لفظ تمام ہوئے اور زخم باقی ہے۔ یہ ہمیشہ باقی رہے گا۔ علم کا کوئی بدل نہیں۔ غور و فکر کا کوئی متبادل نہیں۔ اہلِ علم سے دور، خوشامدیوں میں گھر جانے والے لیڈر اسی طرح پھسل کر گرتے ہیں۔ یہ توفیق بھی نہیں رہتی کہ غلطی ہو جائے تو ادراک کریں، توبہ اور تلافی کریں۔
عمران خاں اور مولانا سمیع الحق کا دفاع؟ اقبالؔ نے کہا تھا: غلامی بد ذوقی کو جنم دیتی ہے۔ بدصورتی نہ صرف گوارا بلکہ پسندیدہ ہو جاتی ہے۔ اقتدار کی جنگ میں بھی شاید یہی ہوتا ہے۔
شیطان سلاخوں کے پیچھے ہیں مگر آدم زاد کی جبلتیں تو وہی ہیں۔ خواہش کی پیروی سے نتیجہ تو وہی نکلے گا۔ عارف نے کہا تھا: شیطان ایک کاشتکار ہے، جو نفس کی زمین میں کاشتکاری کرتا ہے۔ کپتان سے امید دم توڑ رہی ہے۔ اب وہ زرداری صاحب کے فرزندِ ارجمند سے مل کر کرپشن کے خاتمے کا آرزومند ہے اور مولانا سمیع الحق کے اشتراک سے رواداری اور علم کے فروغ کا۔
امجد صابری کی ناگہاں موت کا صدمہ بہت ہے۔ عمران خاں کی باقی ماندہ خوش ذوقی اور روشن خیالی کی وفات اس سے کہیں زیادہ المناک ہے۔ جن کے لیے صدام حسین اور کرنل قذافی کا دستر خوان طیّب تھا، آج وہ ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ کبھی وہ اقبالؔ اور قائدِ اعظم کا پیروکار تھا۔ آج اکوڑہ خٹک جا پہنچا، 1946ء میں تحریکِ پاکستان کے خلاف جو ایک مورچہ تھا۔ کل خدا جانے وہ کہاں جا پہنچے۔ سربلندی کی آرزو میں جب کوئی لیڈر خود کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے تو اس کا انجام کیا ہوتا ہے؟ ڈھونڈ پایا تو عمران خان کو ایک کتاب میں پیش کروں گا۔ یہ دارا شکوہ کے لشکر میں ایک اطالوی توپچی کی سرگزشت ہے۔
اورنگ زیب کو اقبالؔ نے ''ترکشِ ما را خدنگِ آخریں‘‘ کہا تھا۔ مسلمانوں کے ترکش کا آخری تیر۔ عالمگیر سے نفرت کرنے والے مگر بہت تھے۔ انگریز، مغل شوکت کی یاد جن میں احساسِ کمتری پیدا کرتی۔ ہندو، جن پر سات سو سال تک مسلمانوں نے حکومت کی تھی۔ مذہبی فرقہ پرست، جن کے دامن میں نفرت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ مغلوں کے زوال نے انہیں تین صدیوں کی مہلت عطا کی۔ تین صدیوں میں سماجی یادداشت کے رنگ دھو کر اسے یکسر نیا روپ دیا جا سکتا ہے۔
مگر تاریخ کا کوئی بھی سنجیدہ طالبِ علم عمومی تاثر پر رائے قائم نہیں کرتا۔ ذہن میں کچھ سوالات تھے۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ بیک وقت ہندو مت، عیسائیت اور اسلام سے وابستگی کا دعویٰ کرنے والا دارا شکوہ دراصل کیا تھا؟ صوفی؟ صوفی ریاکار نہیں ہوتے۔
ترک مصنف ایلف شفق کے منفرد ناول "Forty rules of love" نے ایک گرہ کھول دی۔ چار پانچ مختلف کردار اپنی کہانی سناتے ہیں۔ اس کے باوجود تسلسل مجروح نہیں ہوتا۔ واقعات کا ربط اور بہائو برقرار رہتا ہے۔ تیرھویں صدی کے آغاز سے اکیسویں صدی تک پھیلی اس داستان میں شمس تبریز اور مولانا روم کے 40 اقوال ہیں۔ کیا ایک ناول تصوف کو بیان کر سکتا ہے، جس کے سب کردار فرضی ہوں اور صرف ایک حقیقی؟ ایلف شفق کی کتاب اس سوال کا جواب ہے۔ حرف و بیان کی دنیا میں بہت سے تجربات ابھی ہونا ہیں۔ جب تک گردشِ لیل و نہار قائم ہے، فنون کی دنیائوں میں کرامات جاری رہیں گی۔
مولانا روم سے ملاقات کے لیے شمس تبریز استنبول کا قصد کرتے ہیں۔ اس موقع پر ایک پوچھنے والے کو وہ بتاتے ہیں: دنیا میں اتنے ہی جعلی اور جھوٹے صوفی ہو سکتے ہیں، جتنے آسمان پہ ستارے۔
بہت سے قصے ہم اخبارات میں پڑھتے ہیں۔ درجنوں قصائد لکھے جا چکے تو امجد اسلام امجد نے سیاہ پوش بہروپیے کو امرتسر کے گولڈن ٹیمپل میں دیکھا۔ ایک وہ تھا، عمران خان کو جس نے بتایا تھا کہ 16ستمبر 2014ء سے اس کے اقتدار کا آغاز ہو جائے گا۔ خان کو اس نے ''آزادی یا موت‘‘ کا نعرہ دیا۔ شہر کے گلی کوچوں میں پھر یہ اعلان کرتا پھرا کہ نئی کابینہ کی تشکیل اس کی رہنمائی میں ہو گی۔ آج بھی اس کے مرید اخبارات میں اس کے اقوال کے موتی بکھیرتے ہیں۔ درآں حالیکہ ایک بار اس نے کہا تھا: مانگنے کے مقام سے میں آگے گزر چکا ہوں۔ اللہ کا کوئی پیمبر، حتیٰ کہ ختم المرسلینؐ بھی پرورددگار کی رحمت سے کبھی ایک لمحے کو بے نیاز نہ ہوئے۔
معراج کے سفر میں اس رشتے کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ایک طرف تو ''دو کمانوں سے بھی کم فاصلہ‘‘۔ دوسری طرف رحمتہ اللعالمین اور ختم المرسلین کی بجائے، سراجاً منیرا کی بجائے، فقط شرفِ بندگی کا ذکر ہوا۔ ''لے گیا اپنے بندے کو وہ راتوں رات...‘‘
عمران خان اگر اس شخص سے متاثر ہو گئے تو مولانا سمیع الحق سے کیوں نہیں، جو اس کاروبار کا سوا سو سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ جی ہاں سوا سو سال کا۔ دیوبند کے خفیہ سیاسی سیل اتنی ہی عمر رکھتے ہیں۔ ایم کیو ایم میں دو متوازی جماعتیں ہیں۔ ایک سیاسی اور دوسری دہشت گرد۔ ایک ہر حال میں عوامی اعتماد حاصل کرتی اور الیکشن جیت جاتی ہے۔ دوسری دہشت گرد ہے اور بھارتی ترجیحات کے مطابق قتل و غارت گری کرتی ہے۔ دیوبند بھی دو عدد ہیں۔ ایک مذہبی اور دوسرا سیاسی۔ جزئیات سے قطع نظر، مذہبی اعتبار سے وہ امام ابو حنیفہؒ کے پیروکار ہیں، جس طرح کہ بریلوی مکتبِ فکر۔ سیاسی گروہ البتہ کانگرس کا حامی تھا۔ اب بھی ہے۔ جیسا کہ بار بار عرض کیا: سب لوگ محب وطن ہوتے ہیں ۔ اس سعید جذبے کا کوئی تعلق علاقے، رنگ، نسل، مذہب اور اندازِ فکر و نظر سے نہیں ہوتا۔ ذہنی غسل یا مفادات کے نتیجے میں کوئی شخص بھی بے وفائی کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات گروہوں کے گروہ۔
ایک بہت اہم اور دلچسپ سوال پوچھا گیا ہے۔ مولانا کا مدرسہ اگر قابلِ قبول نہیں تو باچا خان، عبدالولی خان اور اجمل خٹک وہاں کیوں جاتے رہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ سب کے سب دیوبند سے متاثر تھے‘ اور فکری طور پر کانگرس سے۔ مولانا سمیع الحق کے مدرسے کی مطبوعات کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے خلاف کتنے ہی مضامین اس میں موجود ہیں۔
ساڑھے تین سو برس پہلے شائع ہونے والی اطالوی توپچی کی خود نوشت اس کے آقا دارا شکوہ پر روشنی ڈالتی ہے۔ مصنف اورنگ زیب عالمگیر کا مخالف ہے؛ تاہم دارا شکوہ بھی اس کے اوراق میں بے نقاب ہے۔ صوفی تو رہا ایک طرف، وہ بنیادی اخلاقی اقدار سے بھی محروم ہے۔ ریاکار، ضدی اور بدتمیز۔ بہروپ سٹیج پر ہوتا ہے، دور سے دیکھنے والوں کے لیے۔ اپنے ہم نفسوں کے درمیان اداکاری کے جوہر نہیں چمکتے، کردار بیان ہوتا ہے۔ بے ساختہ اظہار و اقوال اور عادات و اطوار میں، جن پر قابو پانا ممکن نہیں۔
ایک ذرا سا حسنِ ظن اب بھی عمران خاں سے باقی ہے۔ خدا کرے، کوئی اسے سمجھا سکے کہ مولانا سمیع الحق کو تیس کروڑ روپے عطا کرنا، مولانا فضل اللہ کو اربوں روپے دینے کے مترادف ہے۔ سیاسی فکر میں وہ سب ایک ہیں۔ مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمٰن اور میاں صاحب کا پسندیدہ اخبار نویس جو یہ کہتا ہے: بھارت نے اپنی سرحدوں کے باہر کبھی کارروائی نہیں کی، پاکستان کرتا ہے۔
کسوٹی قائدِ اعظم ہیں۔ کسوٹی تحریکِ پاکستان ہے۔ بے مثال اخلاقی کردار کے رہنما اور مسلم برصغیر کے اتفاقِ رائے کی تائید کرتے ہوئے ان لوگوں کو ذہنی اذیت کیوں ہوتی ہے۔ عمران خاں نے اپنے چاہنے والوں کو کتنا دکھ پہنچایا ہے، وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اس نے گویا قائدِ اعظمؒ کے خلاف ووٹ دے دیا۔ کمال یہ ہے کہ وہ تاویل کی ہمت بھی رکھتا ہے۔
لفظ تمام ہوئے اور زخم باقی ہے۔ یہ ہمیشہ باقی رہے گا۔ علم کا کوئی بدل نہیں۔ غور و فکر کا کوئی متبادل نہیں۔ اہلِ علم سے دور، خوشامدیوں میں گھر جانے والے لیڈر اسی طرح پھسل کر گرتے ہیں۔ یہ توفیق بھی نہیں رہتی کہ غلطی ہو جائے تو ادراک کریں، توبہ اور تلافی کریں۔