"HRC" (space) message & send to 7575

زیادہ حدِّ اَدب!

حسین بن منصور حلاج کو زندان سے نکال کر گورنر کی خدمت میں پیش کیا گیا تو وہ مسکرا رہا تھا۔ گورنر حیران، بیٹھنے کا اسے حکم دیا مگر اس نے انکار کر دیا۔ پوچھا گیا تو اس نے کہا: میں نے یہ دیکھا ہے کہ ایک بار دربار میں جو بیٹھ جائے، عمر بھر کھڑا نہیں ہو سکتا۔
بیس برس کے بعد لارڈ میں ٹیسٹ میچ جیتنے کے بعد، مصباح اور اس کے ساتھیوں نے فوجی افسروں کو غائبانہ سلیوٹ کیا، جنہوں نے ان کی سلوٹیں نکال دی تھیں۔ فرزند کی بازیابی پر سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا: سارا کردار ہی فوج کا ہے۔ انگریزی اخبار کے مطابق چینی حکومت کی خواہش ہے کہ تجارتی راہداری کی تعمیر و تشکیل میں جنرل حضرات بھی شریک ہوں۔ وزیر اعظم پر نکتہ چینی کی جسارت کرنے والے اخبار نویسوں کو ان کے خیر خواہ نے ''تنخواہ‘‘ دار لکھا اور ارشاد کیا کہ وہ فوج کو مارشل لاء نافذ کرنے پر اکسا رہے ہیں۔ جی نہیں، حضور! برسوں سے چیخ چیخ کر وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ سول اداروں کی کارکردگی بہتر بنائی جائے۔ ہماری پولیس بھی ترک پولیس جیسی ہو جائے، جس نے بغاوت کا ارتکاب کرنے والے احمقوں کی گوشمالی کی،گرفتار کیا۔ اللہ کے فضل سے جملہ تو ایسا سوجھا کہ سننے والوں نے جھوم جھوم کر داد دی مگر لکھوں گا نہیں، زیادہ حدِّادب!
جنرل اشفاق پرویز کیانی، صدر اوباما کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن سے نالاں تھے۔ دماغ کھاجاتی، بولتی بہت تھی۔ ایک دانا سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا: بولنے دیجیے، آپ کا کیا لیتی ہے۔ بول بول کر تھک جائے تو شائستگی اور وقار سے اپنا نقطۂ نظر واضح کر دیجیے، دلائل و براہین کے ساتھ۔ ایک دن موم کی طرح پگھل گئی۔ بولی، قبائلی علاقوں کے لیے 200ملین ڈالر دے سکتی ہوں۔ انہوں نے انکار کر دیا۔ سڑکوں 
کی اگرچہ ضرورت تھی۔ 700کلو میٹر لمبی ایک شاہراہ بھی ان کے ذہن میں تھی کہ وزیرستان کا فاصلہ آدھا رہ جاتا، مگر انکار کر دیا۔ کہا: صوبائی حکومت کو دیجیے، ہم البتہ شریک ہو جائیں گے، ان کی مدد کریں گے۔ نہ صرف سڑک تعمیر کی بلکہ بندوبست کیاکہ مزدور کو دوگنا ادائیگی کی جائے۔ کہا: سال،دو سال بھر کی مزدوری سے ایک لاکھ روپے اگر جمع کرلے تو چھوٹا موٹا کاروبار کرلے گا۔ اس کی زندگی سنور جائے گی۔ نکتہ یہ ہے کہ جدید تحقیقات کے مطابق دس میں سے نو کاروبار کامیاب ہوتے ہیں۔ سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک یہ ہے کہ دس میں سے نو حصے رزق تجارت میں ہے۔ حدیث مسلمان پڑھتے نہیں ۔ جو پڑھتے ہیں، وہ غور نہیں کرتے۔ غور کریں تو حکومت کبھی کاروبار نہ کرے۔عمران خان اور سراج الحق پی آئی اے کی نجکاری پہ ناراض نہ ہوں۔ فرمایا: دوکانداری حکمرانوں کا کام ہی نہیں۔ جس دن یہ فرمان سنا تھا، سوشلزم کی گتھی سلجھ گئی ۔ 
سعودیوں نے جنرل سے کہا کہ ایک ارب ڈالر وہ دے سکتے ہیں مگر افواجِ پاکستان کو، زرداری حکومت کو نہیں۔ وجہ ظاہر تھی ، بڑا حصہ غائب ہو جانے کا اندیشہ تھا۔ صدر زرداری ریاض تشریف لے گئے تو ملک عبداللہ نے کرسیاں سوئمنگ پول کے دونوں طرف لگوائیں۔ عینی شاہد نے ناچیز کو بتایا پانچ منٹ کے بعد وہ اٹھ گئے۔ یہ ساکھ تھی ان کی۔ اب کی بار جنرل نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ یہ پیش کش وہ قبول نہیں کر سکتے۔ یہی ایک ارب ڈالر تھے، جس میں مزید 500ملین شامل کر کے نواز حکومت کو دیئے گئے۔اسحق ڈار نے جس کو ایک کارنامے کے طور پر پیش کیا۔
ترک پولیس میں پانچ سو پی ایچ ڈی افسر ہیں۔ انہیں یہ مشورہ ایک پاکستانی پولیس افسر نے دیا تھا۔ ترک ہی نہیں، وہ جاپان پولیس کے بھی مشیر ہیں، دنیا میں جو سب سے بہتر مانی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے جرم و انصاف کے منتخب صدر ہیں۔ چار ماہ ہوتے ہیں، یہ الیکشن ٹوکیو میں ہوا تھا۔ 2002ء کے پولیس آرڈر کے معماروں میں سے ایک ہیں۔ ترکوں کو انہوں نے بتایا کہ پرانی پولیس گردی اب نہیں چل سکتی۔ یہتخصّص(Specialization) کا زمانہ ہے۔ اب ہر شعبے کو ماہرین درکار ہیں اور جدید ترین ٹیکنالوجی اختیار کیے بغیر، جرم کا سدّباب ممکن نہیں۔
ملک بھر میں گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں، اگر ایک سی ہوں؟ اگر ان کے ساتھ ٹریکر لگے ہوتے تو شاید اویس شاہ کے اغوا کار اسی شام گرفتار ہو جاتے۔ آخرکار فوج ہی نے انہیں پکڑا اور کس طرح؟ ڈیرہ اسمٰعیل خان کے باہر تیز رفتاری سے بریکر اس نے عبور کر لیا تو فوجی جوان نے تاک کر گولی چلائی، ڈرائیور کے سر کو ہدف کیا۔ جیسا کہ جنرل باجوہ نے اخبار نویسوں کو بتایا: اویس شاہ کو برقعہ پہنا رکھا تھا، منہ ٹیپ سے بند تھا۔ ہاتھ اور پائوں میں زنجیریں تھیں۔
دوبار فوجیوں نے پوچھا کہ برقعے میں کون ہے۔ کوئی جواب نہ پا کر انہوں نے نقاب الٹ دیا۔ حملہ کرنے والے دہشت گردوں کی ہلاکت کے بعد اویس شاہ کو وہ فوجی کیمپ میں لے گئے۔ مسئلہ اب یہ تھا کہ ہتھکڑی کی چابی نہ مل رہی تھی۔ شاید کسی دہشت گرد کی جیب میں ہو۔ انہیں وہ پیچھے چھوڑ آئے تھے؛ چنانچہ ہاتھ اور پائوں کی زنجیریں کاٹنے کا عمل شروع ہوا۔ اس وقت رات کے ساڑھے تین بجے تھے۔ فوری طور پر چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کو جگایا گیا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل رضوان اختر اور پشاور کے کور کمانڈر جنرل ہدایت کو بھی۔ نوجوان بیرسٹر نے فوجیوں کو بتایا کہ ڈیرہ اسمٰعیل خان لانے سے پہلے اسے تین مختلف مقامات پر رکھا گیا۔ اس کا کوٹ پتلون اور نکٹائی اتار دی گئی تھی اور شلوار قمیض پہنا دی تھی۔ خوراک ایسی دی جاتی کہ کھانے کی بجائے زہر مار کرنا پڑتی۔ شاید اسی جملے کا نتیجہ تھا کہ نوجوان کے لیے بہترین ناشتے کا بندوبست کیا گیا۔ اب وہ بشاش تھا اور کچھ دیر میںچہکنے لگا۔ جنرل راحیل شریف پوری طرح بیدار ہو چکے تھے۔ وہ جنرل رضوان اور جنرل ہدایت کے ساتھ رابطے میں رہے۔ انہی کے حکم پر راولپنڈی سے وہ خصوصی طیارہ بھیجا گیا، چیف جسٹس کے فرزند کو جو کراچی لے گیا۔
یہ وہی ڈیرہ اسمٰعیل خان تھا، تین برس پہلے دہشت گردوں نے جس کی جیل پر حملہ کیا تو پختون خوا پولیس نے صرف دو گولیاں چلائی تھیں، صرف دو اور 300قیدیوں کو چھڑا لے گئے تھے۔ اس سے بڑا لطیفہ یہ تھا کہ وزیر اعلیٰ کو پہلے سے تحریری طور پر اطلاع دی جا چکی تھی۔ فوجی افسر کی طرف سے بھیجا گیا مراسلہ مگر پرنسپل سیکرٹری کی دراز میں پڑا رہا۔ نواز شریف کے ''خیر خواہ‘‘ کی ایک بات درست بھی ہے۔ کسی کو حق نہیں کہ فوج کو مارشل لا لگانے پر اکسائے۔ بدذوقی ہی نہیں یہ فساد پھیلانے والی بات ہے۔ المناک یہ ہے کہ ان لوگوں کو بھی تنخواہ دار قرار دے دیاگیا، جو مارشل لا کے مخالف ہیں۔ بار بار جو کہہ رہے ہیں کہ شریف حکومت 2018ء تک قائم رہے گی۔ وہ بھی ہیں جنہوں نے 14اگست 2014ء سے شروع ہونے والے دھرنے کی ڈٹ کر مخالفت کی تھی۔ اس زمانے کی یادیں کبھی رقم کیں، تو کچھ واقعات عرض کروں گا۔ آج تک وہ زخم مندمل نہیں ہو سکے جو اس زمانے میں دل پر لگے۔ لگ بھگ آٹھ ماہ تک عمران خان سے میری بات چیت بند رہی تا آنکہ اس نے اپنی غلطی کا ادراک کر لیا۔
سول ادارے، حضور! سول ادارے ملک تعمیر کرتے ہیں۔ سیاسی جماعت حضور، منظم سیاسی جماعت ہی جمہوریت کا سب سے اہم ادارہ ہے۔ پارلیمنٹ اس کے بطن سے پیدا ہوتی ہے۔ نفرت مگر تجزیہ کرنے نہیں دیتی۔ آزاد اخبار نویسوں سے کراہت کا عالم یہ ہے کہ سرکاری تقریبات میں ان کے داخلے پر پابندی ہے۔ اس کے باوجود جمہوریت بچانے کے لیے سرکاری اخبار نویسوں سے کہیں زیادہ اہم کردار وہ ادا کرتے ہیں۔سرکاری صحافیوں کی سنتا کون ہے؟ اپنوں کے طعنے الگ،ان کی گالیاں سوا۔
حسین بن منصور حلاج کو زندان سے نکال کر گورنر کی خدمت میں پیش کیا گیا تو وہ مسکرا رہا تھا۔ گورنر حیران، بیٹھنے کا اسے حکم دیا مگر اس نے انکار کر دیا۔ پوچھا گیا تو اس نے کہا: میں نے یہ دیکھا ہے کہ ایک بار دربار میں جو بیٹھ جائے، عمر بھر کھڑا نہیں ہو سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں