردوں پہ نگاہ رکھنے کی ضرور ت ہے، جو اقتصادی راہداری کے مخالف ہیں۔ 
آئی ایس پی آر ایک زمانے میں اخبار نویسوں کے لیے آف دی ریکارڈ بریفنگ کا اہتمام کیا کرتا تھا، وہ سلسلہ کیوں ختم کر دیا گیا؟ جنگ کا آخری مرحلہ خطرناک ہوتا ہے۔ ظفرمند لشکر آسودہ ہو جائے توکیے دھرے پر پانی پھر جاتا ہے۔ حکومت اور افواج کو اور زیادہ چوکس رہنا چاہیے۔ حیلہ ساز ملّا اور این جی اوز والے متحرک ہو رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں