چالیس برس ان کا شاعر پکارتا رہا۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
مگر وہ اپنے حکمرانوں کی طرف دیکھتے ہیں ،مگر وہ امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں ، جیسے وہ خدا ہو۔
انکل سام اور بھارت کے نہیں ، ہمارے مسائل خود اپنے پیدا کردہ ہیں ۔ حل بھی خود ہم ہی تلاش کر سکتے اور متلاطم پانیوں کے پار اتر سکتے ہیں ۔ واشنگٹن پہلی بار ہم سے بیزار نہیں ہوا۔امریکہ کو ہماری ضرورت پڑے گی ، جس طرح کہ ہمیشہ پڑتی رہی۔ انتظار کرنے کی بجائے، تیاری کا آغاز کرنا چاہئیے ۔ ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہوں تاکہ تب اپنی شرائط منوا سکیں ۔ اقوام کے تعلقات میں زیر و بم ہوتاہے ۔ ملک اپنے مفادات کے اسیر ہوتے ہیں ۔ زمانہ ایک ندّی ہے ، کبھی جس میں خروش جاگتا اور حیران کرتا ہے ۔ کبھی اس کی لہریں گنگناتی اور گیت گاتی ہیں ۔فان مع العسر یسرا ان مع العسر یسرا۔ تنگی کے ساتھ آسانی ہے ۔
سرد جنگ کے چار عشروں میں امریکی احتیاج مند تھے ۔ ایسی جگہ ہم واقع ہیں کہ دنیا کو ہم سے فراغت نہیں مل سکتی ۔ پاکستان ایک حادثاتی ریاست نہیں جیسا کہ مرعوب احمق سمجھتے ہیں ۔یہ ڈیڑھ ہزار برس کے تاریخی عمل میں بتدریج متشکل ہوئی ہے۔ محمد بن قاسم کی آمد ، وسطی ایشیا سے فاتحین کی پیہم یلغاروں سے محمد علی جناح ؒ کی نمود تک ، عہدِ آئندہ جنہیں ان کے نام نہیں ، اعزاز سے یاد رکھے گا، قائدِ اعظم ، سب لیڈروں سے بڑے لیڈر۔ یہ مذہبی ، سیاسی ، اقتصادی اور سماجی عوامل ہیں ، جو امتوں کے مقدر کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ عالمی طاقت یا کوئی طاقتور پڑوسی نہیں ۔
امریکہ خورسند تھا تو ہمارے پر نہیں نکل آئے تھے کہ اڑتے پھریں ۔ روٹھ گیا تو ہمارے پائوں نہ ٹوٹ جائیں گے۔ خودترس دانشوروں کو چھوڑیے ۔امریکی ناراضی ہماری افغان پالیسی نہیں ، تجارتی راہداری کے سبب ہے ۔ چین کی 4000ارب ڈالر برآمدات کو دوسرا سمندر نصیب ہو جائے گا۔ مشرقِ وسطیٰ ، افریقہ او ریورپ کے ساتھ اس کالین دین بڑھے گا ہی نہیں ، کم نرخ بھی ہو سکے گا۔ امریکیوں کو خدشہ ہے کہ وہ مقابلے کی عالمی طاقت بن جائے گی۔ بتدریج اس خطے میں وہ امریکہ سے اہم تر ہوتا جائے گا؛چنانچہ کسی قدر پاکستان بھی۔
نریندر مودی چاہ بہار پہنچے تو پاکستانی اخبار نویسوں اور لیڈروں کے دل ڈوبنے لگے ۔ گلوب پر نظر جما کر دیکھئیے ۔چاہ بہار گوادر کا بدل کبھی نہیں بن سکتا۔ امریکی سرپرستی میں بہترین بھارتی اور ایرانی کوششوں کے باوجود سالِ گذشتہ پاکستان کے راستے افغان تجارت میں بیس فیصد اضافہ ہوا۔یہ زمین روزِ قیامت تک ایسی ہی رہے گی ،جب اپنے خزانے وہ اگل دے گی او رچپاتی جیسی ہو جائے گی ۔
ایرانی خارجہ پالیسی میں تغیر کا عمل بہت پہلے سے جاری تھا۔ آخر کار اسے امریکہ کے ساتھ جا بیٹھنا تھا۔ علاقائی سیاست میں امریکہ بھارت کا ہم نفس ہے ۔ ملّائوں کی انقلابیت ایک فریب تھا۔ کہر اور دھوپ کے موسموں میں رفتہ رفتہ جو دھلتا رہا۔ عراق میں ، افغانستان میں وہ انکل سام کے ساتھ تھے ۔ کوئی دن جاتاہے کہ اعلانیہ وہ اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔ اسرائیل جب بھی اپنی سرحدوں سے باہر نکلا۔۔۔ اور لازماً وہ نکلے گاتو ایران اس کا حریف ہرگز نہ ہوگا ۔ امام خمینی کو مٹی اوڑھ کر سوئے بہت دن بیت گئے ۔ جس نے سنی شیعہ اختلاف کم کرنے کے لیے جرات مندانہ فیصلے کیے تھے۔ ایران اور افغانستان کے بارے میں اگر ہم برہمی کا شکار ہو گئے تو ہم سے بڑا احمق کوئی نہ ہوگا ۔یہی تو دشمن چاہتاہے ۔
ایران اور عرب ،دونوں اپنے اپنے ماضی میں زندہ ہیں ۔ عرب ایک گیت گایا کرتے ہیں '' ہم عرب ہیں ، گھوڑے کی پیٹھ، میدانِ جنگ کا علم اور سینے کا زخم ہمیں جانتاہے ، تاریخ ہمارا قرض چکا کر رہے گی‘‘ شعر اچھا ہے مگر ادبی جمالیات ایک چیز ہے اور زندگی کے حقائق چیزِ دگر ۔ ثمر، سرزمینوں اور نسلوں کو نہیں ، خلوص، اعمال اور تگ و دو پہ لگتا ہے ۔عرب سوچتے ہیں :آخری پیغمبرؐ کا ہم میں ظہور ہوا تھا۔ آدھی دنیا پہ ہم نے حکومت کی تھی ۔جی نہیں ، وہ رحمتہ اللعالمین تھے، تمام زمانوں ،تمام انسانوں ، تمام نسلوں اور تمام سرزمینوں کے ۔ ان کا فرمان یہ ہے : عربی کو عجمی پر ، عجمی کو عربی پراورکالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں ۔ تم سب آدمؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ مٹی سے پیدا کیے گئے ۔
چودہ سوبرس سے ایرانیوں کا گھائو زندہ ہے ۔ بو علی سینا نے کہا تھا: جو اپنے زخم یاد رکھتاہے ، اس کے زخم ہرے رہتے ہیں ۔ ایران کے اجتماعی لاشعور میں ہزیمت کا داغ ہمیشہ دمکتا رہا ۔ دنیا کے کسی بھی خطے سے زائرین حافظ و سعدی کی سرزمین میں داخل ہوں ، نگاہِ تحقیر سے دیکھے جاتے ہیں ۔ ہم پاکستانی اور بھی ۔ اس لیے کہ دو ہزار برس پہلے ایرانی اس خطہ ارض پہ حکمران تھے ۔ ایرانیوں سے ہم نفرت نہیں کرتے ۔ ملّا کی مان کر کرنی بھی نہیں چاہئیے ۔ حدیثِ رسولؐ میں اشارہ یہ ہے کہ مذہبی جنونی باہم لڑ مرتے ہیں ۔
کوئی قوم اگر اپنے ماضی میں زندہ رہے تو حال میں کیسے وہ بروئے کا رآئے گی ؟ ہمارا مرض بھی یہی ہے ۔ جوشِ عمل سے محروم ، گزرے زمانوں کی یاد میں گم ۔سرکار ؐ کا فرمان یہ ہے : شیطنت وہیں سے آغاز کرتی ہے ، جہاں سے ''اے کاش‘‘ شروع ہوتاہے ۔
آدم زاد کی ساری کہانی، عروج و زوال کی کہانی ہے ۔ کوئی قوم نہیں ، جس نے فروغ نہ پایا ہو اور کوئی قوم نہیں ، جو پست نہ کی گئی ہو ۔ کوئی معاشرہ نہیں جو بگڑا نہ ہو او رکوئی نہیں جو سنور نہ سکتا ہو۔ مورخ یہ کہتے ہیں کہ دنیا کے حکمران کبھی اہلِ افریقہ تھے ۔
1960ء کے عشرے میں پاکستان کے بارے میں یہ کہا گیا تھا : اگر کوئی ملک امریکی ریاست کیلی فورنیا ایسی خیرہ کن ترقی کے امکانات رکھتاہے تو وہ پاکستان ہے ۔ ترکی یورپ کامردِ بیمار تھا۔ ملائیشیا میں فی کس آمدن 40ڈالر تھی ۔ پاکستان میں تب شرحِ ترقی بھارت سے دو گنا ، اڑھائی گنا اور بعض برسوں میں تین گنا تک ہو اکرتی ۔ سیاسی استحکام ، امن او رموزوں منصوبہ بندی سے اب بھی 12فیصد شرحِ ترقی ممکن ہے ۔
اپنے امکانات ہم کیوں بروئے کار نہ لا سکے ؟ بھارتی سازشوں ،امریکی بے التفاتی اور حکمرانوں کی بے حسی کے نوحے پڑھتے دانشوروں کو اس سوال کا جواب دینا چاہئیے ۔ آدم کی اولاد نے ان گنت نواز شریف او ران گنت زرداری دیکھے ہیں ۔ وہ رزقِ خاک ہوئے، یہ بھی ہو جائیں گے ۔ دولت کے پجاریوں اور اقتدار کے بھوکوں سے کیاشکوہ ۔ ہر خرد مند آدمی کو خود سے یہ سوال کرنا چاہئیے کہ خود اس نے ملک کے لیے کیا کیا؟ ہر بحران مواقع لے کر آتاہے ۔مصیبت میں گھبراہٹ ایک دوسری مصیبت ہے ۔ رونے پیٹنے میں جو وقت ہم صرف کرتے ہیں ، کام کاج میں کیوں نہ کریں ؟
زمین کے نیچے لوہے، سونے ، تانبے اور کوئلے کے انبار پڑے ہیں ۔ اوپر دریا بہتے ہیں ۔ بارشیں برستی ہیں ۔ خاک سے چشمے ابلتے ہیں ۔ مخلوط نسلوں کے فرزند ، اس کے باشندے دنیا کی سات ذہین ترین اقوام میں سے ایک ہیں ۔ بس ایک بات وہ نہیں جانتے : دوسروں کی عنایت سے کوئی جیتا ہے ، نہ مرتا ہے ۔ سرسبز ہوتاہے اور نہ بنجر ۔ چالیس برس ان کا شاعر پکارتا رہا۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
مگر وہ اپنے حکمرانوں کی طرف دیکھتے ہیں ،مگر وہ امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں ، جیسے وہ خدا ہو۔